تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-03-2018

اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا

شریف خاندان پہ برا وقت اب ٹل نہیں سکتا۔ خود احتسابی کی توفیق اگر ہوتی تو نجات کی راہ نکل آتی۔ اس کمی فہمی‘ اس خود پسندی کے ساتھ‘ یہ توفیق مگر کہاں۔ خورشید رضوی کا ایک شعر یہ ہے:
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
میرا نہیں خیال کہ وزیر اعظم چیف جسٹس سے ‘ میاں محمد نواز شریف کی سفارش کرنے گئے ہوں۔ کیا وہ اتنے ہی نادان ہیں اور کیا چیف جسٹس اتنے ہی گئے گزرے ہیں ؟ نون لیگ کے لیڈروں اور خود وزیر اعظم کے بعض بیانات سے تلخی بہت بڑھ گئی تھی۔ اسے کم کرنے کی آرزو شاید انہیں قاضی القضاۃ کے دروازے پر لے گئی۔ وزیر اعظم نے کہا تھا: پانامہ کیس کے فیصلے کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے گا۔ فیصلہ نافذ ہو چکا اور عدالتوں کے آئندہ فیصلے بھی نافذ ہوں گے۔ وزیر اعظم کا یہ دعویٰ بھی درست ہو سکتا ہے کہ اس ملاقات کا ارادہ‘ انہوں نے خود کیا۔ میاں محمد نواز شریف کا اس میں کوئی عمل دخل نہ تھا۔ بدقسمتی سے‘ اپنا تاثر انہوں نے ایسا بنا لیا ہے کہ ایک تابع مہمل کے سوا وہ کچھ بھی نہیں۔ 
غالباً اب انہیں احساس ہوا ہے کہ شریف خاندان کے نامزد کردہ ہی سہی‘ وہی وزیر اعظم ہیں اور آئندہ چند ہفتوں تک‘ بہرحال یہ ذمہ داری انہیں ادا کرنی ہے۔ ظاہر ہے کہ شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ وزراء کرام پر توہین عدالت کے مقدمات‘ پینے کے صاف پانی‘ میڈیکل کالجوں کے معاملات اور بہت سے دوسرے امور۔ بار بار عدالت پوچھتی ہے کہ حکومت کام کیوں نہیں کرتی؟ احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد‘ افسر شاہی ٹھپ ہے۔ حکومتی اختیار برائے نام رہ گیا۔ ایسے میں رحم کی اپیل کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا تو عملیت پسند آدمی نے‘ اس دروازے پر دستک دی‘ جہاں سے کچھ سہارا مل سکتا ہے۔
کیا اپنا مقصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ بظاہر کوئی آثار نہیں۔ بات چیت میں وزیر اعظم کی بدن بولی‘ مذاکرات کار سے زیادہ ایک سائل کی تھی۔ کوئی کیسا ہی قہرماں ہو‘ عدالت کے سامنے سائل ہی ہوتا ہے۔ عسکری قیادت اور ججوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی‘ ہاتھ پھیلانے کے سوا چارہ کیا ہے؟ رہی سہی کسر‘ میاں نواز شریف نے بدھ کو پوری کر دی۔ کمزور آدمی خود کو بہادر ثابت کرنے پر تل جائے تو مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ سارا شور شرابا جلسے‘ جلوسوں میں ہے۔ اندر خانہ منت سماجت کا عمل جاری ہے۔ خاص طور پہ شہباز شریف کے ذریعے۔ کبھی تفصیل بھی عرض کروں گا۔
اس سوال کا شاید کبھی جواب نہ مل سکے کہ آٹھ دن تک‘ وزیر اعظم ریاست ہائے متحدہ میں کیا کرتے رہے؟ کیا امریکیوں سے التجا کرنے گئے تھے کہ شریف خاندان کی وہ مدد کریں؟ امریکہ بہادر کیا کر سکتا ہے؟ امریکی ترجیحات میں اہم ترین افغانستان ہے۔ پاکستان اور امریکہ کی ترجیحات مختلف ہیں۔ امریکہ بہادر‘ کابل میں مقیم رہ کر روس‘ ایران‘ وسطی ایشیا اور پاکستان پہ نگاہ رکھنا اور چین کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے علاوہ‘ خطّے میں بھارت کو ایک اہم کردار سونپنے کا آرزومند ہے۔ ڈوبتا ہوا شریف خاندان‘ امریکی ترجیحات سے متفق بھی ہو تو اس کا ہاتھ کیسے بٹائے؟
اس کی مشکلات کم کرنے کے لیے‘ وزیر اعظم عسکری قیادت سے بات کرتے رہے۔ سب سے بڑی خواہش‘ ان کی یہ تھی کہ مقدمات الیکشن تک ملتوی کر دیئے جائیں۔ ظاہر ہے کہ جنرلوں کا جواب نفی میں تھا۔ سپریم کورٹ سے یہ درخواست وہ کیسے کر سکتے ہیں؟
شریف خاندان کی مشکلات‘ خود اس کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور ملّا نصرالدین کی یاد دلاتے ہیں۔ کوئی دن ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر خورشید رضوی ملّا کا مزار دیکھنے گئے۔ کہا: موت کے بعد بھی زندگی اس آدمی پہ ہنستی ہے۔ مرقد کے دروازے پہ تالا پڑا ہے مگر دیواریں ٹوٹی ہوئی۔ وہی خورشید رضوی‘ جس نے کہا تھا:
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصہ ایّام سے ہجرت کر جا
پڑوسی نے عدالت میں نالش کی کہ ملّا نے اس سے عاریتاً مانگا ہوا قیمتی گلدان واپس کیا تو ٹوٹا ہوا۔ ملّا کا جواب یہ تھا: اوّل تو میں نے گلدان لیا ہی نہیں‘ ثانیاً ٹھیک حالت میں واپس کیا‘ ثالثاً‘ جب مجھے دیا گیا‘ اسی وقت شکستہ تھا۔
شریف خاندان سے پوچھا جاتا ہے کہ برطانیہ میں اربوں روپے کے فلیٹس انہوں نے کس طرح خریدے۔ روپیہ کس طرح حاصل اور منتقل کیا؟ طرح طرح کی کہانیاں وہ سناتے رہے۔ ہمارا اس جائیداد سے کوئی تعلق ہی نہیں‘ کرایے کے ہیں‘ الحمدللہ ہماری مِلک ہیں۔ ہمارے مرحوم والد نے دبئی سے اپنا سرمایہ قطر منتقل کیا تھا‘ وہاں سے لندن پہنچا۔ کوئی رسید؟ کسی بینک کا کوئی کھاتہ؟ جی نہیں‘ کوئی نہیں۔
باپ کے خلاف بغاوت کرکے بادشاہ بننے والے‘ شاہ جہان کو ان کے فرزند اورنگ زیب عالمگیر نے دلّی کے شاہی قلعے میں نظربند کر رکھا تھا۔ پوچھا: کوئی حاجت؟ پیغام ملا کہ پڑھانے کے لیے چند بچے بھجوا دیئے جائیں۔ فصاحت میں اورنگ زیب اپنی مثال آپ تھا۔ ''چوب مسجد‘ سوختنی نہ فروختنی‘‘ والا محاورہ اس سے منسوب کیا۔ کہا: بوئے سلطانی گئی نہیں۔
میاں محمد نواز شریف کا معاملہ یہی ہے بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر۔ حالات کی گردش نے‘ بھٹو کی پیپلز پارٹی سے ہراساں گروہوں نے‘ اقتدار کبھی ان کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ اب وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہر طرح کا دائو برت رہے ہیں۔ ایک اہم شخصیت کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ مستعفی ہو جائیں تو برسر اقتدار آ کر ممنون حسین کی جگہ‘ صدرِ پاکستان بنا دیں گے۔ اور یہ کہ حجرِ اسود کے سامنے اس کے لئے حلف دینے کو تیار ہیں۔
پانچ برس پہلے حکومت سنبھالی تو غیر ملکی قرضہ 60 ارب ڈالر تھا‘ اس میں چالیس ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ عدالت پوچھتی ہے کہ اس کے باوجود 85 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی کیوں میسر نہیں؟ خالص دودھ کا ایک قطرہ بھی کیوں نہیں؟ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہر سال دس ارب ڈالر ملک سے باہر کیوں چلے جاتے ہیں؟ 65 فیصد معیشت کالی کیوں ہے؟ تیس چالیس لاکھ خوشحال کاروباریوں میں سے فقط سات لاکھ ہی کیوں ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ عام آدمی کی زندگی کچھ اور بھی دوبھر کیوں ہو گئی۔ ان سوالوں کا کوئی جواب اس خاندان اور ان کے سینکڑوں ہزاروں حواریوں کے پاس کوئی نہیں۔ بس ایک چیخ و پکار ہے‘ جمہوریت‘ جمہوریت‘ جمہوریت۔ جنرلوں کی گود میں پلنے والوں کا جمہوریت سے کیا واسطہ؟ کیا واسطہ؟
غلبے کی وحشت ازل سے آدمی کے ساتھ ہے۔ دولت اقتدار کی بے بس کر دینے والی آرزو اور حکم چلانے کی تمنا۔ ایک بار کوئی اس میں گرفتار ہو جائے تو شاذ ہی رہائی نصیب ہوتی ہے۔ اپنے آپ سے ہمدردی‘ آدمی کی سرشت میں ہے۔ اپنے ارد گرد پھیلی‘ اللہ کی عظیم الشان کائنات کو وہ اپنی ذات کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے۔ جنت سے نکالا ہوا بشر‘ اس دنیا میں فردوسِ بریں کی آرزو پالتا۔
کس طرح یہ ممکن ہے؟ کبھی اس کی رسّی دراز کر دی جاتی ہے۔ اس کی کچھ خواہشات پوری کر دی جاتی ہیں۔ کچھ مہلت اسے عطا کر دی جاتی ہے۔ مگر ہمیشہ کے لیے اللہ کی مخلوق کسی ایک شخص‘ ایک خاندان کے حوالے کیسے کی جا سکتی ہے؟ آخرکار مہلت تمام ہوتی اور آدمی کو اپنا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ زندگی کا!
شریف خاندان پہ برا وقت اب ٹل نہیں سکتا۔ خود احتسابی کی توفیق اگر ہوتی تو نجات کی راہ نکل آتی۔ اس کمی فہمی‘ اس خود پسندی کے ساتھ‘ یہ توفیق مگر کہاں۔ خورشید رضوی کا ایک شعر یہ ہے:
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
پسِ تحریر: فوزیہ قصوری پہ آوازے کسنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ بائیس برس تک پارٹی کی اس نے بے ریا خدمت کی۔ شوکت خانم ہسپتال کے لیے اربوں کے عطیات جمع کیے۔ اس خدمت کا یہ صلہ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved