تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-03-2018

انتہا پسندی کس کا مسئلہ ہے؟

''پیغامِ پاکستان‘‘ کا وارث کون ہے؟ کوئی ہے بھی یا نہیں؟
ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیرِ اہتمام آج میڈیا سے وابستہ چند افراد اسلام آباد میں مل بیٹھیں گے۔ 23 مارچ کو ایسا ہی ایک اجتماع لاہور میں بھی ہوا۔ اس کی روداد برادرم رؤف طاہر نے لکھ دی ہے۔ پیغامِ پاکستان کے بارے میں یہ سوال بہت دنوں سے جواب طلب ہے کہ اس کا وارث کون ہے؟ لاہور میں اہلِ دانش سے ملاقات کے بعد، اس سوال کا جواب تلاش کرنا میرے مزید مشکل ہو گیا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کو یہ خبر تو ہے کہ اس عنوان سے کوئی بیانیہ پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کے خدوخال کیا ہیں، اس میں کون کون سے نکات شامل ہیں، یہ کس نے پیش کیا اور اس کے بعد کیا ہوا‘ ان سوالات کے جواب کسی کے پاس نہیں۔ کسی نے بتایا‘ نہ کسی نے جاننے کی کوشش کی۔ اس نشست میں کوشش کی گئی کہ پاکستانی معاشرے کے لیے اس دستاویز کی اہمیت کو واضح کیا جائے تاکہ کم از کم وہ لوگ تو متحرک ہوں جن کے کندھوں پر رائے سازی کی ذمہ داری ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس ''توجہ دلاؤ نوٹس‘‘ کے بعد کوئی جنبش ہو گی اور اس کوشش میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہو جائیں گے۔ کالم لکھے جائیں گے اور معاشرے کو بیدار کیا جائے گا۔ اندازہ یہ ہوا کہ کچھ اور مسائل ہیں‘ جو میڈیا کے لیے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ ہمارے رائے ساز اس وقت 'پیغامِ پاکستان‘ پر زبان و بیان کی صلاحیتیں صرف کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس تجربے کے بعد مجھے بڑی حد تک اس سوال کا جواب تو مل گیا جو میں نے کالم کے آغاز میں اُٹھایا ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ انتہا پسندی اب ہمارا مسئلہ نہیں رہا؟ 
یہ ماننے کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا ضروری ہیں۔ کم از کم میں تو ایسا نہیں کر سکتا۔ میری آنکھیں کھلی ہیں اور میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ انتہا پسندی برنگ دگر بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاست نے اپنی عسکری قوت سے دہشت گردی پر تو کسی حد تک قابو پا لیا مگر اس کے پاس انتہا پسندی کا کوئی توڑ نہیں۔ یہ جہاں جنم لیتی ہے، وہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔ ''پیغامِ پاکستان‘‘ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اور ریاست کے سب ادارے، اس کو اپنا چکے۔ مجھے اس ''اپنا پن‘‘ کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ پیغامِ پاکستان کے بائیس نکات بھی علما کے بائیس نکات کی طرح، معلوم یہی ہوتا ہے وقت کی دھول میں کھو جائیں گے۔
''پیغامِ پاکستان‘‘ کی رونمائی ایوانِ صدر میں ہوئی۔ صدرِ مملکت کے ساتھ وزیرِ داخلہ اور وزیرِ خارجہ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیانیہ، اس کے بعد ہماری حکومتی پالیسیوں میں کیسے تبدیل ہو گا؟ کیا وزارتِ داخلہ میں اس سوال پر کوئی مجلس منعقد ہوئی؟ کیا حکومت نے اپنے ذیلی اداروں کو اس حوالے سے کوئی ہدایت جاری کی؟ کیا اس کی روشنی میں اداروں کی تشکیلِ نو کا کوئی کام شروع ہوا؟ کیا جمہوریت کے لیے پریشان حکومت نے کوشش کی کہ اسے پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اس کا اعتبار قائم ہو؟ کیا کسی ادارے نے میڈیا کو بریف کیا؟ میرا اندازہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
رونمائی کی تقریب میں علما بھی شریک تھے۔ تمام دینی مدارس کے ذمہ داران موجود تھے۔ لازم تھا کہ ''پیغامِ پاکستان‘‘ کی روح ان مدارس کے نصاب اور ماحول میں سرایت کر جاتی۔ مثلاً اس میں کہا گیا کہ مسلح جہاد کا حق صرف ریاست کے پاس ہے۔ لازم تھا کہ مدارس میں فقہ الجہاد کے تحت یہ بات پڑھائی جائے۔ اس میںکہا گیاکہ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر علما کا کام نہیں، وہ صرف بتا سکتے ہیں کہ اسلام کیا اور اسلام کیا نہیں ہے۔ ضروری تھا کہ فتویٰ کے تخصص کی تعلیم میں اس بات کو شامل کیا جاتا۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ پیغامِ پاکستان کے سامنے آنے کے بعد، علما یا اتحاد نتظیماتِ مدارس نے اس معاملے پر کوئی اجلاس بلایا ہو جہاں پیغامِ پاکستان کی روشنی میں مدارس کے نظام کی تشکیلِ نو پر کوئی بات کی گئی ہو۔ 
رونمائی کی تقریب سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر کا حل ایچ ای سی کے حوالے کر دیا جائے تو وہ یہ بھی حل کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جامعات کو انتہا پسندی کے اثرات سے پاک کرنے کے لیے اب تک کیا ہوا ہے؟ میں ابھی تک اس بات کا کوئی امکان نہیں دیکھتا کہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں آزادانہ مذہبی مباحث کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ کیا وہ مسئلہ کشمیر کو اسی وژن اور حسنِ کارکردگی کے ساتھ حل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ دستاویز الیکٹرانک میڈیا کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق کی بھی بات کرتی ہے۔ کیا میڈیا کے ارباب کا کوئی اجتماع ہوا جس میں انتہا پسندی کے خاتمے کے باب میں میڈیا کے کردار کو زیرِ بحث لایا گیا ہو؟
اہم ترین سماجی مسائل کے باب میں لاتعلقی کا یہ رویہ کس بات کا اظہار ہے؟ کیا ہم میں سے ہر ایک ان مسائل کے حل کو دوسروں کی ذمہ داری سمجھتا ہے؟ کیا مایوسی نے ہمیں بے حس بنا دیا ہے؟ کیا ہم اس دستاویز سے مطمئن نہیں؟ کیا ہمارے نزدیک اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں؟ سب سے اہم سوال: کیا ہم دل و دماغ سے مذہبی انتہا پسندی کے اس بیانیے کو غلط سمجھتے ہیں؟ کیا پیغامِ پاکستان کے ساتھ ریاستی و سماجی اداروں کا یہ اظہارِ وابستگی نمائشی تھا؟
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کی سطح پر اعتدال، برداشت اور مذہبی ہم آہنگی کی جو کوششیں ہوئی ہیں، ان کے لیے دوسرے ممالک کے اداروں نے وسائل فراہم کیے ہیں۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ پاکستان کی حکومت اور معاشرے کے صاحبانِ وسائل دونوں انتہا پسندی یا عدم برداشت کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھتے۔ مخیر حضرات ہر سال پانچ سو بلین روپے خیرات کرتے ہیں۔ وہ مدارس، مساجد اور مزارات پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں لیکن کسی ایسے ادارے کو ایک پیسہ دینے پر آمادہ نہیں جو سماجی تشکیلِ نو یا نظامِ اقدار میں بہتری کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔
تاجر حضرات کا رویہ سب سے زیادہ ناقابلِ فہم ہے۔ پاکستان میں مذہبی اداروں کو زیادہ تر وسائل یہیں سے ملتے ہیں۔ یہ طبقہ دو وجوہات سے روایتی‘ مذہبی جماعتوں اور مدارس کو سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان اداروں کو معاشرے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسرا حفظِ ماتقدم تاکہ کل کسی وجہ سے، وہ ان کے غم و غصے کا ہدف نہ بنیں۔ (اس جملے کی شرح، ہر کوئی حسبِ توفیق کر سکتا ہے)۔
یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ کاروبار ایک پُرامن معاشرے ہی میں پھل پھول سکتا ہے۔ ان کا فائدہ اسی میں کہ سماج میں امن ہو۔ آئے دن ہڑتال نہ ہو۔ خاص طور پر مذہبی معاملات میں لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے والے نہ ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے اشتعال دلانے پر اربوں روپے کی جائیدادیں چشم زدن میں خاکستر ہو جاتی ہیں۔ بجائے ایسے عناصر کو خوش رکھنے کے، جو اشتعال پھیلاتے ہیں، زیادہ مناسب یہ ہے کہ معاشرے میں اعتدال اور امن کے رویے فروغ پائیں۔ یہ لوگ اپنے کاروباری ضروریات کے لیے بڑے بڑے تعلیمی ادارے تو قائم کر لیتے ہیں مگر سماجی تبدیلی کا تصور ان کو سمجھ نہیں آ سکا۔
اس ماحول میں یہ گمان کرنا مشکل ہے کہ حکومتی اور سماجی ادارے پیغامِ پاکستان جیسی دستاویز کی ضرورت کو سمجھیں گے اور اسے سماج کے رگ و پے میں اتارنے کی کوشش کریں گے؛ تاہم جو اس کی اہمیت کو جانتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دائرہ کار کی سطح پر اس کے لیے متحرک ہو۔ کیا معلوم کب لوگوں کے دل بدل جائیں؟ ہم بہرحال کوشش کے مکلف ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved