تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     29-03-2018

بے نظیر بھٹو کا قتل اور بیت اﷲ محسود ( آخری قسط )

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے عنوان سے لکھے میرے آرٹیکل کی پہلی قسط پر بیت اﷲ محسود اور بلیک واٹر کے ممکنہ تعلق کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے تھے۔ بلیک واٹر جو امریکہ کی پرائیویٹ ملٹری کمپنی کے نام سے ایک سابق نیوی سیلز ایرک ڈی پرنس نے بلیک واٹر کے نام سے 1997 میں قائم کی پھر اسے 2009 میں XE سروسز کا نام دے دیا اور اب اسے ACADEMI کے نام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس کمپنی نے2003 میں امریکی حکومت سے250 ملین ڈالر اور 2013 میں92 ملین ڈالر کے معاہدے کئے۔۔۔۔۔ چند اتفاقات یا واقعات ایسے ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو پر کارساز کراچی اور پھر لیاقت باغ راولپنڈی میں خود کش حملوں کے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں اور اس کیلئے امریکہ کی بد نام زمانہ گوانتانا موبے سے بیت اﷲ محسود کو چپکے سے رہا کرکے جنوبی وزیرستان پہنچانا اور پھر '' اکتوبر 2007 ء میں بیت اﷲمحسود کا اچانک تحریک طالبان پاکستان قائم کرنے کا اعلان کر نا اور پھر اس کے صرف دو ماہ بعد 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ کا خود کش حملہ۔۔۔۔ اسے کیسے اتفاقات مان لیا جائے کہ جب جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو میں امریکہ اور برطانیہ دوبئی میں این آر او کروا رہے تھے تو اسی دوران بیت اﷲ محسود جیسے شخص کو گوانتانا موبے سے امریکی رہا کر دیتے ہیں۔ جیسے ہی بیت اﷲمحسود ٹی ٹی پی تشکیل دیتا ہے تو بے نظیر کو پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ محترمہ کی شہا دت اور بیت اﷲمحسود کا ٹی ٹی پی کا امیر بننا ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں ۔۔۔اس خبر کو اب تک کسی بھی جانب سے جھٹلایا نہیں جا سکا کہ بی بی کی شہا دت کے بعد قائم ہونے والی پی پی پی حکومت نے بیت اﷲ محسود سے20 ملین امریکی ڈالر کا کوئی معاہدہ کیا تھا؟۔یہ اس قدر حساس مسئلہ تھا لیکن نہ جانے کیا وجہ ہے کہ اس تاثر یا خبر کی آج تک کسی بھی حلقے سے تردید نہیں ہو سکی کہ یہ خبر غلط تھی یا درست؟۔ اپنے کالم '' محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل‘‘ کی پہلی قسط میں لکھے میرے الفاظ ایک دفعہ پھر غور سے پڑھ لیجئے '' بلیک واٹر کو جب سی آئی اے نے وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں اتارا تو بجائے القاعدہ کے خلاف کوئی آپریشن کرنے کے بلیک واٹر نے تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک نئی دہشت گرد تنظیم کھڑی کرنا شروع کر دی جس میں شامل ہونے والوں کو ایک ہزار امریکی ڈالرماہانہ تنخواہ سمیت ایک ہیوی موٹر سائیکل اور کلاشنکوف بمع ایک سو رائونڈز تقسیم کئے گئے۔
آصف علی زرداری اور بلا ول بھٹو کو وضاحت کرنا ہو گی کہ بیت اﷲ محسود جو امریکی جیل گوانتانا مومیں بند تھا امریکیوں نے اسے اچانک بے گناہ قرار دیتے ہوئے کن شرائط پر رہا کرتے ہوئے وزیر ستان بھجوایا ؟۔ امریکی آج تک یہ جواب بھی نہیں دے سکے کہ ان کی بیت اﷲ محسود سے کی جانے والی تفتیش کا ریکارڈ کس کے پاس ہے؟۔ گوانتا موبے میں کسی دہشت گرد سے کی گئی وہ تفتیش کس قسم کی تھی جس نے ایک ایسے شخص کو بے ضرر اور معصوم قرار دیتے ہوئے رہا کیا کہ اس نے باہر آتے ہی صرف پاکستانیوں کو نشانے پر لے لیا اور سینکڑوں کی تعداد میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو بم دھماکوں، خود کش حملوں اور گوریلا کارروائیوں میں قتل کر نا شروع کر دیا۔ جس کے خود کش بمباروں کی تعداد اس قدرزیا دہ ہو گئی تھی کہ وہ ایک ٹارگٹ پر تین تین خود کش بھیجنے لگا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل مشرف سے این آر او کے حق میں نہیں تھیںیہ رحمان ملک تھے جنہوں نے بی بی کو این آر او پر قائل کیا۔۔۔بے نظیر بھٹو کے سامنے دو شرائط تھیں کہ جنرل مشرف این ار آو کریں یا تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی راہ میں منظور کی گئی آئینی شق کو واپس لیں۔۔۔۔بی بی نے رحمان ملک سے خود کہا کہ میری نواز شریف سے بات ہو چکی ہے ہم دونوں مل کر اس شق کو ختم کرا دیں گے۔ یہ خبر امریکیوں تک کس نے پہنچائی ہو گی کہ ایک کردار ابھی سے آپ کے این آر او سے منحرف ہو نے کا سوچ رہا ہے ؟۔ 
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ سانپ کی لکیر کی طرح طویل ہوتا رہا لیکن بالآخر انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی عدالت کے ساتویں جج محمد اصغر خان نے جیسے بھی ہوا جس طرح چاہا گیا محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کا فیصلہ سنا ہی دیا ان سے پہلے اکرام الحق،رانا باقر، رانا ناصر، حبیب الرحمان، پرویز اسماعیل، ایوب مارتھ اس مشہور مقدمے کی سماعت کر چکے تھے ۔۔۔سرکاری وکلاء نے مجموعی طور پر اس مقدمے سے متعلق 88 دستاویزات پیش کیں جن میں ڈی این اے رپورٹس بھی شامل تھیں اور68 گواہان پیش کئے جن میں اکثر پولیس اہلکار اور عام لوگ شامل تھے ۔ اس مقدمہ میں گرفتار کئے جانے والے پانچوں ملزمان جن کا تعلق القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا ان کو اس فیصلہ میں رہا کر دیا گیا لیکن ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس ایس پی خرم شہزاد کو سترہ سال قید کی سناتے ہوئے ، ایک اور ملزم جنرل پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دینے کے بعد ان کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائداد ضبط کرنے کا حکم سنا یا گیا ۔ اس مقدمے میں نامزد کئے گئے سات دیگر ملزمان میں ٹی ٹی پی کے امیر بیت اﷲ محسود کو امریکی پہلے ہی ڈرون حملے میں ہلاک کر چکے تھے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ آئی ایس آئی کئی بار سی آئی اے کو بیت اﷲ محسود کی لوکیشن اور اس کی گاڑی کی نشاندہی کرتی رہی لیکن امریکی ٹس سے مس نہ ہوئے لیکن محترمہ کے قتل کے بعد ایک دن ڈرون حملہ میں اڑا دیا ۔اس مقدمے کے ایک ملزم اکرام اﷲ محسود کے متعلق سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ مارا جا چکا ہے لیکن کسی بھی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی کے ریکارڈ میں اس کا ذکر نہیں ملا اور یہ ان خود کش بمباروں میں شامل تھا جسے ٹی ٹی پی کے امیربیت اﷲ محسود نے مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو پر خود کش حملے کیلئے بھیجا تھا لیکن لیاقت باغ حملے میں مارے جانے والوں میں اس کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔
آصف علی زرداری کی خواہش پر فروری 2008 میں بے نظیر بھٹو کی خود کش حملے یا کسی قاتلانہ منصوبے کے تحت شہادت کی تفتیش کیلئے برطانوی تحقیقاتی ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کیں لیکن جیسے ہی عام انتخابات کے بعد پی پی پی کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی تو آصف علی زرداری نے اچانک اس کی تفتیش اقوام متحدہ کے حوالے کر دی۔۔۔ایک سوال جو بار بار ذہن میں ابھرتا ہے کہ یو این او سے تفتیش کرانے والے آصف علی زرداری نے دہشت گردی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک لمحے کیلئے بھی اس میں فریق بننا پسند کیوں نہیں کیا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی عدم شرکت اور ٹی ٹی پی کے تمام ملزمان کا بری ہو جا نا ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہوں؟۔کیا اس کیلئے کسی نے دو طرفہ معاملات طے کرانے میں کوئی کردار ادا کیا ؟ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved