تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-03-2018

فیصلہ

فیصلہ سازی ایک ایسی چیز ہے ، ہر انسان ہی نہیں ، ہر جاندار کو جس سے واسطہ پڑتا ہے ۔ شیروں میں ایسا ہوتاہے کہ ہر گروہ اپنا ایک علاقہ منتخب کرتاہے ۔ اس علاقے کی سرحدوں پرباقاعدگی سے وہ اپنے نشانات لگاتے ہیں ۔ جب بھی کوئی باہر سے نر شیر کسی گروہ پر قبضے کے لیے آتے ہیں ، سرحد پر انہیں ان چوکیداروں کے نشانات بخوبی نظر آجاتے ہیں ۔ اب باہر سے آنے والوں اور اپنے علاقے کی حفاظت کرنے والوں کا آمنا سامنا ہوتاہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی قوت کو جانچتے ہیں ۔ لڑائی کا فیصلہ کرتے ہیں یا پھراگر مدّمقابل زیادہ طاقتور ، چوکس اور جارحانہ مزاج میں نظر آئیں تو پھر راہِ فراراختیار کرنے کا آپشن بھی ہوتاہے ۔ لڑائی یا بھاگ نکلنے کا یہ انتخاب ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ہوتاہے ۔ غلط فیصلہ انہیں موت کے منہ میں دھکیل سکتاہے ۔ بھاگ نکلنے والے کے نصیب میں کچھ نہیں ہوتا ۔کوئی بھی علاقہ ان کی ملکیت نہیں ہوتا۔ انہیں بچّے پیدا کرنے ، اپنی نسل بڑھانے کا حق نہیں ملتا۔اس لڑائی میں ہمیشہ باقی رہنے والے زخم او رمعذوری بھی مل سکتی ہے ۔ یہ موت پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ اس خونریز جنگ میں اترنے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے علاوہ تیسری کوئی صور ت نہیں ۔ان دونوں میں سے درندوں کو ایک کا انتخاب کرنا ہوتاہے ۔ لمحہ بھر کی ہچکچاہٹ عمر بھر کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے ۔ 
جانوراتنے سادہ نہیں ہوتے ، جتنا ہم انہیں سمجھتے ہیں ۔ ہر جانور اپنے مدّمقابل کی قوت اور اپنی طاقت سے بخوبی واقف ہوتاہے ۔ اسے اپنے دانت اور سینگھ کی قوت بھی معلوم ہوتی ہے اور مد مقابل کے پنجوں کی بھی ۔ یہ سب دیکھ کر ہی وہ حریف سے مقابلے کا فیصلہ کرتاہے ۔ بہرحال جانوروں میں چند ایک معاملات ہی ہوتے ہیں ، جن میں انہیں کوئی فیصلہ کرنا ہوتاہے ۔ انہیں کسی قسم کا کنفیوژن نہیں ہوتا۔ انسانوں میں معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں ۔ ہزاروں طرح کے معاملات ہیں ۔ کاروباری مسائل، ازدواجی او ربیوی بچّوں کے مسائل ۔ان معاملات میں اس قدر کنفیوژن ہوتی ہے کہ انسان فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا ہے ۔ آپ شادی بیاہ اور رشتوں کے مسائل ہی دیکھ لیں ۔ کسی گروہ میں جب شیرنیاں باہر سے آنے والے نر شیروں کو دیکھتی ہیں تو چند منٹوں ، گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ دو تین دن میں ان کی قوت اور چستی جانچ کر وہ زندگی ان کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہیں ۔ انہیں یہ مسئلہ بالکل بھی نہیں ہوتا کہ باہر سے آنے والے یہ نر شیر مزاج کے اچھے ہوں گے یا کمینہ پن دکھائیں گے ۔ بچوں کا خرچہ دیں گے اور سسرال والوں کو تنگ تو نہیں کریں گے ؟ نر شیر کو ابھی اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں ۔ اگر وہ باہر سے آنے والوں کو روکے گا نہیں تو اسے گروہ سے باہر نکل کر تنہائی کی زندگی گزارنا ہوگی ۔ اس طرح کے معاملات بالکل بھی نہیں ہوتے ، جیسے انسانوں میں کہ میاں بیوی ایک ساتھ رہ بھی رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنگ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ 
اسی طرح جانوروں میں اولاد کے مسائل بھی زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتے ۔ ماں او رباپ انہیں دوسرے درندوں کے ہاتھوں مرنے سے بچاتے ہیں اور بس۔ یہ نہیں ہوتا کہ بچّہ محنت نہیں کر رہا۔ سکول میں فیل ہو رہا ہے ۔ کمائی نہیں کر رہا ۔ جانوروں میں جو بچّہ نالائق ہو، اسے موت کے گھاٹ اترنا پڑتا ہے ۔ 
یہ سب تو ٹھیک ہے ۔ مان لیا کہ انسانوں میں معاملات انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ پھر بھی زندگی کی ایک اٹل حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بہرحال مناسب وقت پر فیصلہ صادر کرنا ہوتاہے ۔پھر جدوجہد کرنا ہوتی ہے ۔جب آپ کے بچّے کی جان خطرے میں ہے ، آپ کو جائیداد بیچنا ہوگی ۔ جائیداد اور اولاد میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جوآدمی فیصلہ سازی میں ناکام ہو جائے، اس کے فیصلے پھر دوسرے صادر کرتے ہیں ۔ پھر وہ حالات کے رحم و کرم پر ہوتاہے ۔اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی ۔
میں زندگی میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں ، جن کے پاس قیمتی جائیداد ہوتی ہے لیکن وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اس جائیداد کو بیچ کر کاروبار کرنے کا فیصلہ ا ن کے نزدیک ایک ایسا گناہِ کبیرہ ہوتاہے ، جو کسی صورت کیا نہیں جا سکتا۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اور ان کی اولادیں ساری زندگی چند ہزار روپوں کی معمولی نوکریاں کرتی ہیں ۔ اس جائیداد کو سنبھال کر اپنی اگلی نسل کو منتقل کرنے کو وہ ایک بہت ہی عقلمندی کا کام سمجھتے ہیں ؛حالانکہ حدیث کے مطابق جس مال کو انسان استعمال نہیں کر سکتا، وہ اس کا رزق ہوتا ہی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ میرا رزق وہی ہے ، جسے میں استعمال کر لیتا ہوں ۔ حدیث کے مطابق وہ بھی میرا رزق ہے ، جسے میں خد اکی راہ میں دے دیتا ہوں ۔ 
یہ بات ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر اچھے فیصلہ ساز ہوتے ہیں لیکن اکثر انہیں ان سختیوں سے گزرنا پڑتا ہے ، کنفیوژ لوگ جن سے نہیں گزرتے ۔آپ سیاست میں دیکھ لیں ۔2011ء تک عمران خان ایک تنہا سیاستدان تھے۔ انہیں تانگہ پارٹی چلانے کا طعنہ دیا جاتا۔ بار بار سیاسی قوت کے مظاہرے کی کوشش کرنا ، مینارِ پاکستان کے سامنے جلسے کااعلان کرکے جگ ہنسائی کاخطرہ مول لینا ، یہی وہ فیصلہ سازی تھی ، جس سے قومی سیاست میں تحریکِ انصاف نے پیپلزپارٹی کی جگہ سنبھال لی ۔ بہت سے لوگ ، مثلاً اعتزاز احسن ایک وقت میں عمران خان سے زیادہ مقبول تھے ۔ اس وقت جب پیپلزپارٹی موت کے گھاٹ اتر رہی تھی ،پیپلزپارٹی کے سرکردہ لیڈر فیصلہ کر کے اگر میدان میں اترتے تو زرداری صاحب کو replaceکیا جا سکتا تھا۔خیر ، فیصلہ کرنے ، خطرہ مول لینے کے لیے بہت دل گردہ درکار ہوتاہے ۔ 
میں زندگی میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں ، جو اس قدر ذہین تھے کہ بڑے سے بڑا کاروبار کرنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھالیکن وہ بھی معمولی نوکریاں کر رہے تھے ۔وجہ صرف یہ تھی کہ خطرہ مول لینے کا حوصلہ نہیں تھا۔بار بار کسی منصوبے پر سوچتے اور پھر نقصان کے ڈر سے گوشہ ء عافیت میں دبکے رہتے ۔ اس کے برعکس میں ایسے لوگوں سے بھی ملا ہوں ، جو کسی خاص ذہانت کے مالک نہیں تھے لیکن بار بار خطرہ مول لینے کی وجہ سے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور پھر دوبارہ خطرہ مول لینے کی وجہ سے وہ کسی مقام تک پہنچ سکے ۔ 
میں تو یہ کہتا ہوں کہ چار دن کی اس زندگی میں حالات کے بہائو پر بہتے رہنے کی بجائے، انسان کو فیصلہ سازی کی کوشش کرنی چاہئیے اور پھر مستقل مزاجی سے جدوجہد کی ۔ اس دوران اگر آدمی اپنی غلطیوں سے سیکھنا شروع کر دے تو پھر وہ روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکتاہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان اندھا دھند فائرنگ ہی شروع کر دے ۔ اپنے حالات کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھا چاہئیے لیکن بہرحال کوئی قدم اٹھانا ضرور چاہئیے ۔ اگلا کالم اس موضوع پر کہ کیسے دنیا کے سات ارب انسانوںمیں سے ہر ایک اپنی ایک uniqueصورتِ حال سے گزر رہا ہے ۔ uniqueوسائل، uniqueخطرات، unique opportunities، uniqueدماغ اور uniqueحالات ۔ یہ بھی کہ علم میں اضافہ کیسے فیصلہ سازی میں مددگار ہو سکتاہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved