کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف 24مارچ کو پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ وہ 23 کو بھی آ سکتے تھے۔ شاید یوم جمہوریہ کی وجہ سے تاریخ بدل دی۔ جمہوریہ ہو یا جمہوریت۔ یہ لفظ ان کے لئے اچھا نہیں۔جیسے ہی وردی اتار کے انہوں نے جمہوریت کی طرف پیش رفت شروع کی‘ برے دن آنے لگے۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو الیکشن میں جتوانے کے لئے جو منصوبہ تیار کیا تھا‘ وردی اترتے ہی بیکار ہو گیا۔ وہ پہلے حکمران جنرل تھے‘ جنہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے وردی اتاری۔ جنرل ایوب خان نے فیلڈ مارشل بن کر ‘ آخری سانس تک باوردی رہنے کا انتظام کر لیا تھا۔ اقتدار سے محرومی کے بعد بھی باوردی رہے۔ یحییٰ خان نے اقتدار کے آخری دن تک وردی نہیں اتاری۔ ضیاالحق وردی پہنے پہنے خالق حقیقی کے سامنے پیش ہو گئے۔ پرویزمشرف پہلے فوجی حکمران ہیں‘ جنہوں نے وردی اتار کے سیاست کرنے کی کوشش کی۔ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ سرکاری ملازمین ‘ دوران ملازمت عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ مگر پاکستان میں چار جنرلوں نے وردی میں رہتے ہوئے سیاست کی۔ مجھے نہیں یاد کہ ان کے 32 سالہ مجموعی دوراقتدار میں کسی وکیل نے‘ یہ رٹ کی ہو کہ حاضر سروس جنرل کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں۔ لہٰذا عدالت عالیہ یہ حکم جاری کرے کہ وہ سیاسی سرگرمیاں فوری طور پر بند کر دیں۔ اس طرح کا وکیل ‘ جمہوریت کے زمانے میں ہی سامنے آتا ہے‘ جو ایک سیاستدان صدر کے خلاف شکایت لے کر عدالت میں جاتا ہے اور درخواست کرتا ہے کہ اسے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں سے روکا جائے۔ پرویزمشرف نے تو وردی میں بھی سیاسی سرگرمیوں کا جرم کیا اور وردی کے بغیر بھی۔ کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی وہ دو سال تک سیاست نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن کرتے رہے۔ اس وقت مجھے بہت مزہ آیا‘ جب انہوں نے دبئی میں یہ فرمایا کہ ’’مجھ پر سیاست میں حصہ لینے کی دو سالہ پابندی ختم ہو گئی ہے۔ اب میں سیاست کر سکتا ہوں۔‘‘ جنرل صاحب سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ حضور! آپ نے تو وردی میں رہ کر بھی پوری دیدہ دلیری کے ساتھ سیاست کی اور ملازمت چھوڑنے کے بعد بھی دوسال کی پابندی کو ٹھوکر مارتے ہوئے دھڑلے سے سیاست کرتے رہے۔ لیکن اقتدار سے باہر جانے کے بعد آپ کو پابندی کا خیال آ گیا؟ میں سوچ رہا ہوں جنرل صاحب واپس پاکستان آ کر جب گردوپیش نظر دوڑائیں گے‘ تو انہیں کیسا لگے گا؟ ان کے تینوں وزرائے اعظم اب ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ میرظفراللہ جمالی شاید استقبال کے لئے بھی نہ جائیں۔ چوہدری شجاعت حسین تو یقینا نہیں جائیں گے اور سب سے زیادہ عرصے تک ان کے وزیراعظم رہنے والے شوکت عزیز‘ کو واپسی پر ان کے ساتھ آنا چاہیے تھا۔ وہ بھی تشریف نہیں لا رہے۔ پاکستان کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے عدلیہ کی معاونت کے لئے بھی پاکستان کی زمین پر قدم رکھنامناسب نہیں سمجھا۔ یہ بھی لطیفے سے کم نہیں کہ ہم نے دو ٹیکنوکریٹ نگران وزیراعظم بنائے اور دونوں اقتدار سے باہر ہوتے ہی‘ پاکستان چھوڑ گئے۔ اس وقت بھی کچھ ٹیکنوکریٹ نگران وزارت عظمیٰ کے لئے زیرغور ہیں۔ ان سب کے کیریئر کا سنہرا دور دیارغیر میں گزرا ہے۔ ان دنوں وہ دلکش نوکریوں کے لئے پاکستان میں قیام فرما ہیں۔ باہر انہیں اپنی خواہش کے مطابق نوکریاں نہیں مل رہیں۔ لیکن جو بھی نگران وزیراعظم بنا‘ بیرون ملک اسے حسب خواہش بڑی نوکری مل جائے گی۔ کیونکہ اس وقت ان کے ساتھ سابق وزیراعظم کا دم چھلا لگ چکا ہو گا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو پرویزمشرف کی آنکھ کا تارا رہے اور پاکستان کے سب سے بڑے منصب سے لطف اندوز ہوئے۔ ان میں سے کوئی ان کے ساتھ نہیں ‘ تو باقی پرانے ساتھیوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ جنرل صاحب اپنے لئے ایک چوتھا وزیراعظم تلاش کر کے‘ اس کی نشوونما میں لگے تھے۔ وقت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ورنہ اگر موقع ملتا‘ تو جنرل صاحب میاں منظوروٹو کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ آج وہ بھی وزارت عظمیٰ کے لئے پیپلزپارٹی کے سائے میں جا چکے ہیں۔ موجودہ پیپلزپارٹی کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہ جنرل ضیا کے ایک سابق ساتھی کو وزارت عظمیٰ پر فائز کر چکی ہے۔ ضیا وہ شخص ہے جس نے بھٹو صاحب کو اقتدار سے نکال کر پھانسی پر چڑھایا تھا۔ پاکستان ایسے ملک میں آپ کسی بھی معجزے کی امید کر سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ پرویزمشرف کی چھت سے سارے پرندے اڑ چکے ہیں۔ لیکن میں ان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوں۔ ان کے پاس بہرحال ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے۔ وہ پاکستان کے سابق صدر ہیں۔ اپنے دور میں انہوں نے بے شمار سیاستدانوں پر مہربانیاں کیں۔ ان میں ایک ایسے سیاستدان بھی ہیں‘ جن کا تخلص ہی ’’وزیراعظم‘‘ ہو گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وزیراعظم نامی شخصیت نے قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے کے لئے پرویزمشرف سے مدد مانگی تھی۔ وہ قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ پولنگ سے پہلی رات کو انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کی کامیابی یقینی نہیں۔ انہوں نے پرویزمشرف کو ٹیلی فون کر کے مدد مانگی اور انہوں نے جیت کا انتظام کر کے دیا۔ اصولی طور سے جناب وزیراعظم کو وقت آنے پر پرویزمشرف کے احسان کا بدلہ چکانا چاہیے۔ وزارت عظمیٰ تو تاحیات ان کے تصرف میں رہے گی ‘صدر کا عہدہ پرویز مشرف کو دیا جا سکتا ہے۔ مجھے تو شریف برادران سے بھی مایوسی نہیں۔ پرویزمشرف واپس آ کر‘ اگر اپنے ساتھیوں کو ڈھونڈیں گے‘ تو انہیں ہر پارٹی میں موجود ملیں گے۔ اصل میں تو ق لیگ ہی ان کی تیار کردہ جماعت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب اس میں انہیں کوئی اپنا ساتھی نہیں ملے گا۔ شاید ن لیگ میں اس سے زیادہ ساتھی مل جائیں۔طارق عظیم‘ ماروی میمن‘ امیر مقام‘ ارباب غلام رحیم اور ان جیسے دیگر بہت سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رونق افروز ہیں۔ یہ سارے لوگ ان کے زیرقیادت اچھے دن گزار چکے ہیں۔ جنرل مشرف کو امید رکھنا چاہیے کہ اچھے دنوں کے یہ ساتھی ‘ ان کے لئے اپنی پارٹی میں ضرور جگہ بنا سکتے ہیں۔ اگر نوازشریف کو جنرل مشرف سے اتنا ہی عناد ہوتا‘ تو وہ کبھی ان کے قریبی ساتھیوں کو اپنی پارٹی میں جگہ نہ دیتے۔ نوازشریف نے صرف جگہ ہی نہیں دی‘ بڑے بڑے عہدے بھی دیئے ہیں۔ جنرل صاحب اگر خود ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر گئے‘ تو انہیں بھی ایسا عہدہ دیا جاسکتا ہے ‘ جو سابق صدر مملکت کے شایان شان ہو۔ اگر پارٹی میں شمولیت مشکل ہوئی‘ تو جنرل صاحب اتحادی بہرحال بن سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سوا سندھ کے سارے سیاسی لوگ‘ ان کے اتحادی بن چکے ہیں۔ سنا ہے جنرل صاحب کراچی سے اپنے سیاسی رابطوں کا آغاز کریں گے اور اگر وہ الیکشن لڑنے کے لئے بھی کراچی کومنتخب کرتے ہیں‘ تو لازماً سندھی سیاستدان کہلائیں گے اور سندھ سے تعلق رکھنے والا ہر سیاستدان ان دنوں نوازشریف کو بے حد پیارا ہے۔ جنرل صاحب کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ ن لیگ والوں نے ‘ ارباب غلام رحیم کو پنجاب میں بلا کر ان کی بھرپور عزت افزائی کی۔ ان کی تصویریں چھپوا کر سڑکوں پر آویزاں کیں۔ ان کے استقبال کا اہتمام کیا اور لاہور کے کسی شہری کو احساس تک نہ ہونے دیا کہ ارباب رحیم‘ جنرل پرویزمشرف کے انتہائی قریبی ساتھی تھے۔ ارباب صاحب کی عزت افزائی کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سندھ سے الیکشن لڑیں گے اور اپنی نشست پر تو ضرور جیت جائیں گے۔ سندھ سے قومی اسمبلی کی کسی سیٹ پر جیتنا پرویزمشرف کے لئے بھی مشکل نہیں ہو گا۔ اگر ن لیگ کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ پرویزمشرف سندھ سے قومی اسمبلی کی نشست جیت سکتے ہیں‘ تو ان کا استقبال ارباب رحیم سے بھی زیادہ گرم جوشی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ میں اسی لئے پرویز مشرف کے سیاسی مستقبل سے مایوس نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved