تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     30-03-2018

برطانوی جج ہیڈن کے عدل کو خراج تحسین

برطانیہ میں رہنے والا ایک نوجوان جس کا نام احمد حسن ہے، خارجی دہشت گردوں کے نظریات سے متاثر ہوا پھر ان کے زیرتربیت رہا اور آخرکار برطانوی شہریت کا فائدہ اٹھا کر اس نے ستمبر 2017ء میں لندن کے گرین اسٹیشن پر بم دھماکہ کر دیا۔ بے گناہ لوگ مارے گئے، زخمی بھی ہوئے۔ ان میں نوجوان بھی تھے۔ بزرگ بھی تھے۔ بچے اور خواتین بھی تھیں۔ مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی تھے۔ مجرم پکڑا گیا اور اب لندن کے انگریز جج نے اس مجرم کو عمرقید کی سزا سنائی ہے۔ مجرم کو 34سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
انگریز جج جناب ہیڈن نے مجرم کو سزا سناتے ہوئے اسے مخاطب کیا اور کہا، میں تمہیں عمرقید کی سزا دے رہا ہوں۔ اب وہاں جیل میں قرآن کا مطالعہ کرنا تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ قرآن امن اور سلامتی کی کتاب ہے۔ اسلام امن کا مذہب ہے۔ قرآن اور اسلام مذہبی انتہاپسندی سے بھی روکتے ہیں اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی انتہاپسندی سے منع کرتے ہیں۔ اسلام ملکی قوانین کی خلاف ورزی سے منع کرتا ہے۔ جہاں آپ قیام کر رہے ہیں یا وہاں مہمان ہیں اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں۔ یاد رکھو! تم نے قرآن اور اسلام کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کی ہے اور مہذب شہریوں کے قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
قارئین کرام! جناب ہیڈن صاحب کے ریمارکس ملاحظہ کرتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے قرآن کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ اسلامی تعلیمات یعنی حدیث کو بھی پڑھ رکھا ہے۔ حضورؐ کی سیرت مبارکہ اور سنت سے واقفیت حاصل کر رکھی ہے، تبھی انہوں نے ایک دہشت گرد کو اسلامی دہشت گرد نہیں کہا بلکہ واضح کیا کہ تمہارا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا جائو اورجیل میں اسلام کو پڑھو تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ اسلام کیا ہے۔ قرآن کیا ہے؟ میں ایسے صاحبِ علم جج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ فیصلہ دیتے ہوئے انہوںنے جو 
ریمارکس دیئے وہ عدل کی اعلیٰ ترین مثال اور انسانی انصاف کی معراج ہے۔ سمجھ یہی آتی ہے فاضل جج نے قرآن کی سورۃ یوسف پڑھ رکھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں واضح کرتے ہیں کہ جب وہ مصر کی وزارت خوراک کے بھی انچارج تھے تو انہوں نے بھائیوں کو اناج دیتے ہوئے اپنے سب سے چھوٹے بھائی جناب بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کا ارادہ کیا تو ''فِی دِینِ الملک‘‘ یعنی مصر کے بادشاہ نے اس وقت جو قانون بنا رکھا تھا، اس قانون کو سامنے رکھ کر تدبیر کرتے ہوئے اپنے بھائی کو اپنے پاس رکھا تھا۔ یعنی ملکی قانون کی مکمل پاسداری کی تھی۔ جج صاحب خارجی دہشت گردوں کو بتا رہے ہیں کہ تم کیسے مسلمان ہو، قرآن پڑھتے نہیں ہو اور برطانیہ کے قانون کی دھجیاں اڑا کر یہاں دہشت گردی کرتے ہو۔ جائو جیل میں اور قرآن پڑھو۔ جیسا کہ مجرم احمد حسن کے بارے میں بتلایا گیا کہ اسے عراق میں برطانوی فوجیوں پر غصہ تھا کہ وہ وہاں جا کر ظلم کر رہے ہیں تو برطانوی جج مجرم کو بتلا رہے ہیں کہ تم اسلام سے ناواقف ہو۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے آخری حج کے موقع پر جو ارشادات فرمائے ان میں ایک ارشاد گرامی یہ بھی تھا کہ '' جو کوئی بھی جرم کرتا ہے وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے پر ظلم نہیں کرتا (لہٰذا جرم کی پاداش میں مجرم ہی پکڑا جائے گا کوئی دوسرا نہیں) باپ نے جرم کیا ہے تو اس کے بدلے بیٹا نہیں پکڑا جا سکتا اور نہ کسی باپ کو اس کے بیٹے کے جرم میں پکڑا جائے گا۔ (ترمذی: 3087۔ حسن)
اللہ اللہ! کس قدر گمراہی ہے کہ جرم عراق میں ہو رہا ہے اور بدلہ برطانیہ کے شہریوں سے لیا جا رہا ہے۔ اور یہ وہ شہری ہیں کہ جنہوں نے عراق میں امریکی اور یورپی فوجوں کے داخلے پر لاکھوں کا اجتماع کر کے احتجاج کیا تھا۔ ایسے بے گناہ لوگوں اور انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں کو بم دھماکے کے ذریعے ایک دہشت گرد ہلاک اور زخمی کرتا ہے تو فاضل جج جناب ہیڈن۔ احمد حسن نامی مجرم کو بتلاتے ہیں کہ جیل میں بیٹھ کر ذرا اسلام کا مطالعہ کرو کہ تم لوگ کیا کر رہے ہو؟ میں سمجھتا ہوں کہ محترم فاضل جج مسٹر ہیڈن کے جو ریمارکس ہیں، ان جیسے بہت سارے عالمی دانشوروں کے ایسے جو عادلانہ بیانات ہیں ان کے پیچھے جری علماء کی کوششیں اور قربانیاں بھی ہیں کہ جنہوں نے خارجی دہشت گردی کے خلاف اسلام کا پرامن، عادلانہ اور محبتِ انسانیت کا حامل چہرہ پیش کیا۔ محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اس موضوع پر آٹھ عدد علمی اور تحقیقی کتابیں پیش کیں۔ جب انتہا پسندی کی حامل فکر عام ہونے لگی تو میں نے حضورؐ کی سیرت پر مبنی کتاب ''رویے میرے حضورؐ کے‘‘ لکھی جس کے عناوین اس طرح تھے (1)یہود کے ساتھ حسن سلوک (2)عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک (3)خواتین کے حقوق کا تحفظ (4)ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل۔ اسی طرح آرمی پبلک سکول پر جب حملہ ہوا تو میں نے ''حضور عالی شان بچوں کے درمیان‘‘ لکھ کر واضح کیا کہ حضورؐ کے فرمان کے مطابق غیر مسلم بچے بھی فوت ہوں گے تو جنت میں جائیں گے مگر یہ خارجی دہشت گرد مسلم اور غیر مسلم بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ خارجی فتنے کے خلاف مولانا محمد رمضان اثری کی نگرانی میں ''دارالاندلس‘‘ کے معروف اشاعتی ادارے نے 15 کتابیں شائع کیں۔ مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی مرحوم اسی خارجی فتنے کے خلاف ڈٹ جانے کی وجہ سے اپنی جان پیش کر گئے۔ میں سمجھتا ہوں تحفظ انسانیت کی ایسی کوششیں کسی بھی جانب سے ہوں ہمیں ان کوششوں کو غیر متعصب ہو کر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔
جب خارجی دہشت گردوں کے دھماکے بہت زیادہ بڑھ گئے تو میں نے ''خارجی دماغ اور ردّالفساد‘‘ کتاب لکھی جسے ملک بھر کے اہل علم نے خوب سراہا۔ روزنامہ دنیا کے صفحات گواہ ہیں کہ میں نے اس پر اس قدر کالم لکھے کہ تین صد صفحات کے قریب کتاب بن گئی۔ دارالاندلس نے اسے شائع کیا۔ تقریب بھی ہوئی۔ ملک کے اہم رہنما تشریف لائے۔ جنوبی پنجاب سے حضرت خواجہ فرید کی درگاہ سے خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ تشریف لائے۔ جناب لیاقت بلوچ، فرید پراچہ، جمیل فیضی، امیر العظیم، اے این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر بہادر ہوتی، سردار آفتاب ایڈووکیٹ، عبدالغفار روپڑی، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، محمد یعقوب شیخ اور نعیم بادشاہ نے گفتگو کی۔ میدان صحافت سے محترم مجیب الرحمن شامی، اشرف سہیل، ایثار رانا، سعد اللہ شاہ، حافظ شفیق الرحمن، آصف عنایت، فاروق حارث، نسیم الحق زاہدی اور دیگر نامور صحافیوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امیر حمزہ کی تحریروں پر مشتمل ایسی خوبصورت کتاب ہے کہ حکومت کو اس کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر دنیا کے سامنے اپنا چہرہ صاف کرنا چاہئے۔
قارئین کرام! افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف میری چار عدد کتابوں میں سے مذکورہ آخری کتاب کا جب چرچا ہوا تو انڈیا کے چینلز نے مجھے درندہ قرار دے دیا۔ بھلا ہو اسلام آباد سے معروف صحافی خاتون محترمہ مونا صاحبہ کا کہ انہوں نے انڈیا کو اس کا اصل چہرہ دکھایا اور انہیں بتلایا کہ تم لوگ اس پر سیخ پا ہو رہے ہو کہ دہشت گردی کے خلاف امیر حمزہ کی علمی اور صحافیانہ خدمات پر سیاستدانوں، سفارتکاروں اور صحافیوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے پہلے ان کی کتب تو پڑھو کہ ان میں لکھا کیا ہے۔ مشاہیر نے جو خطوط لکھے وہ دیکھو کہ کس بات پر خطوط میں تحسین کی گئی ہے۔ تحسین تو دہشت گردی کے خلاف علمی خدمات پر ہے۔ جب خاتون صحافی نے آئینہ دکھلایا تو پتہ چلا، نہ انہوں نے خطوط پڑھے اور نہ کتاب پڑھی۔ محض پراپیگنڈہ شروع کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے حکمرانوں اور سفارتخانوں میں بیٹھے ذمہ داران کو پاکستان کے اہل علم کی کاوشوں کا علم ہو اور وہ انہیں سلیقے کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں تو ہمیں یو این سے آنے والی مشکلات، پیرس میں منعقد ہونے والے اجلاس سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر انڈیا دہشت گردی کے خلاف واقعی مخلص ہے تو کلبھوشن یادیو کون ہے؟ وہ انسانیت کا مسیحا ہے یا درندہ ہے؟ عراق میں انڈیا کے جو 40لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے، ہم اس پر مظلوم مقتولوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں مگر جو دہشت گرد قاتل ہیں ان کو تو افغانستان میں ٹھکانے مل رہے ہیں۔ یہ سہولت کار کون ہیں؟ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ میرے دیس پاکستان کے سفارتکار اور حکمران حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا حق ادا کر دیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑھ کر قربانیاں دینے والا پاکستان بدنام نہ ہو۔ علمی میدان میں سب سے بڑھ کر کردار ادا کرنے والے علماء بدنام نہ ہوں۔ بدنام اسے ہونا چاہئے جو دہشت گردی کر کے امن کا ماسک پہنے ہوئے ہے۔ ہم یہ کردار ادا کریں گے تو کوئی ہیڈن پاکستان کے حق میں بھی بولے گا اور ضرور بولے گا (ان شاء اللہ)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved