سپریم کورٹ بلڈنگ میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی ون ٹو ون ملاقات اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑی گئی ہے۔ بات اگر اس ملاقات پر سپریم کورٹ کے جاری کئے جانے والے اعلامیہ کی کی جائے تو اس میں تعلیم‘ صحت اور عدلیہ کے مسائل زیر بحث آنے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن تاریخ اور اب تک کی روایات یہ بتاتی ہیں کہ اس سے پہلے وزیر اعظم کی ملک کی عدلیہ کے سربراہ سے کی جانے والی کسی بھی ملاقات کی درخواست کا پیغام اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے کبھی نہیں آیا ۔ موسلا دھار بارش، طوفانی برفباری یا آندھی اور طوفان میں وہی گھر سے نکلتے ہیں جنہیں کسی '' ایمر جنسی ‘‘کا سامنا ہو۔ میرے جیسا ایک عام میڈیا ورکر یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اکتیس مئی کی شام عباسی صاحب کی حکومت کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے اور آپ کس بات کے لئے وہاں گئے تھے؟۔ دو بڑوں کی یہ ملاقات کیوں ہوئی کس کے کہنے پر کی گئی؟ کیا اس ملاقات کیلئے بیرون ملک کسی اہم طاقت نے پس پردہ کوئی کردار ادا کیا؟۔یہ وہ شبہات ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ردی کی حیثیت دیتے ہوئے انہیں کوڑے دان میں پھینکنے کی باتیں کرنے والے شاہد خاقان عبا سی کے ایجنڈے کو واضح کرتے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شاہد خاقان عبا سی کی حیثیت سے امریکہ کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر کسٹم اور امیگریشن سٹاف کے ہاتھوں جس طرح ان کی ''عزت افزائی‘‘ کی گئی ان منا ظر کی ویڈیو دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہے اور جس طرح پاکستان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اس پر ہر غیرت مند پاکستانی کا سر جھک گیا ہے۔ جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر اہم عہدے پر تعینات میرے ایک عزیز نے جو کہانی بتائی ہے وہ بہت ہی افسوس ناک ہے۔ ان سے بہتر تو بھارت کا شاہ رخ خان ہی نکلا کہ جب اسے اسی ایئر پورٹ پر امریکی امیگریشن والوں نے بے لباس کیا تو پورا بھار ت اس پر سراپا احتجاج بن اٹھا اور اگلے چند گھنٹوں میں امریکی حکام کو با قاعدہ ٹی وی پر آ کر معافی مانگنی پڑی۔ ہم سے بہتر تو برازیل ہی نکلا کہ جب اس کے ایک شہری کو ایئر پورٹ پر بے لبا س کیا گیا تو برازیل کے ہر ایئر پورٹ کو سخت ہدایات جاری کر دی گئیں کہ جو بھی امریکی برازیل کی حدود میں داخل ہو اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ہمارے شہری کے ساتھ امریکی ایئر پورٹ پر کیا گیا ہے اور ابھی امریکہ سے ایک ہی فلائٹ پر آنے والے امریکی مسافروں کو قطا روں میں کھڑا کرتے ہوئے ان کے بدن پر پہنے ہوئے ایک ایک لباس کو اتارنے کا حکم دیا جا رہا تھا تو امریکہ نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے معافی مانگتے ہوئے برازیل کو اپنے ایئر پورٹس پر اس ذلت سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
جو شخص میاں محمد نواز شریف کیلئے امریکی ایئر پورٹس پر اس''حسن سلوک‘‘ سے گزرتے ہوئے نائب امریکی صدر کے پاس اس لئے پہنچتا ہے کہ ملک کے اداروں پر دبائو ڈالنے کیلئے '' ان کو طاقت‘‘ استعمال کرنے کی درخواست کی جائے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ چیف جسٹس سے اس لئے ملاقات کرنے کیلئے سپریم کورٹ پہنچے تھے کہ تعلیم، صحت اور ماحولیات کی بہتری کیلئے چیف جسٹس ثاقب نثار کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائیں ‘ کچھ سمجھ میں آنے والا معاملہ نہیں۔ اگر آپ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی کی اب تک کی سینکڑوں تقریروں کو نہیں سنا تو ان میں سے چند ایک کو یو ٹیوب پر پھر سن لیجئے جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عدلیہ کے متعلق ان کے کیا خیالات ہیں؟۔ ان کے کہے گئے وہ ''موتیوں میں تولنے والے الفاظ ‘‘اگر بھول چکے ہیں تو پھر سن لیجئے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے دیئے گئے فیصلے پر ایک بار نہیں بلکہ بار بار ڈائس پر کھڑے ہو کر کہا '' ہم یہ فیصلہ نہیں مانتے ان فیصلوں کی حیثیت ردی کے ٹکڑوں جیسی ہے‘‘ جناب قوم سے مذاق مت کیجئے کہ آپ جیسا شخص جو اٹھتے بیٹھتے سپریم کورٹ کی شان میں گستاخیاں کرتا چلا آ رہا ہو اس سے مستقبل میں کیسے مثبت رویہ کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کیسے مان لیا جائے کہ عدلیہ کے فیصلے ردی کے مترادف قرار دینے والا اس مقصد کیلئے ملاقات کرے کہ ملک میں تعلیم، صحت اور انوائر منٹ کی بہتری کیلئے ان کی کوششوں میں تعاون کریں گے؟۔
جو کچھ لکھ رہا ہوں اس کے ایک ایک لفظ کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں کہ '' جاتی امرا‘‘ میں بیٹھے ہوئے شہنشاہ کی جانب سے ملک کے ایک اہم ترین ادارے کے چیئرمین کو کچھ روز قبل تین پیشکشیں کی جا چکی ہیں اور اس پیشکش کے آخری حصے میں انہیں جس جال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی اس کے بارے میں بس فی الحال بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کر وں گا اس کا تعلق کوئی چاہ ماہ بعد ختم ہونے والے کسی عہدے کے بارے میں ہے۔۔۔۔لیکن اس خدا کے بندے نے جس طرح اپنے ایمان کی روشنی میں پروردگار کی عطا کی گئی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پیشکش کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھا اس پر انہیں جس قدر بھی خراج تحسین پیش کیا جائے وہ کم ہے یقین جانئے اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں بغیر شہا دت کے بہت بڑے لالچ اور سنگین قسم کی سنجیدہ دھمکیاں ملنے کے با وجود قانون اور انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی مفاد کیلئے ڈٹ جانے والے شخص کو '' نشان حیدر‘‘ سے نوازنے کا حکم جاری کرتا ۔جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں اپنے ایک ایک لفظ پر قائم ہوں خدا اس چیئر مین کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور دہشت اور عوام دشمن طاقتوں کے خلاف ڈٹ جانے کی مزید طاقت عطا فرمائے۔
صدر مملکت کے عہدے پر براجمان آصف علی زرداری اگر گیارہ مئی2013 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کے تیسرے دن لاہور بلاول ہائوس میں ملکی میڈیا کے سینئر حضرات کے سامنے بیٹھ کر یہ کہہ رہا ہو کہ '' یہ انجینئرڈ انتخابات تھے اور یہ آر اوز کے مرتب کردہ نتائج ہیں‘‘ تو ملک کے آئینی صدر اور اس وقت کی نگران حکومت کے نگران کی جانب سے کئے جانے والے اس اعلان کے بعد اگر تحریک انصاف اور عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو اس وقت سے لے کر اب تک عمران خان کو رگیدا جا رہا ہے کہ دھرنا کیوں دیا۔ ملک میں انتشار کیوں پھلایا ان انتخابات کو ما نا کیوں نہیں‘ اب یہی سوال ملک کے وزیر اعظم اور نواز لیگ سے پوچھئے کہ جناب آپ سینیٹ کے الیکشن کونہیں مان رہے ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے وفاق کی علامت سمجھے جانے والے چیئر مین سینیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں آپ اس چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی توہین کر رہے ہیں جس کے طلب کرنے پر پاکستان کا آرمی چیف جوابدہی کیلئے حاضر ہوتا ہے اور آپ اس عہدے کی یہ کہتے ہوئے توہین کریں کہ اس سے ملاقات کرنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔کیا عباسی صاحب کسی ایسے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جس کا اظہار محمود اچکزئی ، حاصل بزنجو ، براہمداغ بگٹی اور ما ما قدیر کر رہے ہیں۔۔۔۔اس پس منظر میں سوچیں کہ کیا اعتزاز احسن نے درست کہا کہ ان حالات میں یہ ملاقات نہیں ہونی چاہئے تھی۔!!