مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے! عجیب بات ہے، کتنی عجیب بات! طالب علم نے سوچا: مشرق کا بے مثال فلسفی اور مفکر‘ سرزمین سپین میں کیا ڈھونڈنے نکلا تھا: غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں فانی بدایوانی نے کہا تھا: سکون کہیں نہیں، شاید صحرائوں میں ہو۔ نقاد نے کہا تھا عمر بھر مایوسی میں مبتلا رہنے والا شاعر موت کی آرزُونہ کرے تو اور کیا کرے ؟ موت وہ دن بھی دکھائے مجھے جس دن فانیؔ زندگی اپنی جفائوں پہ پریشاں ہو جائے لیکن پھر وہ ایسا تھا کہ کوئی فلسفہ ٔ حیات نہ رکھتا تھا۔ امید کی کوئی کرن اس کی زندگی میں جگمگائی ہی کبھی نہ تھی۔ کہنا اس کا یہ تھا: زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا اقبالؔ تو ایک امید پر ست تھے، ایک ناقابل علاج امید پرست۔ تب اس نے پاکستان کا خواب دیکھا، جب یہ تصور بھی گوارا نہ تھا۔ زندگی کے آخری مہ وسال ، پنجاب مسلم لیگ میں ایسی کشمکش تھی کہ کوئی بھی ناامید ہوجاتا۔ تحریک انصاف کا صدمہ اس سے کہیں کم تر ہے۔ علامہ اقبال کی پنجاب مسلم لیگ کے رشید بھٹی بہت طاقتور تھے۔ سرکار اور دربار میں باریاب جاگیردار اور اہل زر۔ سیاسی عمل کی روایت نئی تھی اور تاریکیوں میں چراغ جلانا مشکل بہت تھا۔ لاہور کے عاشق بٹالوی اور دوسرے جذباتی نوجوان لیاقت علی خان سے نالاں تھے۔ لیگ کے اجلاس میں گاہے اظہار خیال تک کا موقعہ نصیب نہ ہوتا۔ مسلم برصغیر تاریخ کے عظیم ترین بحران سے دوچارتھا۔ 1937ء کے انتخابات میں پنجاب سے لیگ صوبائی اسمبلی کی صرف دوسیٹیں جیت سکی اور ان میں سے ایک یونینسٹ پارٹی کو پیارا ہوگیا۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا شاعر اگرچہ مقبولیت کی اس معراج کو پہنچ گیا تھا کہ محرومی کا کوئی ادنیٰ سا احساس باقی نہ رہا تھا، چاروں طرف لیکن گھپ اندھیرا تھا۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے یہ اعلان فرمایا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں تو 1930ء میں دو آزاد ریاستوں کا تصور پیش کرنے والے اقبالؔ کو صدمہ پہنچا۔ یہ صدمہ اس قدر شدید تھا کہ صبح سے شام تک جب چودھری محمد حسین ، ڈاکٹر چغتائی اور حکیم قرشی ان کی خدمت میں حاضر رہا کرتے، تقریباً ہرروز اس پر بات ہوتی۔ نقطہ نظر اقبالؔ کا یہ تھا کہ تمام مسلم جماعتوں کو اپنا وجود ختم کرکے مسلم لیگ میں ضم ہوجانا چاہیے۔ زمینی حقائق مگر تلخ تھے۔ برصغیر کے عظیم ترین خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، دیوبند کے علاوہ بیشترعلما اور نثر کے جادوگر ابوالکلام آزاد کانگریس کے ساتھ کھڑے تھے۔ تقدیس کا ایک ہالہ عشروں سے ان مقدس ہستیوں کے گرد جگمگا رہا تھا۔ ان سے اختلاف گویا اسلام سے اختلاف تھا کہ محمد علی جناح انگریزی سوٹ پہنتے اور انگریزی بولتے تھے۔ ہراس چیز سے‘ ردّعمل کے مارے مسلم برصغیر کو چڑتھی، جس کا رشتہ مغربی تہذیب سے جوڑا جا سکتا ۔ اقتصادی اعتبار سے مسلمان تباہ حال تھے کہ کاروبار سے انہیں کبھی دلچسپی نہ رہی تھی اور جیسا کہ اللہ کے آخری پیغمبر ؐ نے ارشاد کیا تھا: رزق کے نوحصے تجارت میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں امید کا دیا کیسے روشن کیا جاتا؟ مگر اقبالؔ نے کیے رکھا: کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ وبغداد اچھا! مگر وہ ہسپانیہ میں کیا ڈھونڈرہے تھے ؟سپین میں لکھی گئی ان کی نظموں کے مصرعے آنسوئوں سے تر ہیں۔ پس منظر میں مگر نور جھلملاتا ہے: آب روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب سپنے دلآویز بہت ہوسکتے ہیں لیکن فقط خواب سے تسکین تو ممکن نہیں۔ تو کیا خواب کے متشکّل ہونے سے ؟ برصغیر کے مسلمان اگر ایک قوم بن جائیں، آزادی حاصل کرلیں، اقتصادی نشوونماممکن ہوسکے اور عصری تقاضے ملحوظ رکھ کراگر وہ فروغ علم کی راہ پر چل نکلیں؟ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ،ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بننے کی شاہراہ پر سفر کا آغاز کریں؟ احتجاج اذیت دیتا ہے ۔ بے بسی کا باقی رہنے والا احساس ، زندگی کے شجر پہ برگ وبار آنے نہیں دیتا۔ برگ وبار کیا ،کونپل ہی نہیں پھوٹتی ۔ قوم اگر ناآسودہ ہے تو فرد کیونکر آسودہ ہو: فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں زندگی کا مگر ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور خود حیاتِ اقبالؔ کے مطالعہ سے وہ منکشف ہوتا ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے سب فرائض پوری طرح ادا کردے تو وہ زمانے کے جبر اور وحشت سے نجات پاسکتا ہے۔ دنیا پہلی عالمگیر جنگ کے دھماکوں سے لرزتی رہی ، اقبالؔ نے سراٹھا کر بھی نہ دیکھا اور ’’اسرارورموز بے خودی‘‘ لکھتے رہے۔ تاتاریوں کے بعد، ساڑھے چھ سوبرس کے بعد، تاریخ میںیہ پہلی بار تھا کہ کروڑوں انسان قتل کردیئے گئے اور تمام کرہ ٔ خاک پہ خون کے چھینٹے اڑتے رہے۔ اس کے باوجود اقبالؔ نے اپنی تنہائی کو روشن رکھا۔ اپنے گرامی قدر والد سے پوچھا: کیا میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر سکا یا نہیں؟ کہا: بستر مرگ پر میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے اپنا فرض پورا کیا۔ اپنے زمانے کا آدمی انتخاب نہیں کرتا‘ جس طرح کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور ماحول کا نہیں۔ اپنے بچپن کے اساتذہ، ملک اور ماحول کا نہیں۔ ایک چیز کا فیصلہ البتہ وہ ہمیشہ خود کرتا ہے، اپنے ذاتی کردار کا۔ ابو حفص حدّاد ، جنیدِ بغداد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میزبان نے مہمان سے پوچھا: مردانگی کیا ہے؟ ارشاد کیا :مردانگی یہ ہے کہ آدمی اپنے فرائض تو سبھی پورے کردے مگر حقوق کا مطالبہ نہ کرے۔ اپنے شاگردوں سے سیدالطائفہ نے یہ کہا:شیخ کے اکرام میں اٹھو ، ایسی بات انہوں نے کہی ہے کہ زمین اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اللہ کی کتاب یہ بتاتی ہے : دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، شیطان کے ولی اور رحمن کے۔ شیطان روشنی سے انہیں تاریکی کو لے جاتا ہے اورر حمن تاریکی سے روشنی کی طرف، الآ ان اولیاء اللہ لاخوف علیہم ولاھم یحزنون۔ اللہ کے دوست: وہ خوف اور غم سے آزاد کردیئے جاتے ہیں۔ کیا ولایت کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہے ؟ یہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ صرف سیدھا اور سچا ہی نہیں، سہل بھی یہی راہ ہے مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved