تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-03-2018

فریادی‘ سائل وغیرہ

کیا نواز شریف صاحب کو معلوم ہے کہ معاصر اہلِ سیاست میں‘ کیا بات انہیںممتازبناتی ہے؟
فریادی، سائل، تکلیف جیسے الفاظ سے ایک تصویر ابھرتی ہے۔ یہ کس کی تصویر ہے‘ میں طے نہیں کر سکا۔ شاید کوئی طے نہ کر سکے۔ یہ گمان کا معاملہ ہے؛ تاہم میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ تصویر کسی طرح خوش نما نہیں ہے۔ سیدنا علیؓ کا قول ہے: کلام کرو تاکہ پہچانے جائو۔ دو ماہ کے لیے میں ایک اخبار کا ایڈیٹر بنا۔ پہلے دن میں نے سٹاف سے کہا: اخبار کا ہر صفحہ میرے نزدیک ایڈیٹر کی تصویر ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرا ایسا چہرہ دیکھیں‘ جس پر جھوٹ، بدذوقی اور بلیک میلنگ کے داغ ہوں۔ ہم سب کو اپنی تصویر کی فکر ہونی چاہیے۔ نواز شریف صاحب بطورِ خاص میرا مخاطب ہیں۔
اس ملک میں ہر بڑے منصب کی تکریم ہے۔ کسی کے خلاف زبان کھل سکتی ہے نہ قلم رواں ہو سکتا ہے۔ کوئی یہ جسارت کر بیٹھے تو کبھی توہینِ عدالت کے جرم میں جیل پہنچ جاتا ہے اور کبھی غداری کے الزام میں انجانے راستوں میں کھو جاتا ہے۔ میڈیا انہیں 'لاپتا افراد‘ قرار دیتا ہے۔ یہ عزت و تکریم لازم ہے۔ اداروں کا تقدس پامال ہونے لگے تو ریاستی و سماجی نظم قائم نہیں رہ سکتا۔ ادارے حفظِ مراتب کے ساتھ ہی زندہ رہتے ہیں۔
اس اصول کا اگر اطلاق نہیں ہو تا تو وہ عوام کے منتخب نمائندوں پر۔ وزیراعظم ان کا سرخیل ہے۔ یہاں جو چاہے اور جب چاہے وزیراعظم کی پگڑی اچھال دے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں ایک بال پن ہے اور اسے اردو لغت میں درج مغلظات ازبر ہیں تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنا سارا ذخیرہ الفاظ ایک کاغذ پر اگل دے اور ان کا انتساب وزیراعظم کے نام کر دے۔ اگراس کے منہ میں زبان ہے اور وہ اسے چلانا جانتا ہے تو یہ صلاحیت اس بات کے لیے کفایت کرتی ہے کہ وہ کسی ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہو اورخود کو لغت ہائے دشنام کا قارون ثابت کر دے۔ عرفِ عام میں یہ آزادیٔ اظہارِ رائے ہے اور اس پر کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہے نہ کسی سماجی روایت کا۔
نوازشریف کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کا نمائندہ بدرجہ اتم یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اس کے منصب کی توقیر ہو۔ جب عوام کسی کا انتخاب کر لیں تو پھر لازم ہے کہ اس کی تکریم کی جائے۔ اس کی توہین بالواسطہ عوام کی توہین ہے۔ یہ حق عوام ہی کے لیے خاص ہے کہ اگر کوئی ان کی نظر سے اتر جائے تو پھر منصب سے بھی اتر جائے۔ چور، ڈاکو، مافیا سمیت لغت میں موجود یہ اسمائے صفت اگر عوامی نمائندوں کے لیے مختص کر دیئے جائیں تو یہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
نواز شریف آج اس بیانیے کے ساتھ منفرد ہیں۔ کوئی دوسرا سیاستدان سیاسی منظر پر موجود نہیں ہے جو عوام کے اس حق کے لیے آواز اٹھا رہا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر سیاستدان وزیراعظم کو گالی دینے کی نہ صرف حمایت کر رہے ہیں بلکہ اس مقدمے کو پیش کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ اس سے بے نیاز ہیں کہ اس کا اطلاق ان پر بھی ہو رہا ہے۔ وہ خود اس صف میں کھڑے ہیں جنہیں یہ القاب دیئے جا رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رقیب سے گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتے بلکہ رقیب کے لب چومنے کو تیار رہتے ہیں۔
نواز شریف کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ ا نہوں نے عزیمت کا راستہ چنا ہے۔ اس مقدمے کے ساتھ سیاست، اس ملک میں آسان نہیں۔ لوگ نشانِ عبرت بن جا تے ہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی انہوں نے اس پُرخطر وادی کا انتخاب کیا ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد ان کے سامنے دو راستے تھے۔ایک جی ٹی روڈ، دوسرا موٹر وے۔ ایک کان کے ساتھ وہ لوگ لگے بیٹھے تھے جو موٹر وے کا مشورہ دے رہے تھے۔ دوسرے کان میں جی ٹی روڈ کی باتیں ڈالی جا رہی تھیں۔ انہوں نے جی روڈ کا انتخاب کر کے فیصلہ دیدیا کہ وہ عزیمت کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز ان کی پشت پر کھڑی ہو گئیں اور پرویز رشید جیسے ایک بار پھر اُس کانٹوں بھرے راستے کے مسافر بن گئے جہاں اس سے پہلے بھی کئی باران کا دامن الجھا اور چاک ہوا۔
نواز شریف کے یہی امتیازات ہیں جن کے باعث وہ ممتاز ہیں۔ تو کیا وہ اپنے ان امتیازات کو کھو دیں گے؟ کیا وہ این آر او کا انتخاب کر لیں گے؟ کیا وہ جیل جانے سے گھبرا رہے ہیں؟ اگر ایسا ہو گا تو ہم جیسوں کے لیے ان کی ذات میں کیا کشش ہے؟ یہ درست ہے کہ انہوں نے اس ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک جیسا انفراسٹرکچر دیا ہے۔ وہ اس باب میں بھی منفرد ہیں لیکن اس وقت ان کا اصل امتیاز اس ملک کو درپیش بنیادی مسئلے کے باب میں‘ ان کا منفرد نقطۂ نظر ہے۔ یہ مسئلہ اتنا بنیادی ہے کہ اسے حل کیے بغیر یہاں سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔
میرا گمان ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ نواز شریف اب اقتدار سے بڑھ کر اقدار کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ وہ اقتدار کی سیاست سے لاتعلق ہو گئے ہیں یا درویش بن گئے ہیں۔ سیاست کا درویشی سے کیا تعلق؟ وہ یقینا اپنے سیاسی مفادات کو سامنے رکھیں گے۔ مجھے اس پراعتراض نہیں ہو گا۔ میرا اعتراض اس وقت ہو گا جب وہ اقتدار کو اقدار پر ترجیح دیں گے۔ دوسرے لفظوں میں‘ وہ ووٹ کی حرمت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کوئی این آر او کر لیں گے۔ پھر یہ کہ اصولی مؤقف کے علاوہ، یہ اب ان کے مفاد میں بھی نہیں۔ اس کا سب سے موزوں وقت عدالتی فیصلے سے پہلے تھا۔ 'گاڈ فادر‘ کا تمغہ حاصل کرنے کے بعد اور اقتدارسمیت سب کچھ گنوانے کے بعد‘ اگر وہ مفاہمت کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خسارے کا سودا کوئی نہیں ہو سکتا۔ میرا خیال ہے کہ نواز شریف صاحب کو اس کا اندازہ ہے۔ اس لیے وہ اپنے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اب نظریاتی ہو گئے ہیں۔
میاں صاحب سمیت ہمارے تمام سیاستدان، میرا تاثر ہے کہ لفظ 'نظریاتی‘ کا مفہوم نہیں جانتے۔ نظریاتی سیاست کب کی ختم ہو چکی۔ اب اصولی یا غیر اصولی سیاست ہو سکتی ہے۔ شاید اہلِ سیاست اصولی اور نظریاتی کو باہم مترادف الفاظ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو کسی نظریاتی نہیں، اصولی سیاستدان کی ضرورت ہے۔ ایسا راہنما جسے صحیح بات کہنے اور اس پر استقامت کے ساتھ کھڑا رہنے کی توفیق نصیب ہو۔
نواز شریف کے اس مؤقف میں کہیں اداروں کا تصادم نہیں۔ کیا وزیراعظم کی تکریم کرنے سے تصادم پیدا ہوتا ہے؟ وزیراعظم کی تکریم کا یہ مفہوم بھی نہیں کہ کسی دوسرے کی عزت نہ کی جائے۔ ہمارے آئین اور قانون کے تحت‘ سب کے پروٹوکولز طے ہیں، جیسے سماجی سطح پر رشتوں کا پروٹوکول سب کو معلوم ہے۔ اسے ہم حفظِ مراتب کہتے ہیں۔ باپ کی تکریم سے یہ لازم نہیں آتا کہ بیٹے یا بیوی کی کوئی عزت نہیں۔ سب کا اپنا اپنا مقام ہے اور انہیں اسی پر رکھنا چاہیے۔ اسی طرح آئین اور قانون ریاست میں جس کو جو درجہ دیتا ہے‘ اس کے مطابق اس کی عزت ہو نی چاہیے۔ نوازشریف صاحب کا بیانیہ اس سے متصادم نہیں ہے۔ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ اداروں کے مابین مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ جب ضرورت ہو ،ضرور ہونے چاہئیں کہ سب ایک دوسرے کے حلیف ہیں، حریف نہیں۔
چیف جسٹس کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات سے نوازشریف صاحب کی ساکھ کو دھچکا پہنچا ہے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ میاں صاحب اپنے لیے آسانی چاہتے ہیں۔ ان کی طرف فریادی، سائل، تکلیف جیسے الفاظ کا انتساب، ایک صاحبِ عزیمت کی تصویر پیش نہیں کرتا۔ ان کی موجودہ تصویر ایسی نہیں ہے۔ نوازشریف صاحب نے بتا دیا ہے کہ وہ اس ملاقات سے بے خبر تھے۔ اس سے البتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو اپنی ساکھ پر خود پہرا دینا ہو گا۔ اگر اب انہوں نے جی ٹی روڈ کے بجائے موٹر وے کا رخ کیا تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ راستے کے انتخاب کا وقت گزر چکا۔ اب انتخابات کا وقت ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved