غیر معروف شعراء کی پروجکیشن کے حوالے سے لکھے گئے میرے کالم کے ضمن میں جھنگ صدر سے سیدہ سیفو رقم طراز ہیں کہ غیر معروف شاعروں کو ان کی شاعری ہی معروف بنا سکتی ہے کوئی اور نہیں۔ بالکل درست لیکن اگر ان کی کچھ شاعری سامنے ہی نہیں آئے گی تو پھر وہ کیا کریں۔ رسائل میں وہ نہیں نظر آتے، خالی فیسں بُک کے ذریعے وہ کتنے معروف ہو سکتے ہیں کہ فیس بُک کی سہولت یہاں کتنوں کو حاصل ہے۔ اسی لئے جب تک وہ پرنٹ میڈیا کے ذریعے سامنے نہیں آئیں گی وہ عام قاری کیلئے اجنبی ہی رہیں گے۔
ایک تازہ مثال فقیر احمد ناصر کے جریدے ''تسطیر‘‘کی ہے جس میں غزلوں کو بالکل آخر میں جگہ دی گئی ہے اگرچہ اس کا جواز موجود تھا کیونکہ ان غزلوں کی بدحالی کے پیش نظر انہیں اور بھی پیچھے دھکیلا جانا چاہئے تھا تاہم ایڈیٹر کی ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ ظاہر ہے کہ جو مال انہیں موصول ہوگا وہی پیش بھی کریں گے جبکہ اصل قصور وار وہ خود ہیں کیونکہ نئی شاعری اور نئے شاعروں کا خود کھوج لگانا چاہئے کہ عمدہ غزل بہرحال لکھی جا رہی ہے لیکن ایڈیٹر لوگوں کو اس کا سراغ خود لگانا چاہئے تا کہ اپنے رسالے میں پیش کر سکیں، بس تھوڑے تردد کی ضرورت ہے۔
ہمارے دوست نصیر احمد ناصر خود فیس بک پر جلوہ فرما ہوتے ہیں جہاں یہ شاعری دستیاب ہے اور جس کے ذریعے نئے اور غیر معروف شعراء کی کھوج لگائی جا سکتی ہے۔ اگرچہ لازمی طور پر میرا یہ کام نہیں ہے لیکن میں انہیں اپنے کالم کے ذریعے سامنے لانے کی بساط بھر کوشش کر رہا ہوں اور یقین کیجئے میں یہ شاعری دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ عام قاری کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے اور یہ شاعر خود بھی نظر انداز ہو رہے ہیں جو ایک سانحہ سے کم نہیں ہے۔ میں ذیل میں کچھ ایسے شعراء کا کلام پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ خود اندازہ لگا سکیں کہ ان کی حوصلہ شکنی کس قدر اور کیسی کیسی ہو رہی ہے ، ذرا ان کے تیور دیکھیے:
''اب اس سے بڑھ کے بھلا اور مفلسی کیا ہو
تمام شہر نے اک خواب پر گزارا کیا
گماں یہی ہے کہ ہم لوگ زندہ رہ جائیں
ہمارے حصے کی قبروں کو بھر دیا گیا ہے (زبیر قیصر)
تیری اطراف کو جو نکلے تھے
راستے لوٹ کر نہیں آئے (نعیم ضرار)
ہم نے اُس کی ہر ایک بات سنی
ہم سے جو ہمکلام تھا ہی نہیں (محمد شیراز غفور)
یارو بچپن میں وہ کیا عیاشی تھی
رونا آتا تھا تو کھل کر روتے تھے (محمود فریدی)
میری جانب دیکھ کر بولے یہ میرے چارہ گر
موت سے بچ بھی گیا تو بائولا ہو جائے گا (تجمل کاظمی)
وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں
صبح بھی خرچ ہوئی رات کی تیاری میں (سعید شارق)
ہم بھی غالب کی طرح کوچہ ٔ جاناں سے اسد
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے (اسد اعوان)
میرا نہیں خیال کہ ان میں سے ان کا ایک آدھ کے سوا قارئین نے کبھی نام بھی کبھی سنا ہو۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں مناسب پروجیکشن اور حوصلہ افزائی دستیاب ہو تو ان میں عمدہ شاعری کے امکانات باقاعدہ موجود ہیں اور بھی کئی ایسے نام ہیں جن کے اشعار وقتاً فوقتاً میں اپنے کالم کی زینت بناتا رہتا ہوں اور اپنی حد تک میں یہ کام انشاء اللہ جاری رکھوں گا۔
اور اب آخر میں ریکارڈ کی ایک درستی:
دیوان غالب کا میرا ذاتی نسخہ کہیں اِدھر اُدھر ہو گیا تو جو نیا دستیاب ہوا وہ مشتاق بک کارنر لاہور کا شائع کردہ اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے جبکہ اس کی تحقیق و ترتیب یوسف مثالی نے کی ہے۔ کتاب کے پہلے صفحے پر ہی ناشر کی طرف سے نوٹ شائع کیا گیا ہے کہ کتاب ہذا میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو ادارے کو مطلع فرما کر شکریہ ادا کرنے کا موقع فراہم کریں تا کہ اگلے ایڈیشن میں درستی کی جائے، شکریہ۔
ابھی اس کتاب کی ورق گردانی کا تو موقع نہیں ملا؛ تاہم کتاب کے آخر میں مرتب جناب یوسف مثالی کی طرف سے شامل کی گئی غالب کی شان میں ایک نظم دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور مایوسی۔ مایوسی اس لئے کہ نظم میں موصوف نے دو نئی غلطیاں فرما ئی ہیں۔ پہلے اس نظم کا یہ مصرع دیکھیے:
استعارے تیری چوکھٹ پر کھڑے صد احترام
یہاں ''بہ صد احترام ‘‘ہونا چاہئے کہ موجودہ صورتحال میں یہ ترکیب غلط ہے،
دوسرا مصرع ملاحظہ ہو:
خاص عطیہ ہے ترے شعروں میں جو تاثیر ہے
اس میں لفظ ''عطیہ‘‘ غلط وزن یعنی فعلن کے وزن پر باندھا گیا ہے جبکہ اس پر تشدید ہے اور یہ مفعولن کے وزن پر ہے جیسے ذریعہ‘ قضیہ وغیرہ۔
ایک اور مصرع دیکھئے:
تیری آہوں سے کراہیں وقت کی منسوب ہیں
''آہوں سے کراہیں‘‘ اور ''وقت کی منسوب ‘‘ مثالی صاحب ہی باندھ سکتے تھے کسی وقت کھول کر دیکھوں گا کہ موصوف نے اس میں اور کہاں کہاں گل کھلائے ہیں۔
آج کا مقطع
زمانہ میری نظر میں کچھ اور ہے کہ ظفرؔ
کٹی ہے عمر مری ماہ و سال سے باہر