تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-04-2018

کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی

اِس دنیا میں اُس کی دال‘ عزت سے نہیں گلتی جسے کوئی ہنر نہ آتا ہو۔ اس جملے میں ''عزت سے‘‘ پر غور کیجیے۔ جو دنیا میں آیا ہے اُسے کھانے اور پینے کو مل ہی جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ملتا کس طرح ہے۔ جو ہنر مند ہونے اور رہنے میں دلچسپی لیتے ہیں اُن کی زندگی کسی اور ڈھب کی ہوتی ہے اور جو لوگ کوئی بھی ہنر سیکھے بغیر، یونہی الل ٹپ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں اُن کا ہر معاملہ کھوکھلا اور بے توقیر ہوتا ہے۔ کوئی بھی ہنر سیکھے بغیر اور کسی بھی شعبے میں درجۂ کمال پر پہنچے بغیر بھی زندگی تو خیر گزر جاتی ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اِس طور گزرنے والی زندگی کو زندگی کہا جا سکتا ہے؟ احترام کی نظر سے انہی کو دیکھا جاتا ہے جو کسی کے لیے کام کے ہوتے ہیں۔ جو کسی کے لیے‘ کسی کام کے نہ ہوں اُنہیں بھی کھانے اور پینے کو مل جاتا ہے مگر شدید بے توقیری کے ساتھ۔ 
اپنے وجود کا جائزہ لیجیے اور پھر دنیا کو دیکھیے کہ اِس کا کاروبار کس طور چل رہا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کم ہی لوگ ہیں جو کسی ہنر میں مہارت نہیں رکھتے۔ ماحول میں بیشتر افراد کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں اور پھر زندگی بھر اُس کا پھل کھاتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اگر ڈھنگ سے جینا چاہتا ہے تو اُسے کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا ہی پڑے گا۔ کسی ہنر یا فن میں مہارت حاصل کرنے کی صورت میں انسان کا اپنے وجود پر اعتماد بڑھتا ہے اور وہ زیادہ بامعنی انداز سے جینے لگتا ہے۔ کسی ہنر کا حامل ہونے کی صورت میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ دنیا کے لیے زیادہ کارآمد اور بار آور ثابت ہو رہا ہے۔ یہ احساس اُس میں ایک طرح کا تفاخر پیدا کرتا ہے اور وہ اپنے وجود کو مزید بامعنی اور بامقصد بنانے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ماحول میں موجود ہر شخص کچھ نہ کچھ کر رہا ہے، اپنے وجود کو بروئے کار لاکر دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش ثابت ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو ہم میں‘ کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کریں جو دوسروں سے الگ ہو اور جس کے ذریعے لوگ ہمیں پہچانیں، یاد رکھیں۔ 
ہر انسان کسی نہ کسی درجے میں یہ خواہش ضرور رکھتا ہے کہ لوگ اُسے پہچانیں، احترام کی نظر سے دیکھیں اور یاد رکھیں۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیے تو اندازہ ہو گا کہ یاد اُنہی کو رکھا جاتا ہے جو کسی ایک یا کئی شعبوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں، دنیا کو بہتر انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ معنویت سے ہمکنار کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہم ڈیڑھ دو ہزار برس پہلے کی کسی شخصیت کو اگر جانتے ہیں تو اُس کے ہنر اور مہارت کی بنیاد پر۔ یہ مہارت علم اور عمل دونوں شعبوں میں ہو سکتی ہے۔ سینکڑوں فلسفیوں کو آج دنیا اگر جانتی ہے تو صرف اس لیے کہ انہوں نے بلند سوچا اور جو کچھ سوچا اُسے محفوظ بھی رکھا تاکہ بعد میں آنے والوں تک پہنچے۔ اِس فن کو اُنہوں نے غیر معمولی حد تک پروان چڑھایا۔ وہ اگر آج دنیا کو یاد ہیں تو محض اس لیے کہ اُن کے خیالات ارفع تھے، وہ سوچنے کا ہنر جانتے تھے اور اس حوالے سے غیر معمولی مشق بھی کرتے تھے۔ یہ مشق اُنہیں دوسروں سے ممتاز کر گئی۔ اگر اُنہوں نے اپنی شخصیت کو زیادہ بامعنی اور بامقصد بنانے پر توجہ نہ دی ہوتی تو آج کوئی بھی اُنہیں نہ جانتا۔ 
یاد رہ جانے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے کے کئی ایسے لوگوں کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں جو معاشرے کے لیے انتہائی زہریلے تھے اور جن کے اعمال کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی، خرابیاں پیدا ہوئیں۔ ماضی میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہیں آج لوگ انتہائی غیر نافع شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کو ایسی شخصیت کی حیثیت سے یاد رکھا جائے جس نے اِس دنیا کو کچھ بھی نہیں دیا؟ یقینا آپ ایسا نہیں چاہیں گے۔ 
اگر آپ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بامعنی، بامقصد، منفعت بخش اور بار آور بنانا چاہتے ہیں تو کوئی ہنر سیکھیں اور اُس کی غیر معمولی مشق کریں۔ اگر ممکن ہو یعنی حالات اجازت دے رہے ہوں اور آپ میں طاقت ہو تو کئی ہنر سیکھیں۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی کو زیادہ بامعنی بنانے کے لیے کئی ہنر سیکھتے ہیں تاکہ مختلف جہتوں میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کریں اور دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ بامعنی و بار آور ثابت ہوں۔ کسی بھی ہنر میں غیر معمولی مہارت انسان میں اعتماد کی سطح بلند کرتی ہے اور وہ زیادہ دلجمعی سے زندگی بسر کرتے ہوئے دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منفعت بخش بننے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ کسی نہ کسی مہارت کا حصول انسان کے لیے یوں بھی لازم ہے کہ ایسی حالت میں معاشی امکانات کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ لوگ اُسی کو زیادہ آسانی سے قبول کرتے ہیں جس میں مہارت زیادہ ہوتی ہے۔
ہر دور کے اہلِ دانش نے کہا ہے کہ کسی بھی شعبے میں مہارت غیر معمولی اور متواتر مشق کے سِوا کچھ نہیں۔ جو لوگ دن رات مشق کرتے ہیں وہ اپنے کام میں ایسے جامع ہو جاتے ہیں کہ غلطی شاذ و نادر ہوتی ہے اور کارکردگی کا معیار بلند رہتا ہے۔ کاروباری معاملات ہوں یا فنونِ لطیفہ، کھیلوں کا شعبہ ہو یا سیاست کی دنیا... ہر معاملے میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو غیر معمولی مشق کرتے ہیں۔ مشق کا بنیادی مقصد کارکردگی کا معیار بلند کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے شعبے میں درجۂ کمال کو چُھونا چاہتے ہیں وہ دن رات مشق کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں اُن کے لیے اپنی کارکردگی کا معیار بلند کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ زیادہ مشق کے نتیجے میں مہارت اُس منزل تک پہنچ جاتی ہے جہاں کسی بھی کام کو عمدگی سے انجام دینا ذرا بھی مشکل نہیں رہتا۔ ہر انسان اِس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ 
ہم اپنے وجود کی معنویت میں اُسی وقت اضافہ یقینی بنا سکتے ہیں جب زیادہ کام کریں اور معیار بلند رکھیں تاکہ لوگوں کو ہم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہماری مہارت ہی طے کرتی ہے کہ ہم کس کے لیے کتنے اہم ہیں۔ یعنی مہارت کا گراف بلند کرتے رہنا ہے۔ مہارت بڑھانے کا ایک ہی طریقہ ہے... کسی ماہرِ فن سے فن یا ہنر سیکھ کر زیادہ سے زیادہ مشق کی جائے۔ مشق جس قدر ہو گی مہارت بھی اُسی قدر ہو گی۔ آپ خواہ کسی شعبے میں ہوں، مشق ترک مت کیجیے۔ اگر ٹیچر ہیں تو زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیجیے تاکہ طلبا و طالبات کو زندگی کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنے کی منزل سے بخوبی گزر سکیں۔ کھلاڑی ہوں یا اداکار، گلوکار ہوں یا مصنف، ٹیچر ہوں یا شیف، سرکاری ملازم ہوں یا غیر سرکاری ملازم... سبھی اپنی کارکردگی کا گراف اُس وقت بلند کر پاتے ہیں جب اپنی مہارت کو زیادہ سے زیادہ نکھارنے اور صلاحیتوں کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مشق کرتے ہیں۔ جو مشق کی عادت ترک کرتے ہیں اُن کی نمو رک جاتی ہے، وجود معنویت میں اضافے کی ڈگر سے ہٹ جاتا ہے۔ اِس روش پر گامزن رہنے سے جمود پیدا ہوتا ہے جو بالآخر زوال اور انحطاط کی طرف لے جاتا ہے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved