تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     02-04-2018

فنگر پرنٹ

ساڑھے چار ارب سال پہلے جب کرّئہ ارض پر خدا نے 92عناصر میں سے کچھ کو جوڑ کر زندگی تخلیق کی تو اس سے پہلے اس زندگی کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے ۔ ان جانداروں کے جسموں کو مسلسل توانائی کیسے حاصل ہوگی ۔ ان کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ یہ اپنی نسل کی حفاظت کیسے کریں گے ؟ ان کے کمزور جسم اپنا مخصوص درجہ ء حرارت کیسے برقرار رکھیں گے ؟ یہ چلتے ہوئے توازن کیسے برقرار رکھیں گے ۔ جن لوگوں نے چلنے والے، سیڑھیاں اترنے والے روبوٹس بنائے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی چیز کو توازن (Balance)دینا کس قدر مشکل کام ہے ۔ یہ جاندار چیزیں بڑی نرم و نازک تھیں ۔ انہیں خصوصی حفاظت کی ضرورت تھی ۔سب سے بڑے منصوبہ ساز نے جب جاندار پیدا کیے تو یہ اس کی شان کے خلاف تھا کہ ان جانداروں کی ضروریات پوری کرنے کا بندوبست نہ کیا جاتا۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ وہ مہربان رب خود کو پردے میں رکھنا چاہتا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون مجھے تلاش کرتا ہے ۔ او ر خود کو چھپایا بھی ایسے کہ ہر چیز سے اس کا نور ٹپک رہا ہے ۔ زمین و آسمان چیخ چیخ کر اس کے وجود کی گواہی دے رہے ہیں ۔ 
خیر ، اللہ نے جب زندگی تخلیق کی تو اس کی حفاظت کے لیے بہت سے نظام تخلیق کیے ۔یہ نظام موت سے پہلے تک اس جاندار کی حفاظت کرتے ۔ یہ نظام کیا تھے؟ خدا نے جسم میں بھوک کا احساس پیدا کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر بھوک نہ لگے تو ضرورت کے باوجود انسان کھانا چھوڑ دیتاہے ۔ ا س کا وزن کم ہونے لگتا ہے ۔ پھر ڈاکٹر سے دوا لینی پڑتی ہے کہ جسم میں بھوک کا احساس پیداہو۔ جسم میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کان کے پردے میں ایک سسٹم رکھا گیا ۔ اگر آپ کی گردن سے دماغ کے نچلے حصے کو خون کی سپلائی متاثر ہو تو انسان کو چکر آنے لگتے ہیں ۔ جسم کو اس طرح سے بنایا کہ مضبوط ہڈیوں کے اوپر گوشت رکھا، اس کے درمیان میں خون کی نالیاں رکھیں ۔ جن سے جسم کے ایک ایک خلیے کوخوراک ملتی رہے ۔ انسان کے منہ کے اندر ذائقے کو چکھنے والے خلیات رکھے ۔ دماغ میں ان ذائقوں کی پہچان رکھی ۔ اگر یہ ذائقہ نہ ہو تو انسان باوجود شدید ضرورت کے، کھا نہیں سکتا۔ اسے متلی ہونے لگتی ہے ۔ سب کچھ وہ واپس اگل دیتا ہے ۔ 
اس مہربان خدا نے ایک ایسا نظام پیدا کیا، جس سے جسم کا درجہ ء حرارت ایک خاص حد میں برقرار رہتا ہے ۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اس قدر خوبصورت ہوتاہے کہ ہر کوئی اس کا منہ چومنے لگتا ہے۔ خدا نے گلے میں خصوصی طور پر ٹانسلز نصب کیے تاکہ وہ جراثیم کو اندر جانے سے روکیں۔ اس نے ہمارے جسم میں ایک قدرتی مدافعاتی نظام(Immune System)رکھا ۔ یہ نظام اس قدر خوفناک جنگی صلاحیت کا مالک ہے کہ ایک جرثومے کے اندر داخل ہونے پر اعلانِ جنگ کر دیتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اکثر جاندار جراثیم جسم میں جانے کے باوجود بیمار نہیں ہوتے بلکہ ان کے جسم ان جراثیم کو مار ڈالتے ہیں ۔ اگر کسی عضو کی پیوندکاری یا کسی اور وجہ سے یہ immune systemکو کمزور کرنا پڑ جائے تو ایسے انسان زیادہ تر بیمار ہی رہتے ہیں ۔ کئی کئی مہینے تک زکام پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ٹی بی اور ہر وہ بیماری جو ان کے قریب سے گزرتی ہے ، جسم اس کا شکار ہو جاتاہے ۔ ناک میں ریشہ پیدا کیا تاکہ ہوا صاف ہو کر اندر جائے ۔ ایک انسان ہی نہیں ، زمین کی تاریخ میں پانچ ارب جاندارپالے۔ حتیٰ کہ دماغ کے انتہائی نازک اور پیچیدہ حصوں کی حفاظت کے لیے ایک blood brain barrierبنایا تاکہ خون بھی انتہائی حد تک فلٹر ہو کر دماغ میں جائے ۔ یہ ایسی جگہ تھی، جہاں ایک بھی غیر ضروری ذرّہ داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ 
جسم اور دماغ میں پیغام رسانی اور جانداروں کی حرکات کے لیے ہزاروں کلومیٹر طویل تاریں(Nerves)بچھائیں ۔ ان تاروں کے ذریعے درد کا احساس دماغ تک پہنچایا ۔ اس درد کی وجہ سے جاندارو ںمیں خوف پیدا کیا اور نفس میں اپنی انتہائی محبت پیدا کی۔ یہ سب اس لیے کہ جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کریں ۔ ہر جگہ اپنی نشانیاں رکھیں ۔ جانداروں کا جوڑے کی شکل میں پیدا ہونا اور جنسِ مخالف میں کشش بھی ان نشانیو ںمیں سے ایک بہت بڑی نشانی تھی ۔ 
خدا نے زمین میں زندگی کی حفاظت کے سسٹم قائم کیے ۔ یہ سسٹم کسی اور سیارے پر نہیں تھے ۔ یہاں اوزون پیدا کی، بھاری آب و ہوا (Heavy Atmosphere)، آکسیجن کی بہتات، بہتا ہوا پانی ، زمین سے پودوں کا اگنا، وافر مقدار میں گوشت والے جانور ، زمین کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے مقناطیسی میدان ۔ 
جب یہ سب کچھ ہو چکا تو پھر پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے ایک کو عقل دی۔ اس عقل سے کام لے کر اس جاندار نے مضبو ط گھر بنائے ، فصلیں اگائیں ، اناج ذخیرہ کیا ، ہر قسم کی ایجادات کیں اور ان سے فائدہ اٹھایا ۔ خدا نے اس خاص مخلوق سے کہا، ایک خاص ضابطے کے پابند ہوجائو، میرے احکامات کی تعمیل کرو۔ یہ احکامات کیا تھے؟ یہ مذہب تھا ۔ یہ مذہب کیا تھا؟ اس مذہب کا مقصد یہ تھا کہ تمہیں سب جانوروں کے بر عکس عقل دی۔ تم نے زندگی عقل کے مطابق گزارنی ہے ۔ اس مذہب میں زندگی گزارنے کے مکمل احکامات موجود تھے ۔ 
انسان اگر اس عقل کو استعمال کرتا تو کبھی اتنا بے فکر نہ ہوتا ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ اگر پانچ ارب قسم کی مخلوقات کو عقل نہیں دی گئی اور صرف انسان کو دی گئی تو اس انسانی عقل سے بڑا ثبوت خدا کی ذات کا اور کیا ہو سکتا تھا۔ انسان نے جب یہ دیکھا کہ کرّہ ء ارض پر تو میری حکومت ہے تو اس نے کہا، کیا ضرورت ہے خدا کو ماننے کی؟کیا ضرورت ہے اتنی پابندیوں میں زندگی گزارنے کی؟ پھر جمائی لے کر اس نے کہا ، اچھا، چلومجبوری ہے تو مان لیتا ہوں لیکن مجھے ہم جنس پرستی سے کوئی نہ روکے ۔ میری زندگی ، میری مرضی۔ البتہ میں خدا کا وجود مان لیتا ہوں ۔ 
اب آپ کا کیا خیال ہے کہ جس خدا نے ایک زمین پر پانچ ارب قسم کی مخلوقات کو پیدا کیا اور ان کی ضروریات کو پورا کیا ۔ جس کے آگے زمین وآسمان کی ہر چیز سجدہ ریز ہو، انسان کا یہ اقرار، جو اپنی طرف سے وہ احسان کے طور پر کر رہا ہے ، کتنی اہمیت کا حامل ہوگا؟ اس نے کہا ، ٹھیک ہے ، چار دن کی عیاشی کر لو ، پھر تمہارا یہ شک بھی میں نکالوں گا کہ تمہیں موت کے بعد دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا۔ وہ یہ کہتاہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ گل سڑ کر ختم ہو چکی ہڈیوں کو دوبارہ بنانا میرے لیے مشکل ہے ؟ میں تو تمہارے finger printبھی دوبارہ بنا دوں گا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ زمین و آسمان کا ہر ذرہ اس خدا کے سامنے سجدہ ریز ہے ۔ کیسے؟ ہمارا جسم آکسیجن، کیلشیم، ہائیڈروجن، نائٹروجن، فاسفورس ، کاربن اور کچھ دوسرے عناصر سے بنا ہے ۔ اب میرے جسم کی آکسیجن اور کیلشیم تو عقل رکھتی ہے اور زندہ ہے لیکن باقی جگہوں پر پڑی ہوئی نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں ایک پردہ ہم پر ڈال دیا گیا ہے اور ہمیںاپنے جسم سے باہر کے سب عناصر بے جان لگتے ہیں ؟ بہرحال جو کچھ بھی ہے ،موت کے بعد یہ دوبارہ جی اٹھنا کس قدر دلچسپ ہوگا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved