ہمارے کالم نگار دوست اسد مفتی‘ جو آج کل ہالینڈ میں ہوتے ہیں، کا فون آ گیا۔ حال چال پوچھا تو میں نے بتایا کہ اس عمر میں جیسا ہونا چاہیے‘ بس ویسا ہی ہے۔ کہنے لگے‘ ان حالات میں آپ کے لیے بیحد ضروری ہے کہ رات سونے سے پہلے ریڈوائن کی ایک پیالی استعمال کریں۔ آفتاب سے کہیں‘ وہ کسی اچھے ہوٹل سے منگوا دیں گے، یہ آپ کے لیے بہت ضروری ہے۔ میں نے کہا‘ ہمارے گھر میں تو شراب نہیں آ سکتی۔ کہنے لگے: آپ نے نشے کی خاطر نہیں بلکہ ٹانک کے طور پر استعمال کرنی ہے‘ اور پھر ایک پیگ سے کتنا نشہ ہو جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
آفتاب سے بات کی تو وہ بولے‘ مفتی صاحب کو خود یہ معلوم نہیں کہ ریڈوائن نان الکوحلک ہے۔ اور صرف جوس ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بازار سے ریڈ گریپس کا جوس ملتا ہے؛ تاہم مجھے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے شاعرہ انجم قریشی میرے ہاں آئیں اور میں نے ان کے سامنے یہی جوس رکھا تو انہوں نے طوعاً و کرہاً آدھا گلاس پی تو لیا لیکن کہا کہ یہ صرف ایسنس ہے‘ اور چینی۔ آفتاب کو بتایا تو وہ بولے‘ بالکل غلط ہے‘ وہ خالص جوس ہوتا ہے؛ تاہم ریڈوائن اور جوس کے بارے میں مَیں ابھی تک خاصا مشکوک ہوں۔ لیکن اس دوران ایک بہت اچھی بات یہ ہو گئی کہ آفتاب نے کہا کہ اگر آپ فٹ محسوس کرتے ہوں تو آپ کو ایک عمرہ کروا لیا جائے؟ میں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا تو بولے: وہاں تیز چلنا ہوتا ہے سو‘ آپ کے لیے وہاں وہیل چیئر تو ہو گی ہی۔
میں ابھی اسی سرشاری میں تھا کہ ہمارے دوست جسٹس (ر) الحاج میاں سعید الرحمن فرخؔ کا فون آ گیا۔ میں نے پچھلے دنوں اُن کی ایک نعت اپنے کالم میں چھاپی تھی جبکہ وہ عمرے پر جانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ لیکن آج انہوں نے بتایا کہ وہ یہ سعادت علیل ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں کر سکے۔ کہتے ہیں کہ آدمی اگر کسی نیک کام کا ارادہ کر لے اور اگر وہ اُسے سرانجام نہ دے سکے تو بھی اُسے اس کا ثواب ضرور ملتا ہے۔ سو‘ اُمید ہے کہ میاں صاحب کو اس کا ثواب حاصل ہو گیا ہو گا۔ انہوں نے اس ناکامی پر جو اشعار تخلیق کئے وہ کچھ اس طرح سے ہیں :
آپؐ سے دُور ہو گیا ہوں میں
کتنا مجبور ہو گیا ہوں میں
میری سرکار‘ اس علالت میں
کرب سے چُور ہو گیا ہوں میں
دام و درہم تو ہیں مرے پلّے
پھر بھی معذور ہو گیا ہوں میں
روشنی لے کے ماہِ تاباں کی
بُقعۂ نور ہو گیا ہوں میں
نعتِ سرورؐ کا فیض ہے فرخؔ
آج مشہور ہو گیا ہوں میں
یہ تو تھی عمرہ کی سعادت حاصل نہ کرنے پر حسرت۔ لیکن اُن کے پاس ایک مکمل نعت بھی تھی جو انہوں نے میری درخواست پر عنایت کی ہے:
درِ حبیب پہ بٹتی ہیں رحمتیں کیا کیا
ملی ہیں خاک نشینوں کو رفعتیں کیا کیا
کٹی ہیں درد و الم کی مسافتیں کیا کیا
قرارِ جاں کی ملیں مجھ کو منزلیں کیا کیا
میں اُنؐ کے شہر میں پائوں گا چاہتیں کیا کیا
مچل رہی ہیں مرے دل میں حسرتیں کیا کیا
کرم کیا مرے آقا نے سرفراز کیا
یہ دُنیا کرتی تھی ورنہ ملامتیں کیا کیا
سفر نصیب ہوا شہرِ خوش نُما کا مجھے
سمیٹ لیں مری آنکھوں نے رونقیں کیا کیا
ملا جو اذنِ حضوری تو چل پڑا فرخؔ
گرفتہ پا تھیں وگرنہ ندامتیں کیا کیا
اُن کی بحالیٔ صحت کی دعا کے لیے بھی اپیل ہے!
لگے ہاتھوں تھوڑی سعادت میں بھی حاصل کر لوں‘ یہ نعت پیش کر کے‘ جو میرے تازہ مجموعہ غزل ''توفیق‘‘ کے آغاز میں درج ہے :
صُورتِ اشکِ تپاں ہوتی ہوئی
نعت آنکھوں سے رواں ہوتی ہوئی
کیا مدینے کے گلی کوچوں میں
عقل پھرتی ہے گماں ہوتی ہوئی
چھائوں اُس پیڑ کی ایسی ہے کہ جو
ہے یہاں تک بھی وہاں ہوتی ہوئی
آستاں وہ ہے کہ ہے جس کے سبب
لامکانی بھی مکاں ہوتی ہوئی
پیچ اسرار کے کھلتے ہوئے سب
ہر نہاں چیز عیاں ہوتی ہوئی
روشنی چاروں طرف سے آ کر
سامنے اُن کے دُھواں ہوتی ہوئی
التجا سی کوئی خاموشی میں
بے زبانی ہی زباں ہوتی ہوئی
پھیلتی موجِ شفاعت ہر سُو
اور‘ کراں تابہ کراں ہوتی ہوئی
آرزو اُن کے بلاوے کی‘ ظفرؔ
اِس بُڑھاپے میں جواں ہوتی ہوئی
آج کا مقطع
سانس لینا چاہتا ہوں میں‘ ظفرؔ
آگ سے پہلے دھواں درکار ہے