تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-04-2018

ناگواری جھیلنے کا صلہ

کسی بھی معاشی سرگرمی میں آپ کو دیا جانے والا معاوضہ محض کام کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ ناگواری جھیلنے کا بھی ہوتا ہے۔ معاوضہ آپ کو اصلاً ایسے کام کے لیے دیا جاتا ہے جو آپ کو بے آرام کردے اور سُکون میں خلل ڈالے۔ آپ کو ایسے کام کرنا ہوتے ہیں جو دوسروں کو خوفزدہ کرنے والے محسوس ہوتے ہوں اور ممکن ہے کہ وہ آپ کو بھی خوفزدہ کرتے ہوں۔ سیدھی سی بات ہے جس کام کو دوسرے آسانی اور سُکون کرسکتے ہوں وہ آپ سے کیوں کرایا جائے گا؟ 
ہماری زندگی کے دو انتہائی واضح پہلو ہیں۔ ایک ہے معاشی اور دوسرا غیر معاشی۔ کسی بھی معاشرے میں ایسے لوگ کم ہی پائے گئے ہیں جو غیر معاشی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا لطف معاشی سرگرمیوں سے بھی کشید کریں۔ اگر آپ معاشی سرگرمی ذہن پر بوجھ ڈالے بغیر انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ایک صورت یہ ہے کہ اُس میں غیر معمولی دلچسپی لیں اور راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اُس کی گہرائی میں اتر کر اُسے دل سے اپنائیں۔ ایسا کرنے کا ایک اچھا اور اب تک خاصا بار آور ثابت ہونے والا طریقہ یہ ہے کہ اپنے مشاغل کو ذریعۂ معاش میں تبدیل کرلیا جائے۔ جو لوگ اپنے مشاغل کو ذریعۂ معاش میں تبدیل کرتے ہیں اُن کے لیے کسی معاوضے کی خاطر کام کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، جب آپ اپنے مشغلے یا مشاغل کو ذریعۂ معاش میں تبدیل کرتے ہیں تو کام میں غیر معمولی لطف محسوس ہوتا ہے۔ ذہن میں جو کچھ بھی ابھرتا ہے وہ عملی شکل بھی آسانی سے پاتا ہے۔ مشاغل انسان کو بھرپور لطف سے ہم کنار کرتے ہیں۔ مشاغل کو معاشی سرگرمی یا پیشے میں تبدیل کرنے سے بھی انسان غیر معمولی لطف کشید کرتا ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی کام زیادہ ناگوار محسوس ہوتا ہے نہ مشکل۔ 
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انہیں کام کرنا اچھا لگتا ہے یعنی معاشی سرگرمیاں پرلطف محسوس ہوتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں کم ہی لوگ ہیں جو معاشی اور غیر معاشی سرگرمیوں سے یکساں لطف کشید کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ہم روزانہ دفتر، فیکٹری، دکان یا کام کے کسی اور مقام کی طرف جاتے ہوئے اپنے دل و دماغ اور مزاج پر کچھ نہ کچھ بوجھ ضرور محسوس کرتے ہیں۔ گھر سے نکلتے وقت ذہن میں کسی حد تک ناگواری کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم گھر سے جا نہیں رہے بلکہ کوئی ہمیں کام کی طرف دھکیل رہا ہے۔ 
جو لوگ اپنی قابلیت، تجربے یا کسی اور معاملے کی بدولت کم محنت سے غیر معمولی (یعنی کسی حد تک استحاق سے بڑھ کر) معاوضہ پاتے ہیں وہ بھی اپنے کام سے کچھ خاص لطف حاصل نہیں کر پاتے، محظوظ ہونے میں قدرے ناکام رہتے ہیں۔ ہم سبھی عمومی سطح پر یہ چاہتے ہیں کہ زندگی میں معاشی سرگرمیاں نہ ہوں یعنی زندہ رہنے کے لیے لازمی طور پر کچھ کرنا نہ پڑے۔ یہ اگرچہ غیر حقیقت پسندانہ اور غیر فطری نوعیت کی سوچ ہے مگر بہر حال پائی تو جاتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر یہی تو چاہتے ہیں کہ سارے کام خود بخود ہو جایا کریں، کچھ کرنا نہ پڑے۔ نہ کوئی نوکری ہو نہ کوئی کوئی ذمہ داری۔ اس خواہش کی تکمیل میں وہ لوگ کسی حد تک کامیاب ہوتے ہیں جنہیں باپ دادا کی طرف سے ترکے میں غیر معمولی حصہ ملا ہو۔ باپ کا ترکہ تقسیم ہونے پر جسے کروڑوں روپے ملے ہوں وہ اگر چاہے تو کچھ کیے بغیر زندگی بسر کرسکتا ہے۔ اور کچھ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ بہت جلد اپنے معمولات ہی نہیں بلکہ تعلقات سمیت پوری زندگی میں واضح کھوکھلا پن محسوس کرتے ہیں۔ انہیں قدم قدم پر یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ وہ اُتھلے پانی میں کشتی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
اگر کچھ کر دکھانا ہے اور اس کا بھرپور معاوضہ بھی پانا ہے تو ہمیں ہر وہ کام کرنا چاہیے جسے کرتے ہوئے لوگ ناگواری محسوس کرتے ہوں۔ جس کام کو لوگ جس قدر ناپسند کرتے ہوں اُس میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد اُتنی ہی کم ہوتی ہے کیونکہ ہر انسان چاہتا ہے کہ کم سے کم کام کرکے زیادہ سے زیادہ معاوضہ پائے اور کام بھی ایسا ہو کہ جسے کرتے وقت دل و دماغ پر جبر نہ کرنا پڑے یعنی جو کچھ بھی کرنے کو کہا جائے وہ اپنی مرضی کا ہو۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جس کام کو کرنے میں لوگ زیادہ دلچسپی نہ لیں اور اُس کا کیا جانا لازم بھی ہو تو منہ مانگا معاوضہ پانے کا امکان زیادہ توانا ہوتا ہے۔ 
لوگ عموماً ایسے شعبوں سے وابستہ ہونا زیادہ پسند کرتے ہیں جن میں زیادہ محنت نہ کرنا پڑے۔ یہی سبب ہے کہ بہت سے شعبوں میں کام آسانی سے نہیں ملتا۔ ایسے شعبوں میں کام کرنے کے خواہش مند بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اگر کہیں ایک آسامی خالی ہو تو ہزاروں امیدوار آ کھڑے ہوتے ہیں۔ چپڑاسی، کلرک، ٹیلی فون آپریٹر اور آفس بوائے کی جاب کے لیے درخواستیں دینے والے ہزاروں ہوتے ہیں۔ اگر کہیں معیاری ترجمہ کرنے والے یا ریسرچ رپورٹس تیار کرنے والوں کی ضرورت ہو اور ریکروٹمنٹ کا طریق کار انتہائی غیر لچک دار ہو تو درخواستیں دینے والے انگلیوں پر گِنے جاسکتے ہیں۔ 
ایسا کیوں ہے؟ صرف اس لیے کہ کچھ سیکھے بغیر نوکری کرنا انتہائی آسان ہے اور لاکھوں افراد اِسی طور زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چپڑاسی بننے کے لیے کوئی تربیت حاصل نہیں کرنا پڑتی۔ کچھ کچھ ایسا ہی حال کلرکوں کا بھی ہے۔ ٹائپنگ سیکھ کر ایک آدھ ہفتے کی پریکٹس کے بعد کوئی بھی کلرک بن سکتا ہے۔ اور کلرکی میں کون سی دانش وری کی ضرورت پڑتی ہے؟ یہ مکھی پر مکھی بٹھانے کا کام ہے۔ دو اور دو چار کرنے ہوتے ہیں۔ ایک آسامی کے لیے ہزاروں درخواستیں آتی ہیں۔ اتنا سخت مقابلہ ہو تو نوکری بھی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے کیونکہ نکال دیئے جانے پر ہزاروں افراد مکمل تیاری کی حالت میں ملتے ہیں۔ بہتر ملازمت اسی وقت ملتی ہے جب امیدوار زیادہ نہ ہوں۔ اور ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب جاب کے تقاضے زیادہ ہوں۔ جس منصب کے لیے زیادہ تربیت کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے درخواست دینے والے خال خال ہوتے ہیں۔ انسان جتنا زیادہ سیکھتا ہے اُتنا ہی زیادہ پاتا ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، بالکل سامنے کی بات ہے، سیدھا اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا بنیادی اصول ہے۔ 
جو لوگ اعلٰی تعلیم پاتے ہیں اور پھر ضرورت کے مطابق تربیت بھی حاصل کرتے ہیں ان کے لیے بہتر ملازمت اور شاندار زندگی کے امکانات زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ جس چیز پر جتنی محنت کی جاتی ہے اُس کی قدر میں اُسی قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً روئی سستی بکتی ہے۔ روئی سے دھاگا بنائیے تو اُس کی قیمت زیادہ ملے گی۔ دھاگے سے کپڑا تیار کیجیے تو وہ اور بھی زیادہ قیمت پر فروخت ہوگا۔ اور اگر کپڑے سے ملبوس تیار کیجیے تو اُس کی قدر مزید بڑھ جاتی ہے۔ کسی بھی چیز کا معیار اور افادیت بڑھاتے جانے کا عمل value-addition کہا جاتا ہے۔ 
جاب مارکیٹ میں ان لوگوں کی طلب ہمیشہ زیادہ رہتی ہے جو زیادہ کام جانتے ہیں۔ بعض شعبوں میں سیکھتے رہنے کی بہت اہمیت ہے۔ جو لوگ جتنا زیادہ سیکھتے ہیں انہیں اتنا ہی زیادہ معاوضہ ملتا ہے۔ اگر آپ بھرپور کامیابی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ ہنر سیکھیے اور ہر ہنر کے حوالے سے اپنی مہارت میں پختگی لاتے جائیے۔ یہ عمل بھی چونکہ کسی حد تک ناگواری کا احساس لیے ہوئے ہے اس لیے معاوضہ ناگواری جھیلنے کا بھی ملے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved