میجر آفتاب احمد کی چشم کشا کتاب ہے جسے مصطفی پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 550 روپے رکھی ہے۔ اس کا انتساب اس طرح سے ہے ''پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام اور مسلح افواج کے نام جن کی کوکھ ‘نظریہ اور تاریخ اور شہدا‘ غازی اور گھائل ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے...تم اور ہم 1971ء کے المیے ‘اس جنگ و جدل کے دوران‘ اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہو سکتے تھے۔ کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلامِ محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی ہی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرارداد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی۔
میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصور کے دو جُز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اورجیسور کی بارکوں کے باہر جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔
اندرون سرورق پر درج مصنف کا مختصر تعارف اس طرح سے ہے :
مصنف 23 مئی 1947ء کو کھاریاں کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے جو سو سال سے سپاہگری سے منسلک تھا۔ زندگی کے ابتدائی مراحل کھاریاں‘ کوئٹہ‘ پشاور‘ راولپنڈی اور لاہور میں طے کرنے کے بعد 1968ء میں انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر پاک آرمی کی بلوچ رجمنٹ میں کمیشن کی صورت میں مل گئی۔ مسلح دستوں کے ساتھ وہ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے کربناک دور سے گزرے اور مغربی محاذ پر انہوں نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1958ء اور 1971ء کے مارشل لاء کو دولخت ہونے کا سبب پاک فوج کی عوام سے دُوری کا باعث اور اس کی صفوں میں کردار کے بحران کا محرک گردانتے ہوئے انہوں نے اپنے حلف کے تقاضوں کے عین مطابق ملک میں ایک اور اُفقی اور عمودی انتشار کے نقطہ آغاز جنرل ضیاء الحق کے تیسرے مارشل لاء کے خلاف مسلح افواج کے اندر سے ہی مزاحمت کی عدیم المثال روایت ڈالنے کی جرات رندانی کی اس ناقابل یقین‘ انوکھے اور منفرد جرمِ وفا میں حبس دوام کے مستحق ٹھہرے۔ ادھر جمہوریت کی بحالی کے بعد ضمیر کی آواز بلند رکھنے کے جرم مکرر میں حاکم وقت بینظیر بھٹو نے بھی انہیں تین سال بنا مقدمہ سندھ کی جیلوں میں اسیر کئے رکھا۔ اٹک قلعے میں مارشل لاء عدالت کے سامنے ان کا آخری بیان General Accuses you کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور جمہوری حکومت کی انسداد دشت گردی کی لاڑکانہ عدالت میں جہاں ان کے خلاف نامکمل اور بے نتیجہ مقدمہ برسوں لٹکے رہا۔ ان کے دل کی بات ''جنرل کے قلعے سے ملکہ کی جیل میں‘‘ کے نام سے ضبط تحریر میں آئی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنا ذاتی اور اجتماعی کردار انہوں نے ''مٹی کی کہانی (اس لشکر کو جاں پیاری تھی)‘‘ کی صورت قلم بند کیا اور مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی کے متعلق ان کی چشم کشا کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ اپنی قسم کی پہلی اور بلامبالغہ وہ آخری کتاب ہو سکتی ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ''وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مُکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ کتاب لڑاکا فوج کے ایک ایسے افسر کے تیزدھار قلم سے ہے جو اس داستان کا شاہد ہی نہیں بلکہ اس کی صف اول کا وہ سپاہی بھی تھا جو طاقت، اختیار اور جوانی کے اُس عالم میں بھی ہاتھوں سے پھسلتے اپنے ملک اور تقسیم اور جدائی کا شکار ہوتی اپنی قوم کے دُکھ درد کا شعور اور احساس رکھتا تھا۔ ایک طرف اپنے فرض کے تقاضوں کہیں تلخ زمینی حقائق اور اپنے حلف وفا کی طوفانی کشمکش کے درمیان جھولتے‘ کبھی دستوں کی قیادت کرتے ہوئے اور کبھی بھرے میدان جنگ میں بھی وہ تنہا دکھائی دیتا ہے۔
محب وطن شہری‘ سپاہی‘ شاعر اور ادیب یہ طے کئے ہوئے ہے کہ اسے آپ بیتی اور جگ بیتی ہر دو حوالوں سے انفرادی اور اجتماعی ''نامہ ٔاعمال‘‘ کے آخری حرف کی امانت بھی خاک کی بجائے نئی منزلوں کو نکلتی وارث نسلوں کومنتقل کرنا ہے‘‘
اس ساری روداد کو 64 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو درج ذیل ہیں اور جن کے عنوانات ہی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہماری تاریخ کا یہ باب کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ کے دریا کی امانت (پس منظر) وفادار کون‘ سب ہی باغی تھے (وضاحت) ستمبر 71ء کی وہ صبح سبز پرچم پھر لہرا سکتا تھا‘ خودکش جنگی حکمت عملی آٹھواں باغی سیکٹر‘ محاصرے کی رات‘ پلٹن کے مہم جُو‘ ڈھاکہ فورس محاذ کی طرف‘ پہرے کی رات اور بارودی سرنگوں کی جوڑی‘ کلروانی تھانیدار‘ شہر کا دفاع‘ باغی لشکر کی تلاش میں‘ پہلا ٹکرائو یارو! میں شہید ہو گیا‘بن گائوں کی نمائش‘ شہادت اور فرار‘ دھان کی جھیل میں‘ کمین گاہ کا انتخاب‘ امام دین پپلیٹوں والا‘ مسجد کی آڑ میں‘ آخری چاکلیٹ‘ شب خون‘ محصور بستی سے ملاپ‘ نئی ٹینک شکن رائفل‘ زبان کا زخم‘ بی بی مدھو بالا‘ ٹوٹا ہوا خواب‘ توپچی کی شہادت‘ شمسو بنگالی‘ تیرہواں زخمی‘ گڑھے کے پھول‘ مُکتی باہنی کا قیدی‘ سرحد پار سے حملہ‘ بارودی سرنگوں کے کھیت میں دم توڑتا ملک‘ شہید منزل‘ وسیع تر ہوتی خلیج‘ سفر ختم ہو رہا تھا‘ بُندو کی گائے‘ ...اور محاصرہ ٹوٹ گیا‘ آخری قافلہ‘ آخری سلام‘ جلاوطنوں کی واپسی‘ حلف وفا‘ تاریخ اور وقت کے حضور‘ لاہور پہ نثار‘ جیثور کی نذر۔
آج کامطلع
بات کرتا نہیں تو پھر کیا ہے
دن گزرتا نہیں تو پھر کیا ہے