تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-04-2018

اعلیٰ تعلیم کی آڑ میں

ایسے موضوعات کی کمی نہیں جن پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ ازدواجی زندگی بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے۔ اس موضوع پر طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اور ہمارا شمار اِس موضوع کو پامال کرنے والوں میں ہوتا ہے! بہت سے احباب اکثر یہ شِکوہ کرتے ہیں کہ یہ موضوع ہمارے حواس اور اعصاب پر بُری طرح سوار ہوگیا ہے اور اب ہم اِسے اُتار پھینکنے کا تصور بھی ذہن سے کھرچ کر پھینک چکے ہیں۔ یقین کیجیے ایسا نہیں ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا! 
خیر، ایک ملتا جلتا موضوع اور بھی ہے جس کی تازگی اور شادابی دم توڑنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ موضوع ہے زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے کے لیے کسی موزوں پارٹنر کی تلاش۔ یہ معاملہ ہر معاشرے میں ایک الگ ہی انداز رکھتا ہے۔ بھارتی معاشرے میں لڑکوں کی قدر زیادہ ہے۔ عام سے لڑکے کو بھی منہ مانگا جہیز مل جاتا ہے۔ پڑھے لکھے اور اچھی سرکاری نوکری والے لڑکوں کی تو بات مت پوچھیے۔ دوسری طرف چین میں فی گھرانہ ایک بچے کی پالیسی اپنانے سے لڑکیوں کی تعداد کم رہ گئی ہے جس کے نتیجے میں لڑکوں کے لیے لائف پارٹنر تلاش کرنا بہت بڑے دردِ سر، بلکہ مہم جُوئی میں تبدیل ہوچکا ہے! 
بھارت میں لڑکی والے جہیز سے متعلق مطالبات تسلیم کرتے کرتے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ اب انتقام لینے پر اُتر آئے ہیں۔ حال ہی میں چند ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ لڑکی کے بھائیوں نے کوئی موٹا مرغا یعنی پڑھا لکھا، بڑے خاندان کا اور پرکشش سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت کا حامل لڑکا تلاش کیا اور پھر اُسے اغواء کرکے گن پوائنٹ پر اپنی بہن سے شادی کرادی! ہم نے ایسی ہی ایک خبر پڑھی تو سکون کا سانس لیا کہ ہمیں شادی کے معاملے میں ایسے تلخ تجربے کی بھٹی میں تپاکر کندن نہیں بنایا گیا! 
چین میں لڑکوں کے لیے لائف پارٹنر تلاش کرنا اب ایک باضابطہ مہم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لڑکیوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ اُن کے مزاج نہیں ملتے۔ گھر بسانے کے لیے پسند کی لڑکی بہت مشکل سے ملتی ہے۔ لڑکوں کو ''مشن امپوسیبل‘‘ پر نکلنا پڑتا ہے! اور جو مل جائے اُس پر صبر و شکر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ 
چین سے سے خبر آئی ہے کہ لڑکیوں کے لیے مختص یونیورسٹی میں ایک لڑکے نے محض اس لیے داخلہ لیا کہ وہ گرل فرینڈ کی تلاش کو ناکامی سے دوچار ہوتی ہوئی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اس یونیورسٹی میں ہر سال 1500 لڑکیوں کے درمیان صرف 15 لڑکوں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ ہم جس لڑکے کی بات کر رہے ہیں جب اُس سے پوچھا گیا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ کیوں لینا چاہتا ہے تو اُس نے لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا کہ وہ گرل فرینڈ کی تلاش میں ہے تاکہ ازدواجی زندگی کا سفر شروع کرنے کا پہلا مرحلہ کامیابی سے طے ہو! 
ازدواجی زندگی کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے اعلٰی تعلیم کے اداروں کا استعمال کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھر میں یہ ادارے اور بہت سے کاموں کی طرف ''جوڑے‘‘ بنانے کے کام بھی آتے ہیں! ہم نے کراچی کے کئی بڑے تعلیمی اداروں میں متعدد طلباء و طالبات کو اعلٰی تعلیم کے مراحل سے کم اور ''کپل میکنگ‘‘ کے مرحلے سے گزرتے ہوئے زیادہ دیکھا ہے! اب خیر سے اور بھی چند ایک انتظامات ہوگئے ہیں جن کی بدولت اعلٰی تعلیم کے اداروں کی ''ذمہ داری‘‘ کچھ گھٹ گئی ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں کھمبی کی طرح اُگ آنے والے مخلوط پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز نے کالجز اور یونیورسٹیز کے کاندھوں سے اچھا خاصا بوجھ اتار دیا ہے! کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں پرائیویٹ ٹیوشن سینٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد تعلیم سے لگاؤ کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی ''غیر نصابی‘‘ سرگرمیوں میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی بھی مظہر ہے! 
دیکھا آپ نے؟ چین میں لڑکیوں کی تعداد میں تیزی سے واقع ہوتی ہوئی کمی سے نمٹنے کا ایک طالب علم نے کیا خوب طریقہ نکالا۔ علم کی تلاش میں نکلنے والے اگر حصولِ علم کی سائڈ لائنز پر کچھ اور بھی تلاش کرلیا کریں تو کچھ ہرج نہیں۔ اور اگر علم کا اعلٰی معیار ڈھونڈتے ڈھونڈتے کوئی ڈھنگ کا یا ڈھنگ کی جیون ساتھی بھی مل جائے تو اِس میں بُرا کیا ہے! اگر علم حاصل نہ کرسکے تو محنت اکارت بہرحال نہ جائے گی اور کچھ نہ کچھ تو حاصل ہو رہے گا۔ اور اگر جیون ساتھی کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت علم بھی ہاتھ آجائے تو اُسے سونے پر سہاگہ سمجھیے! بعض عاقبت نا اندیش یہاں بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی والا محاورہ بھی استعمال کرسکتے ہیں! 
بہر کیف، چینی طالب علم نے جو طریقہ اختیار کیا وہ خاصا شریفانہ ہے۔ بھارت میں لڑکے یا لڑکی کو اغواء کرکے گن پوائنٹ پر شادی کرانے سے تو کہیں بہتر یہ ہے کہ کتابیں تھام کر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے میں عملی زندگی کا ''سچّا علم‘‘ تلاش کرلیا کریں! 
ویسے اعلٰی تعلیم کے فروغ کے نام پر قائم کیے جانے والے ادارے اگر علم کے پہلو بہ پہلو ''عمل‘‘ کی بھی تھوڑی بہت گنجائش پیدا کرلیا کریں تو اِس میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ نئی نسل کے پاس خرچ، بلکہ ضائع کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت ہوتا ہے۔ اگر پابندیاں لگائی جائیں گی تو وقت کہاں خرچ ہو پائے گا؟ اب دیکھیے نا چینی طالب علم نے کیسی اچھی راہ نکال لی۔ یونیورسٹی میں 1500 طالبات کے جِلَو میں پڑھتے بھی رہیے اور جیون ساتھی کی تلاش بھی جاری رکھیے۔ اِسے کہتے ہیں بیچلرز کورس میں ماسٹرز کے مزے! لڑکیوں کے ساتھ ساتھ پڑھتے پڑھتے یہ نوجوان مزاجِ نسواں سے آشنا بھی ہو جائے گا اور یہ آشنائی ازدواجی زندگی میں بہت کام آئے گی۔ 
ہم تو اُس وقت سے ڈرتے ہیں جب تعلیم اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں غیر متعلق قرار دے کر ایک طرف ہٹادی جائیں اور تعلیم و تعلّم کے مراکز کو ترجیحی بنیاد پر بہتر ازدواجی زندگی کی تیاری کا ''مینڈیٹ‘‘ دے دیا جائے! زمانہ جس تیزی سے جدت پسند ہوتا جارہا ہے اُس سے خوف نہ آئے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ جس دور میں کچھ خاص ہو ہی نہیں رہا تھا تب علامہ نے کہا تھا ؎ 
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں 
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی! 
ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ علامہ آج کے دور میں ہوتے تو اُن کی آنکھیں کیا کیا دیکھتیں اور وہ حیرت کے سمندر میں کس حد تک غرق رہا کرتے۔ ہم خیر سے ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر چیز کچھ کی کچھ ہوچکی ہے۔ کم و بیش ہر شخص وہی کام کر رہا ہے جو اُس کا نہیں اور ہر چیز وہی تاثیر پیدا کر رہی ہے جس کی توقع ہوتی ہے نہ امید۔ ایسے میں بس یہی سوچا جاسکتا ہے کہ جتنی خیر سے گزر جائے وہ غنیمت ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved