تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     05-04-2018

راہنما

انتخابات قریب آ چکے۔ امیدوار کے انتخاب کے لیے عمران خان نے اپنا معیار بتا دیا: عوامی مقبولیت اور پیسہ۔ بر سبیلِ تذکرہ، دیانت کا ذکر بھی ہے۔ کیا بائیس سال کی جدوجہد کا حاصل یہی ہے؟ تحریکِ انصاف سے پہلے بھی سیاسی جماعتیں اسی معیار پر اپنے امیدواروں کا انتخاب کرتی تھیں۔ اگر بائیس سال بعد، عمران خان کا نتیجۂ فکر بھی یہی ہے تو وہ کون سی تبدیلی تھی، وہ جس کے لیے سرگرمِ عمل رہے؟
انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں۔ یہ سیاسیات کے بنیادی اسباق میں سے ایک سبق ہے۔ جماعت اسلامی طویل عرصہ یہ سمجھتی رہی کہ انتخابات توسیعِ دعوت کے لیے ہوتے ہیں۔ خرم مراد مرحوم قیادت کی صف میں نمایاں ہوئے تو انہوں نے جماعت کو اس غلط فہمی سے نکالا اور بتایا کہ انتخابات میں کیوں حصہ لیا جاتا ہے۔ اب میرا خیال ہے کہ اہلِ سیاست میں، اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔ اس تناظر میں عمران خان کی بات کو سمجھا جائے تو اس کی توجیہہ یا تاویل ممکن ہے۔ 
سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے اور اس تک رسائی کا پیمانہ اکثریت کی تائید ہے۔ انتخابی عمل جس نہج پر استوار ہے، اس میں جیت کے لیے عصبیت کے ساتھ پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عصبیت، ہمارے ہاں خاندان، علاقے اور سیاسی جماعت سے جنم لیتی ہے۔ جو امیدوار اس پیمانے پر پورا اترتا ہے، اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اسی کو سامنے رکھ کر امیدوار کا چناؤ کرتی ہیں۔ تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے‘ جسے اگر انتخابات میں کامیابی چاہیے تو وہ اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی۔ امرِ واقعہ یہی ہے اور میں اس سے چند نتائج اخذ کرتا ہوں۔
پہلا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ سیاسی عمل کے ساتھ معاشرتی تبدیلی کو وابستہ کرتے ہیں، وہ عوام کے ساتھ دھوکہ کرتے ہیں یا پھر وہ ذہنی افلاس کو چھوتی ہوئی سادگی کا شکار ہیں۔ عمران خان ان لوگوں میں سے ہیں‘ جنہوں نے سیاست کے ذریعے معاشرتی تبدیلی کی بات کی۔ اب انہوں نے جس معیار کی بات کی ہے، وہ بتا رہا ہے کہ وہ عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے یا پھر بائیس سالہ جدوجہد نے انہیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ سیاسی عمل سے تبدیلی نہیں آتی۔ سیاست سماجی حرکیات کے زیرِ اثر ہوتی ہے اور سماجی تبدیلی کسی سیاسی تبدیلی کے مرہونِ منت نہیں ہوتی۔ اگر پہلی بات ہے تو ان کی دیانت مشتبہ ہے اور اگر دوسری ہے تو بصیرت۔
یہ جمہوریت کا کوئی عیب نہیں ہے۔ جمہوری عمل عوامی آدرشوں سے مرتب ہوتا ہے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسجد کے امام، بچوں کے استاد اور حکمران کے انتخاب کا پیمانہ ایک نہیں ہو سکتا۔ سیاست کے راستے اصلاح کے علم بردار یہ چاہتے ہیں کہ عوام مسجد کے امام کو امامِ کبریٰ کے لیے بھی منتخب کر لیں۔ یہ بوجوہ ممکن نہیں۔ سیاسی اداروں کی ضروریات اور ہیں اور مذہبی اداروں کی اور۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاست میں دیانت دار افراد نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ سیاست کی بنیادی ضرورت ہے مگر دیانت دار قیادت سماجی اخلاقیات کو بہتر بنائے بغیر سامنے نہیں آ سکتی۔ مزید یہ کہ ایسی قیادت سیاسی عمل کے تسلسل سے ابھرتی ہے اور اسے صرف جمہوری عمل ہی یقینی بناتا ہے۔ اسے کسی مصنوعی طریقے سے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ محض دیانت سیاسی ضروریات کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے عصبیت اور صلاحیت ناگزیر ہیں۔ 
ہمارے معاشرے میں ایک دیانت دار سیاسی قیادت کا ابھرنا دو متوازی کاوشوں کے امتزاج سے ممکن ہے۔ ایک سماجی بیداری اور آگہی کی جدوجہد جو عوامی شعور کو پختہ کرتی ہے اور دوسرا جمہوری سیاسی عمل جو سیاسی قیادت کے باب میں عوام کو فیصلے کا حق دیتا ہے۔ سماجی تبدیلی مقدم ہے، تاہم سیاسی عمل کا تسلسل بڑی حد تک سماجی تبدیلی کے عمل کو مہمیز دیتا ہے۔ مولانا مودودی جیسے اہلِ علم نے پیغمبرانہ جدوجہد سے یہی اخذ کیا ہے۔ 
دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان نے خود ہی اپنے امتیاز کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ دوسروں کی طرح، اقتدار کے کھیل کے ایک کھلاڑی ہیں۔ وہ خود بھی اس نتیجے تک پہنچ چکے کہ سیاست کے ساتھ تبدیلی کو وابستہ کرنا ایک سراب ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی ان کے ساتھ رومان وابستہ رکھنا چاہتا ہے تو ضرور رکھے مگر یہ جان لے کہ اس کا محبوب تو محبت سے دست بردار ہو چکا۔ سیاسی رومانوں کا نتیجہ ہمیشہ مایوسی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بھٹو صاحب نے رومانوی سیاست کی مگر سیاسی فیصلے زمینی حقائق کی روشنی میں کیے۔ وہ سیاسی طور پر کامیاب رہے مگر معاشرہ تبدیل نہیں ہو سکا۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھی رومانوی مزاج کے آدمی تھے۔ حکومتِ الٰہیہ کا رومان پالا مگر بالآخر کانگرس کی قومی سیاست کا ایندھن بن گئے۔
تیسرا یہ کہ ابھی ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اتنی توانا نہیں ہوئیں کہ افراد پر بالا دست ہوں۔ ہماری سیاسی جماعتیں اس حوالے سے ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ پرانی جماعتوں کا معاملہ تو ظاہر و باہر تھا۔ اب تحریکِ انصاف کا تجربہ بھی یہی ہے۔ اس ملک میں سیاسی جماعت کو ادارہ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ ن لیگ نواز شریف کے گرد گھوم رہی ہے۔ تحریکِ انصاف بھی عمران خان کے چاہنے والوں کا ایک کلب ہے۔ جماعت اسلامی کا استثنا ہے مگر وہ روایتی مفہوم میں کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ اس کا تنظیمی سانچہ بالکل مختلف ہے جو کسی سیاسی جماعت کے لیے موزوں نہیں۔
سوال اٹھ سکتا ہے کہ عمران خان اگر وہی کچھ کر رہے ہیں جو دیگر سیاسی جماعتیں کرتی ہیں تو صرف ان پر اعتراض کیوں؟ اس کا جواب واضح ہے۔ عمران کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ دوسرے اہلِ سیاست سے مختلف ہیں۔ وہ روایتی سیاست کو ختم کرنے کے لیے آئے ہیں۔ جب ان پر یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ وہ سیاست نہیں جانتے تو ان کے چاہنے والے اسے ان کا امتیاز قرار دیتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے روایتی سیاست سے تنگ آئے لوگوں کو ایک جائے پناہ دی ہے۔ اپنے طرزِ عمل سے انہوں نے اس امتیاز کی نفی کر دی۔ وہ روایتی سیاست کا علم اٹھا کر غیر روایتی سیاست کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
آج کی سیاست میں پارسائی کا دعویٰ بے معنی ہو گیا ہے۔ اب عوام کو حقیقت پسندی کے ساتھ فیصلہ کرنا ہو گا۔ میں یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا کہ سیاست میں رومان بے معنی ہے۔ سیاسی عمل کو ہمیشہ حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ اس باب میں پیر جماعت علی کی بات مشعل راہ ہو سکتی ہے۔ جب انہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا‘ لوگوں نے اعتراض اٹھایا کہ آپ جیسا ایک دین دار آدمی ایک ایسے آدمی کی تائید کیسے کر سکتا ہے‘ جو اپنی بود و باش میں روایتی دینی معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ طرزِ معاشرت میں بھی۔ قائد اعظم کے بارے میں تمام مذہبی طبقات کی رائے یہی تھی۔ پیر صاحب نے جواب دیا کہ اس وقت ان کا ایک مقدمہ ہے جو انگریزوں اور ہندو اکثریت کے سامنے پیش کیا جانا ہے۔ اس کے لیے ایک وکیل کی ضرورت ہے۔ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ باصلاحیت ہو اور دیانت دار ہو۔ یہ دونوں خوبیاں قائد اعظم میں موجود ہیں۔
کچھ یہی معاملہ آج ہمیں درپیش ہے۔ پاکستان کو چند مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سرِ فہرست اداروں کے مابین حسنِ توازن ہے۔ یہ توازن اتنا برباد ہو چکا کہ سیاسی استحکام ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کی ترقی کے لیے لازم ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے۔ دوسرا مسئلہ بین الاقوامی دنیا کے سامنے پاکستان کی ساکھ کا ہے جو پہلے مسئلے ہی کی توسیع ہے۔ تیسرا مسئلہ معاشی استحکام ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا تعلق دوسرے مسئلے سے ہے۔ دوسرے مسئلے نے، جیسے میں نے عرض کیا، پہلے مسئلے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
ہمیں ایسے راہنما کی ضرورت ہے جو ان مسائل کو اپنا مخاطب بنائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved