تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-04-2018

جلد یا بدیر

میں گزشتہ چھ‘ سات دن سے برطانیہ میں ہوں۔ پاکستان سے باہر جب بھی جائیں کوئی نہ کوئی ایک سوال‘ ہر حال میں پیچھا کر رہا ہوتا ہے اور اس بار یہ سوال ہے کہ ''کیا میاں نواز شریف کو سزا ہو گی؟‘‘ میں اس کا جواب کیا دوں؟ اصل میں جب سے صحافت میں خبر سے زیادہ خواہش کا دخل ہوا ہے‘ لوگ صحافیوں کو بہت زیادہ باخبر سمجھنے لگے ہیں حالانکہ باخبر ہونے کا تعلق ''خبر‘‘ سے ہے نہ کہ خواہش سے۔ لیکن کیا کیا جائے؟ آج کل یہی چورن سب سے زیادہ فروخت ہو رہا ہے اور میں تو ویسے بھی بے ضرر سا آدمی ہوں بلکہ بے ضرر بھی نہیں‘ بے وقعت سا آدمی ہوں کہ باخبر ہونے کے فی زمانہ سارے ذریعوں سے بے خبر اور لاتعلق۔ بھلا میرے پاس کیا خبر ہو سکتی ہے؟ نہ میرے پاس کوئی چڑیا ہے اور نہ کبوتر۔ نہ کسی بڑے آدمی کے ڈرائنگ روم کا باسی ہوں اور نہ ہی کسی ادارے کا مخبر۔ نہ کبھی عمران خان نے ٹویٹ کیا اور نہ ہی مریم بی بی نے۔ اب بھلا نئی خبر میرے پاس کہاں سے آئے گی؟ بس لے دے کر ایک حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر کیا جانے والا تجزیہ ہے اور اس کا یہ عالم ہے کہ کبھی ایک فریق ناخوش اور کبھی دوسرا۔ خوش تو کوئی تب ہو جب میں صحافی سے زیادہ پارٹی ورکر بن جائوں۔ اب اس عمر میں ہر بات پر سر ہلانے کی عادت ڈالنا ناممکنات میں سے ہے‘ لہٰذا ہر فریق کے لیے راندۂ درگاہ ہوں۔
کسی نے پوچھا: میاں نواز شریف کو سزا ہو گی؟ میں نے کہا: اس کا علم تو عدالتوں کو ہو گا۔ سوال ہوا: عدالتوں کا رویہ تو آپ کے سامنے ہے۔ میں نے کہا: اگر آپ کو سب کچھ نظر بھی آ رہا ہے اور معلوم بھی ہو چکا ہے تو پھر مجھ سوال کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ وہ کہنے لگا: آپ صحافی ہیں۔ میں نے کہا: پہلی بات یہ کہ میں صحافی نہیں‘ نیم صحافی ہوں۔ رپورٹنگ کبھی زندگی بھر نہیں کی۔ انویسٹی گیٹیو جرنلزم سے نابلند ہوں۔ یہ خوبیاں رئوف کلاسرا جیسے کالم نگاروں میں ہوتی ہیں‘ میں تو سیدھا سادہ کالم نگار ہوں۔ جو دیکھتا ہوں‘ لکھ دیتا ہوں اور جو محسوس کرتا ہوں‘ اسے سپردِ قلم کر دیتا ہوں۔ اندر کی خبر میرے پاس نہیں ہوتی اور الہام مجھے نہیں ہوتا۔ آپ مجھ سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں۔ رہ گئی بات صورتحال کی تو میرے خیال میں یہ میاں نواز شریف کے حق میں کچھ اچھی نہیں ہے‘ لیکن اس سے آگے مجھے کچھ پتا نہیں۔ جس ملک میں یک جنبشِ قلم آٹھ دس ہزار ''اعلیٰ سزا یافتہ‘‘ افراد این آر او کے تحت کلین چٹ حاصل کر لیں وہاں بھلا تجزیہ کس کام آتا ہے؟
آج صبح ہوٹل میں ناشتے کی میز پر بھی اسی معاملے پر گفتگو شروع ہو گئی۔ میرے ساتھ ایک منجھے ہوئے اور نہایت ہی حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال صحافی بیٹھے تھے۔ مجھ سے پوچھنے لگے: واجد ضیاء سے ہونے والی عدالتی بحث کو آپ خواجہ حارث کے سوالات اور واجد ضیاء کے جوابات سمجھ لیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اب کیس میں کوئی جان رہ گئی ہے؟ میں ہنسا‘ میں نے کہا: کیا مذاق ہے؟ آپ یہ سوال مجھ سے کر رہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں‘جو مجھے آپ سے کرنے چاہئیں۔ آپ کا تجزیہ مجھ جیسے لاعلم شخص کے لیے مشعل راہ ہو سکتا ہے اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ اگر آپ کا مقصد میرے ناقص علم کا احاطہ کرنا ہے تو میں اس کا ابھی اعتراف کر لیتا ہوں کہ بعد میں شرمندہ ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ ابھی ہتھیار ڈال دیئے جائیں۔ وہ کہنے لگے: نہیں خالد صاحب! ایمانداری کی بات ہے کہ میں آپ کا خیال جاننا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: اگر آپ میرے ناقص علم کو اپنے پیمانے پر ناپنا چاہتے ہیں تو میرے خیال میں ایسا ہرگز نہیں۔ واجد ضیاء اپنی گواہی میں بالکل وہی بات کہہ رہا ہے جو اس نے جے آئی ٹی کی دستاویزات میں لکھا ہے۔ اب بھلا وہ اپنی ہی تفتیش اور اس کے نتیجے میں استغاثہ کے سارے بیان سے مختلف بیان دے کر کیس کو برباد کیسے کر سکتا ہے؟ اس کی گواہی بالکل وہی ہے جو استغاثہ میں اس کا بیان اور جے آئی ٹی کی فائنڈنگز ہیں۔
وہ کہنے لگے: تو پھر جرم کیسے ثابت ہو گا؟ میں نے کہا: جب تک میاں نواز شریف لندن کی پراپرٹی خریدنے کا ثبوت فراہم نہیں کرتے‘ تب تک بارِ ثبوت ان کے اوپر رہے گا۔ میرے وہ دوست کہنے لگے: بارِ ثبوت ہمیشہ استغاثہ پر ہوتا ہے نہ کہ ملزم پر۔ میں نے کہا: وائٹ کالر کرائمز اور خاص طور پر مالی بدعنوانی‘ ٹیکس چوری اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کی صورت میں بارِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے۔ آپ کو تو علم ہی ہو گا کہ ایسے معاملات میں اپنی جائیداد بنانے کے ذرائع‘ اثاثوں کی خرید کے لیے درکار رقم کی مَنی ٹریل فراہم کرنا ملزم کا کام ہے۔ وہ کہنے لگے: ایسا صرف ہانگ کانگ میں اور شاید ایک آدھ اور ملک میں ہو گا اور کہیں نہیں۔ میں نے کہا: جناب! ساری دنیا میں ٹیکس چوری‘ جائیداد اور منی لانڈرنگ وغیرہ میں جب پراپرٹی کی صورت میں کوئی چیز سامنے آ جائے تو اس کی منی ٹریل دینے میں ناکامی کو استغاثہ کی سچائی تسلیم کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں شکاگو کے ڈان الکپون کا کیس اور نیویارک کے ڈان جان گوٹی کے کیسز اس کا واضح ثبوت ہیں۔
میرا وہ دوست کہنے لگا: لندن کی پراپرٹی تو میاں صاحب کے نام پر نہیں ہے۔ میں نے پوچھا: کس کے نام پر ہے؟ کہنے لگے: ان کے بیٹوں کے نام پر۔ میں نے پوچھا: انہیں یہ پراپرٹی خریدنے کے لیے رقم کہاں سے ملی۔ ہنس کر کہنے لگے: ان کے دادا نے دی تھی۔ میں نے کہا: یہ آپ میاں صاحب کا مؤقف بیان کر رہے ہیں یا اپنا تجزیہ بیان کر رہے ہیں؟ ویسے یہ فلیٹ ان کی ملکیت کب سے ہیں؟ وہ دوست کہنے لگے: یہ پراپرٹی ان کی ملکیت میں 1994ء کے لگ بھگ سے ہے۔ میں نے پوچھا: اور وہ 2006ء والی ملکیت کی کہانی؟ وہ کہنے لگے: وہ کہانی ہی ہے‘ حقیقت یہی ہے کہ وہ نوے کی دہائی سے ان کی ملکیت ہیں۔ پراپرٹی کی تقسیم سے پہلے ایک فلیٹ میاں شہباز شریف کا بھی تھا مگر پھر وہ بھی میاں نواز شریف کے بچوں کو منتقل ہو گیا۔ اس کی ایک علیحدہ کہانی ہے وہ پھر کبھی سہی۔ میں نے کہا: 1994ء میں میاں نواز شریف نے ٹیکس کتنا دیا تھا؟ وہ کہنے لگے: سب کو پتا ہے کہ کتنا ٹیکس دیا تھا۔ میں نے کہا: اگر ٹیکس اور پراپرٹی خریدنے کے لیے صرف ہونے والی رقم آپس میں میچ نہیں کرتی تو یہ ٹیکس چوری ہے یا کمیشن کا پیسہ ہے‘ اب یہ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ دونوں میں سے کون سی بات سچ ہے لیکن منی لانڈرنگ تو پکی ہوئی ہے کہ یہ پیسہ برطانیہ منتقل ہونے کا کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں۔ کم از کم ایسا کوئی ثبوت نہیں جو میاں صاحب عدالت میں پیش کر سکیں۔ سو‘ اسے کم از کم منی لانڈرنگ تو کہا جا سکتا ہے۔ وہ دوست کہنے لگے: ہاں یہ بات درست ہے۔ میں نے کہا: دوسری بات اب یہ ہے کہ یہ فلیٹ خریدنے کے لیے رقم جب میاں صاحب کے بچوں کے نام سے صرف ہوئی تو بچے نابالغ اور چھوٹے تھے سو‘ وہ یہ رقم خود تو کما نہیں سکتے تھے۔ انہیں کہیں سے ملی یا دی گئی۔ کس نے دی؟ اس رقم کا اصل مالک کون تھا؟ ظاہر ہے والد نے ہی دی ہو گی۔ بچے یا تو اس رقم کو کمانے کا ثبوت دیں یا یہ تسلیم کیا جائے کہ رقم والد بزرگوار نے دی تھی۔ اب والد صاحب بتائیں کہ ان فلیٹس کی رقم کہاں سے کمائی؟ اگر کاروبار سے کمائی تو اس پر اُس سال ٹیکس کتنا دیا؟ اور اگر کاروبار سے نہیں کمائی اور پاکستان میں ان کے کاروبار سے اُس سال اتنا نفع ہی نہیں ہوا تو پھر یہ رقم کہاں سے آئی۔ کسی کک بیک میں ملی یا کمیشن لیا؟ میرا سوال تو بڑا سادہ ہے۔ وہ دوست ہنسنے لگے اور کہنے لگے: یہ سوال اتنا سادہ ہرگز نہیں جتنا آپ بتا رہے ہیں۔
صورتحال یوں ہے کہ میاں نواز شریف اقامے پر اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا شور اتنے تسلسل سے مچا رہے ہیں کہ اصل معاملہ اس میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ اور اصل معاملہ ہے لندن میں ایون فیلڈ والے فلیٹس‘ اس کی خریداری کی رسیدیں کہاں ہیں؟ خریدنے کے لیے بھجوائی جانے والی رقم کی بینک ٹرانزیکشن کہاں ہے؟ اگر دونوں چیزیں نہیں ہیں تو یہ بات طے ہے کہ رقم ہنڈی کے ذریعے گئی ہے یا باہر ہی باہر سے کمیشن وغیرہ کی مد میں ڈائریکٹ لندن ادا کی گئی ہے۔ اس رقم کے ذرائع آمدن کیا تھے؟ اگر بتانے کے قابل نہیں تو ناجائز ذرائع کی آمدنی ہے۔ سارا سوال یہ ہے جس پر میاں صاحب آنے کا نام نہیں لے رہے۔
اگر میاں صاحب کے ساتھ انصاف ہو تو انہیں سزا ہوتی ہے‘ ہاں! اگر ڈیل ہو جائے تو اور بات ہے؛ تاہم انصاف کا مفہوم ہمارے ہاں بالکل مختلف ہے۔ اگر میں بری ہو جائوں تو یہ انصاف ہے وگرنہ انتقام ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں آر اوز کے ذریعے الیکشن ہتھیا لوں تو جائز ہے، اگر چھانگا مانگا(باقی صفحہ 13پر)
میں منڈی لگائوں تو ٹھیک ہے، عطا مانیکا کو خرید لوں تو درست ہے، قاف لیگ کا فارورڈ بلاک بنوا کر پنجاب میں حکومت بنا لوں تو عین جمہوریت ہے۔ باقی کوئی اور کرے تو ووٹ کی عزت و حرمت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سو‘ آج کل ووٹ کو رسوا کرنے والے خود ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اسے مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔ مکافات عمل پر ایک خوبصورت شعر
یہ مکافاتِ عمل ہے‘ ابھی کچھ عرصے میں
تجھ کو بھی ہو گی محبت کسی بدذات کے ساتھ
جلد یا بدیر‘ اس ملک میں ہر کسی کو کسی نہ کسی بدذات سے پالا پڑتا ہے لیکن اسے زیادتی نہ کہا جائے بلکہ مکافاتِ عمل کہا جائے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاید میں نے یہی شعر تھوڑے دن پہلے بھی اپنے کالم میں لکھا ہے لیکن دوبارہ لکھنے میں کیا ہرج ہے؟ آخر ہم آزمائے ہوئے بے ایمانوں کو بھی تو بار بار آزما ہی رہے ہیں۔ اگر شعر دہرایا ہے تو کیا قیامت آ گئی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved