تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     05-04-2018

سینسر شپ

تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی گئی جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ ''یہ ایوان وفاقی حکومت کو اس امر کی سفارش کرتا ہے کہ پیمرا کو پابند کیا جائے وہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے و الے ڈراموں میں 'طلاق‘ کے لفظ پر پابندی عائد کرے ، کیونکہ لفظ 'طلاق ‘کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں برے اثرات مرتب ہورہے ہیں‘‘۔میرا نہیں خیال کہ طلاق کے لفظ پر اس طرح سے پابندی عائد کی جا سکتی ہے کیونکہ طلاق کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی آیا ہے ‘ البتہ کتاب و سنت میں طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور انتہائی مجبوری کی حالت میں یہ راستہ کھلا رکھا گیا ہے تاہم ساتھ ہی اس بارے میں ضروری احکامات بھی واضح کر دئیے گئے ہیں چنانچہ پیمراشاید اس پر مکمل پابندی تو عائد نہ کر سکے لیکن قرارداد میں جو اصل مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا وہ یہ تھا کہ مختلف چینلز پر ٹی وی ڈراموں میں جس طرح کی کہانیاں اور سکرپٹ استعمال کئے جا رہے ہیں‘ جس طرح میاں بیوی کے بندھن میں دراڑیں ڈالی جا رہی ہے اور جس طرح معاشرے میں خاندانی کلچر کو تباہ کیا جا رہا ہے اس حوالے سے بھی قرارداد میں ذکر کیا جاتا۔ تاہم ٹی وی چینلز تو پھر کسی نہ کسی سینسر شپ کے عمل سے گزرتے ہیں‘ جو اصل اور خوفناک کھیل سوشل میڈیا بالخصوص یوٹیوب پر کھیلا جا رہا ہے اس کی نہ کسی کو فکر ہے نہ اندازہ۔ یو ٹیوب کا استعمال جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے یہ آنے والے چند برسوں میں ٹی وی چینلز سے زیادہ دیکھا جانے والا میڈیم بن جائے گا۔ اس کی افادیت او ر اثرات بھی ٹی وی چینلز سے زیادہ اور دیر پا ہیں۔ ٹی وی چینل پر کوئی ایک ڈرامہ یا پروگرام چلتا ہے تو
اسے مس کرنے والا لامحالہ یوٹیوب پر ہی جاتا ہے اور وہاں وہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار دیکھ سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے جب سے یوٹیوب نے مانیٹائزیشن یعنی یوٹیوب سے پیسے کمانے کا راستہ کھولا ہے تب سے زیادہ سے زیادہ سبسکرائبر اور ویوز لینے کے لئے اس پر ایسا مواد ڈالا جا رہا ہے جو فیملی کے ساتھ تو درکنار انسان اکیلا دیکھ کر بھی ہوش کھو سکتا ہے۔ ہم پاکستانی بھی بڑی عجیب قوم ہیں۔ ٹیکنالوجی ہم نے بنائی نہیں‘ لیکن اگر انگریز نے بنا کر دے ہی دی ہے تو اس کا سیدھا استعمال بھی کرنے کو تیار نہیں ۔ اوپر سے مانیٹر کرنے والے ہمارے لاعلم محکموں کی خاموشی مسئلے کی سنگینی کو بڑھا رہی ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ اگر آپ نے کوئی موبائل ایپ ڈائون لوڈ کرنی ہے تو اس کے ساتھ ایسی کئی جنسی مواد پر مبنی ایپس بھی دکھائی دینے لگیں گی جن کا اس ایپ سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح یو ٹیوب پر خودساختہ ویڈیوز بنا کر سیاستدانوں اور اہم فلمی کاروباری اور کھیل سے متعلقہ شخصیات کی ذاتی زندگی کے حوالے سے انتہائی گھٹیا کہانیاں گھڑی جاتی ہیں۔ یوٹیوب ویڈیو کا ٹائٹل ایسا رکھا جاتا ہے جسے دیکھ کر فوراً صارف دیکھنے پر مجبور ہو جائے۔ جبکہ اندر ویڈیو میں اس چیز کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا لیکن صارف کو انگیج کرنے کے لئے تمام منفی اقدامات کئے جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان میں یوٹیوب توہین رسالت پر مبنی مواد کی وجہ سے طویل عرصہ تک بند رہی تھی۔ موجودہ حکومت نے اپنی شرائط پر یوٹیوب اور گوگل کے ساتھ مذاکرات کئے اور اس کے بعد پاکستان میں اس کو دو ہزارہ تیرہ میں کھول دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یوٹیوب نے پاکستان کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ پاکستان کے اندر سے یوٹیوب پر دیکھے جانے والے مواد کو فلٹر یا کنٹرول بھی کر سکتا ہے اور یوٹیوب پر کسی ممنوعہ چینل یا ویڈیو کو بلاک کیا جا سکتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا جا رہا اور یہ کیسے ہو گا۔ اس میں کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ واچ فائونڈیشن نامی ایک این جی او اسی طرح کا کام از خود بھی کر رہی ہے ۔ یہ انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنو گرافی کے حوالے سے امیج اور ویڈیوز کو بلاک کرواتی ہے اور غیر اخلاقی اور ممنوعہ مواد کی نشاندہی کرتی ہے۔سائبر ونگ میں حکومتی سطح پر الگ سے ایسا ہی ایک شعبہ قائم کیا جا سکتا ہے جو ایسے مواد کی نگرانی کرے۔ ویسے جس طرح کی ہم
پاکستانیوں کی روش ہے مجھے یقین ہے کہ ہم یوٹیوب ایک دن دوبارہ بند کرا بیٹھیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں چونکہ برائی کی ڈیمانڈ زیادہ ہے اس لئے اس کو بیچو اور پیسے بنائو۔ میں نے فیس بک پر ایک غیرملکی ویڈیو دیکھی جسے ساٹھ لاکھ لوگ دیکھ چکے تھے۔ چھ منٹ کی اس ویڈیو میں صرف یہ دکھایا گیا تھا کہ کس طرح آپ مختلف سبزیوں‘ پھلوں‘ بیکری اور دیگر اشیائے خوردنی کو فریج میں ایک سے زیادہ دنوں تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کے یوٹیوب چینلز کی ویڈیوز دیکھ لیں آپ کو اس میں شرانگیزی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔فلاں سیاستدان کی بیٹی کس کے ساتھ بھاگی‘ فلاں مولوی کی تیسری بیوی کے بارے میں فلاں انکشافات‘غرض ایسی ایسی شعبدہ بازیاں کی جا رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اگر کسی نے مثبت قسم کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی ہو گی تو انتہائی بے دلی سے ‘ اسی لئے اسے اسی حساب سے کم دیکھا گیا ہو گا۔ زیادہ یوٹیوب چینلز کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی ویڈیو مل جائے جو وائرل ہو جائے مثلاً نواز شریف صاحب کو جوتا پڑنے کی ویڈیو کئی یوٹیوب چینلز نے مختلف کیپشنز کے ساتھ لگائی جس پر انہیں چند دنوں میں بیس بیس لاکھ لوگوں نے دیکھا۔معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ گوگل کے ایڈ ورڈ پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ویڈیوز کے گوگل ‘یوٹیوب اور اینڈرائڈ ایپس پر بھی جنسی مواد پر مبنی اشتہار چلائے جاتے ہیں جو چھ سال کے بچے سے لے کر بڑوں تک ہر عمر کے لوگوں کی نظروں سے روزانہ گزرتے ہیں اور انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کو چند ایک جنسی ضرورتوں کے علاوہ کوئی اور کام ہی نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں چیف 
جسٹس ثاقب نثار کو ایک نوٹس اس پر بھی لینا چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ بچوں اور نوجوان نسل کیلئے زیادہ نقصان دہ ہے۔ طالب علم سب سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور وہی اس کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ دوسری جانب والدین بہت زیادہ علم نہیں رکھتے یا پھر وہ خود موبائل پکڑے فیس بک پر گھنٹوں ضائع کر رہے ہیں یوں پورے کا پورا خاندان ہی اس لت کا شکار ہو چکا ہے۔ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں کی نظریں کمزور ہو رہی ہیں۔ وہ چڑ چڑے ہو رہے ہیں۔ پیدا ہوتے بچے کو موبائل فون پکڑا دیا جاتا ہے اور وہ المعروف ٹام کیٹ (ٹچ والی بلی) سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد ڈورے مون‘ موٹو پتلو‘ نہ ختم ہونے والی ویڈیو گیمز اور پھر چل سو چل۔جدید ممالک میں اگر آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کے پاس ایک عدد چھتری ضرور ہوتی ہے‘ اسی طرح وہ موبائل فون میں سب سے پہلے ضروری ایپس ڈائون لوڈ کرتے ہیں مثلاً موسم کا حال بتانے والی ایپ‘ راستہ بتانے والی ایپ وغیرہ ۔ ہمارے موبائل فون کن چیزوں سے بھرے ہیں آپ خود دیکھ لیں۔مثال کے طور پر اسوقت لاہور سمیت دیگر بڑے شہروں کا سنگین مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب آئی ٹی بورڈ اور ٹریفک پولیس نے مل کر 'راستہ‘ ایپ بنائی جس سے پورے شہر کی ٹریفک سے آگاہی ہو تی ہے۔ آپ گھر سے نکلنے سے پہلے دیکھ سکتے ہیں کہ راستے میں کہاں ٹریفک جام ہے‘ کہاں دھرنا ہے‘ کہاں کوئی ایکسیڈنٹ ہے وغیرہ ۔ اس طرح آپ متبادل راستہ اپنا کر روزانہ اپنا قیمتی وقت بچا سکتے ہیں۔اسی طرح بجلی ‘ سوئی گیس‘ ٹیلی فون وغیرہ کے بل دیکھنے کی ایپس بھی موجود ہیں جو لازمی ہمارے موبائل فونز پر موجود ہونی چاہئیں۔ یہ وہ کام ہیں جو ہم خود کر سکتے ہیں۔تاہم کچھ کام ایسے ہیں جو حکومت نے کرنے ہیں اور ان میں اہم ترین یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمزسے غیر اخلاقی مواد کا تدارک ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مطلب مادر پدر آزادی ہرگز نہیں ہے۔پاکستانیوں کو بھی سوچنا ہے کہ جس قسم کا گھٹیا مواد وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں وہی مواد ان کے گھر والے بیوی بچے بہن بھائی بھی دیکھتے ہوں گے چنانچہ وہ ایک طرح سے معاشرے کی تباہی کا آغاز اپنے گھر سے کر رہے ہوتے ہیں جس کی انہیں سب سے زیادہ فکر ہونی چاہیے اور جہاں انہیں خود سینسر شپ عائد کرنی چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved