وہ ایک سرکاری ہسپتال میں میڈیسن کے پروفیسر تھے مگر انہیں ڈاکٹر سے زیادہ ’پادری ‘بننے کا شوق تھا۔پہلے پہل میراخیال تھاکہ شایدانہوں نے خود پر یہ فریضہ عائد کر رکھا ہے کہ اپنے کسی مریض کی روحانی نجات کے لئے آخری لمحات کے اعترافات میں مدد دیں،مگر ہوا یہ کہ میرے ایک رفیقِ کار میرے بر عکس اپنی اہلیہ محترمہ کی درُشت کلامی کی تاب نہ لا سکے اور اسی بڑے سرکاری ہسپتال کے انہی پروفیسر صاحب کے وارڈ میں داخل ہو گئے۔میں ان کی عیادت کے لئے گیا تو وہاں ایک نوجوان ڈاکٹر بہت تپاک سے پیش آیا۔ اس سے پہلے کہ میں اسے اپنا کوئی شاگرد خیال کرتا اور ایک دو ’بونگیاں‘ مارتا،اس نے کہا کہ وہ اس ہسپتال کے ان نوجوان ڈاکٹروں میں سے ہے جنہوںنے ضیا دور میں فیض کی سال گرہ ایک وارڈ میں منا کر انہی پروفیسر ڈاکٹر کو تین دن کے لئے صاحب فراش کر دیا تھا۔بہر طور انہیں جونہی کوئی نوجوان ڈاکٹر اس بات سے مطلع کرتا کہ فلاں مریض کا وقتِ آخر آ گیا ہے تو ان کی باچھیں کھِل جاتیں اور بجائے کوئی ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے کے،وہ ایک مکروہ رجسٹر لے کر مریض کے آخری لمحات کے ’مشاہدات و تاثرات‘ قلم بند کرنے پہنچ جاتے کہ وہ اپنی دانست میں گمراہ مسلمانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے یہ ریسرچ فرما رہے تھے۔یہ اور بات کہ بعض لواحقین ان کی ایسی روح پرور توجہ پر چڑ کر اپنے مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں شفٹ کر دیتے تھے،جہاں وہ بھاری فیسیں دے کر صحت یاب تو ہو جاتے، مگر ان کے ایک دو لواحقین اخراجات کا بل دیکھ کر جاں بحق بھی ہو جاتے تھے۔ایک شام پروفیسر صاحب ناقابلِ رشک حالت میں فوت ہو گئے؛ حالانکہ وہ ایک پمفلٹ میں ان دشمنانِ اسلام کی فہرست شائع کر چکے تھے جن کا انتقال ایسی ہی حالت میں ہوا تھا۔ یہ سب کچھ اقتدار کے بالکل ہی آخری ایّام میں اکثر مسخروں کی حرکات و سکنات دیکھ کر یاد آ رہا ہے۔آپ نے وہ ناٹک دیکھے ہوں گے جن میں کوئی ستم ظریف ہدایت کار یہ طے کر لیتا ہے کہ اپنے اداکاروں سے دی گئی میک اپ سہولتیں آخری سین میں واپس لے لینی ہیں؛چنانچہ جب کوئی ’ذہین‘ کردار کسی نکتے پر غور کرنے کے لئے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتا ہے تو ماتھے پر تفکر کی سلوٹیں ظاہر کرنے والی جھلی اترنے لگتی ہے،کان کو کھینچا جائے تو وہ گدھے کے کان میں تبدیل ہو جاتا ہے،ناک کو کسی در پر رگڑنے کا ارادہ کیا جائے تو ناک کا اضافی حصہ ہاتھ میں آ جاتا ہے؛ اس لئے ہمارے ہاں اقتدار پر براجمان کامیڈین جو کُود پھاند پچھلے ایک ماہ سے کر رہے ہیں کوئی بد ذوق ہی ہوگاجو بے ساختہ ہنسا نہ ہو۔ کسی کرسی نشیں کی بیگم کی آخری خواہش تھی کہ خواجہ اجمیر کے دربار پر ’حاضری‘ تام جھام سے دی جائے اور دونوں دامادوں کو بھی سسر کے سیاسی عالم سکرات میں جانے سے پہلے کسی مقامِ عافیت تک پہنچا دیا جائے؛ چنانچہ ایسا کر لیا گیا۔جو لوگ خاندانی فضیلتوں پر یقین رکھتے ہیں،ان کے مطابق محترمہ سپیکر نے آخری تین چاردنوں میں اپنی ساکھ کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ اس لئے قابل ِ افسوس ہے کہ نجانے کیوں انہیںاس خاتون کا چہرہ رحمان ملک،ڈاکٹر عاصم، غلام احمد بلور اور نوید قمر سے مختلف دکھائی دیتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ کم از کم ان کا ’خاتمہ‘ ایمان پر ہو گا۔ آخری دن’ اربابِ اختیار‘ سے ممنوعہ ہتھیاروں کے لائسنس یا نوکریوں کے تقرر نامے لینے اور بے روح الوادعی تقریریں کرانے والوں نے انہیں جس طرح بے نقاب کیا، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ ماجرا ڈگری کے اصلی یا نقلی ہونے کا نہیں،ذہانت کے ہی بازارِ سیاست سے نکل جانے کا ہے۔ ہر قیمت پر منافع اندوز عیاری،کاروباری سوجھ بوجھ، جوڑ توڑ اور چیز ہے جبکہ تاریخ،سیاست اور حکمت سے اخذ کی گئی بصیرت صرف سیاسی جماعتوں کے لئے نہیں،قوموں کے لئے بھی سرمایہ بن جاتی ہے۔میرے بس میں ہو تو میں سیاست دانوں کی نئی کھیپ کو محمد علی جناح کے ساتھ میاں افتخار الدین اور حسین شہید سہروردی کی تقاریر پڑھائوں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کی کال کوٹھڑی میں لکھی’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ اور سپریم کورٹ میں تین دن تک دیا گیا بیان پڑھوائوں۔ تاہم اچھی بری خبریں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان دنوں بڑی پارٹیاں اپنے منشور پیش کر رہی ہیں اور عوام ان پمفلٹوں اور کتابچوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہے،کیونکہ ان کے لئے میاں صاحبان اور ان کے دس بارہ پر جوش رفقا کا کردار یا زرداری صاحب اور ان کی طرزِ سیاست اور طریقِ منافع اندوزی کے قائل یا گھائل افراد کا اعمال نامہ ہی وہ آئینہ ہے جس میں وہ ان کے ہر طرح کے سیاسی منشور اور نصب العین سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔میرے نزدیک اچھی خبر یہ ہے کہ عمران خان نے راجن پور جا کر اپنی پرانی ساتھی ڈاکٹر شیریں مزاری کو منا لیا ہے۔ کسی بھی لیڈر کو مقبولیت کے زعم میں اپنے مخلص ساتھیوں کی قدر شناسی کرنی چاہیے‘ اس سے ان پارٹیوں کے مداحوں اور مخالفوں کی یکساں تربیت ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پرانے شکاریوں نے آئین کے اندر دفعہ 62 اور 63 کے تحت ایک ٹوکہ لگا کے الیکشن کمیشن کو دے دیا ہے۔دوسری طرف محب وطن صحافیوں اور وکیلوں یا تقدس مآبوں کی اعانت سے پاکستان مسلم لیگ ن کو وہ نظریاتی ٹب فراہم کر دیا گیا ہے جس کے اندر غوطے دینے سے پیپلز پارٹی کے سبھی مشکوک کردار پاک صاف ہو سکتے ہیں۔ایسے میں ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کا امیدوار حیدر عباس گردیزی جیسا پڑھا لکھا شخص بن جاتا ہے تو ہم مسعود اشعر ایسے سینئر سادہ لوح بھی نہیں کہ قسور گردیزی جیسے باوفا سیاسی کارکن کے اس داماد کی حمایت کردیں،کیونکہ میں گجر کھڈہ کی اس عبرت ناک سڑک کا محرم راز ہوں جس پرالطاف کھوکھر جیسے پڑھے لکھے کا گھر ہے جو بھٹو اور بے نظیر کا معتمد ساتھی رہا ہے اور اس کے سامنے پیپلز پارٹی کے عزیز از جاں نو دولتیہ کلچر کی نشانی کے کلید برداروں کا گھر ہے جن کے وسائل کے بھروسے پر ایک وقت کی یہ عوامی پارٹی اس مرتبہ الیکشن لڑنے کا ارداہ رکھتی ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved