اِس دنیا کا سب سے بڑا تضاد یا المیہ یہ ہے کہ انسان جس چیز کے بے وقعت ہونے کے بارے میں سب کچھ جانتا اور جانے ہوئے پر یقین رکھتا ہے اُسی چیز کو باقی دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ کون ہے جو اِس حقیقت سے انکار کرے گا کہ دولت سب کچھ نہیں؟ کسی سے بھی پوچھ کر دیکھ لیجیے کہ کیا دولت سے سبھی کچھ خریدا جاسکتا ہے ... جواب نفی میں ملے گا۔ المیہ یہ ہے کہ دولت کی خامی یا کمزوری سے اچھی طرح واقف ہونے کا اعتراف کرنے والے بھی دولت کے لالچ سے بچ نہیں پاتے، اس جال سے نکل نہیں پاتے۔
ہم دولت کے بارے میں بہت کچھ پڑھ چکے ہیں۔ دین بھی دولت کی حقیقت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے اور اِس حوالے سے ہدایات بھی دیتا ہے تاکہ ہم دولت کے گڑھے میں گِر کر خود کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ دنیا بھر کے دانشور ہمیں دولت کے حوالے سے حکمت کے ایسے موتیوں سے نواز چکے ہیں کہ ہر موتی کی چمک دمک لاجواب ہے۔ ماحول عملی سطح پر ہمیں دولت کی حقیقت کے بارے میں بہت کچھ بتا رہا ہوتا ہے۔
ہر انسان کے لیے زندگی مجموعی طور پر دو پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ ایک پہلو معاشی ہے اور دوسرا غیر معاشی۔ خرابیاں صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب اِن دونوں پہلوؤں کو ایک دوسرے میں خلط ملط کردیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ایسا انسان کبھی حقیقی مسرت سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جو زندگی کے معاشی اور غیر معاشی پہلوؤں کو الگ الگ رکھنے کی بھرپور صلاحیت نہ رکھتا ہو۔
زندگی ہم سے قدم قدم پر دولت کے بارے میں معقول اور متوازن طرزِ فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ جو لوگ دولت کے بارے میں واضح نقطۂ نظر یا سوچ نہیں رکھتے اُن کے لیے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ دولت کی دنیا طلسمات کی دنیا ہے۔ ع
مڑکے دیکھو گے تو ہو جاؤ گے تم پتّھر کے
دولت کے بارے میں ہمارا سوچنے کا انداز ہی طے کرتا ہے کہ ہم اِسے کس طور حاصل کریں گے، کس طرح خرچ کریں گے اور زندگی کو اِس کی مدد سے کیسی شکل دینا چاہیں گے۔ بہت کم لوگ ہیں جو دولت کے حصول اور خرچ کے بارے میں کماحقہ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دولت کے بارے میں ہمارا رویّہ بالعموم غیر متوازن رہتا ہے۔ اگر بہت محنت کرنے پر بھی ضرورت کے مطابق دولت نہ ملے تو ہم بے حواس اور چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔ دوسری طرف اگر کچھ کیے بغیر یا زیادہ محنت بروئے کار لائے بغیر ہی ہمیں بہت دولت مل جائے تو ہمارے فکر و عمل میں ٹیڑھ ہی پیدا ہوتی ہے۔ کچھ خاص محنت کے بغیر ملنے والی دولت کے حوالے سے ہم قدرے لاپروا ہوتے ہیں اور اُسے ڈھنگ سے خرچ کرنے کا ذہن نہیں بنا پاتے۔
دولت اچھی خاصی میسر ہو تب اور ضرورت سے بہت کم حاصل ہو پائی ہو تب یعنی دونوں ہی صورتوں میں ہمیں سوچ متوازن رکھنا ہوتی ہے۔ فکر و نظر کا توازن ہی دولت کے حوالے سے ہمیں ڈھیلی ڈھالی طرزِ عمل اختیار کرنے سے روکتا ہے۔
زندگی کے ہر معاملے کو دولت کی عینک سے دیکھنا انتہائی خطرناک رویّہ ہے۔ ہمارے بہت سے معاملات کا دولت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دولت سے تعلق نہ ہونے پر بھی اگر کسی معاملے کو اُسی طور نمٹایا جائے جس طور دولت سے متعلق اُمور کو نمٹایا جاتا ہے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ دولت کے دائرۂ کار اور دائرۂ اختیار کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی یا کوتاہ نظری بہت سے معاملات کو الجھا دیتی ہے۔ دولت سے جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہی کچھ کیا جانا چاہیے۔ جن معاملات میں دولت کا عمل دخل یا افادیت کم ہو اُن میں دولت کو غیر ضروری طور پر بروئے کار لانے سے گریز کرنا چاہیے۔ زندگی کا ہر معاملہ دولت پر منحصر نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ہے جو دولت سے حاصل کیا جاسکتا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ہے جو دولت سے کسی بھی طور حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
دولت ایک بڑی زمینی حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری زندگی میں بہت کچھ ہے جو دولت کی بدولت آتا یا جاتا ہے۔ دولت کی کمی بہت سے معاملات کو اِتنا بگاڑ دیتی ہے کہ پھر اُنہیں درست کرنا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔ بہت سی اشیاء و خدمات ہم دولت کی مدد سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ دولت خرچ کرتے وقت ''قدر‘‘ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے یعنی جو کچھ بھی ہم خرچ کریں اُس کا بہترین بدل یا نعم البدل ہمیں ملنا چاہیے۔ دولت توجہ سے خرچ نہ کی جائے تو مطلوب نتائج پیدا نہیں کرتی۔ اور اگر غیر معمولی اور غیر ضروری احتیاط کے ساتھ خرچ کی جائے تب بھی مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
زندگی کے ہر معاملے کو دولت سے جوڑنا ہمارے تمام معاملات کو غیر متوازن اور غیر مستحکم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ دولت کا تعلق ایک خاص خاص حد تک تعلقات سے ہے مگر بہت سے تعلقات دولت سے یکسر بے نیاز ہوتے ہیں۔ محبت، خلوص، دوستی اور دیگر بہت سے تعلقات اور معاملات کا دولت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ہم ان معاملات میں دولت کو غیر ضروری طور پر کوئی کردار ادا کرنے دیں تو بسا اوقات صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ زندگی کا معیار بلند کرنے اور سکون و استحکام برقرار رکھنے کے لیے اس نکتے کو سمجھنا لازم ہے کہ دولت محض ذریعہ ہے، مقصد نہیں۔ ہم دولت کی مدد سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں مگر دولت بجائے خود کچھ بھی نہیں۔ نہ اُسے جمع کرنے کا کوئی فائدہ ہے اور نہ اُسے لاپروائی سے خرچ کر ڈالنے میں حکمت یا دانش پوشیدہ ہے۔
متوازن زندگی کے لیے دولت کے بارے میں واضح نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں اکثریت اُن کی ملے گی جو دولت کے بارے میں عموماً بیزاری کا اظہار کرتے ہیں مگر در حقیقت قدم قدم پر زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ دولت کا حصول بُری بات نہیں مگر اِس کی محبت میں مبتلا ہوکر اور بہت کچھ نظر انداز کردینا بُرا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دولت کو پوری توجہ، ذہنی استحکام اور معاملہ فہمی سے خرچ کرنا ہی وہ نتائج پیدا کرتا ہے جن سے ہماری زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر دولت لُٹانے سے دوسروں کا ہو تو ہو، دولت لُٹانے والے کا بھلا نہیں ہو پاتا۔
پاکستانی معاشرہ بھی دولت کے حوالے سے انتہائی متضاد اور متناقص رویوں کا حامل ہے۔ لوگ زندگی بھر دولت کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ اس معاملے میں حرام و حلال کا فرق بُھلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا مگر جب دولت ہاتھ میں آتی ہے تو اُسے ڈھنگ سے استعمال کرنے پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ یا تو اُسے سینے سے لگاکر رکھا جاتا ہے یعنی ضرورت سے بہت کم خرچ کیا جاتا ہے یا پھر آنکھ بند کرکے یوں خرچ کیا جاتا ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ دولت سے کماحقہ استفادے کے لیے اعتدال کی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔ اول تو دولت کا حصول قانونی اور اخلاقی طور پر درست طریقے سے یقینی بنایا جائے اور جب دولت حاصل ہوجائے تو اُسے اپنی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو پھر دولت، خواہ کتنی ہو، ہمیں کچھ نہیں دے سکتی۔