جناب ہارون الرشید نے اس کیفیت کو طوائف الملوکی کا نام دیا ہے‘ تو یہ بے سبب نہیں۔ اس سے کسے اختلاف ہو گا کہ ایک سہمی ہوئی ریاست کوئی ریاست نہیں ہوتی۔ تازہ حوالہ علامہ خادم حسین رضوی کا نیا دھرنا ہے۔ راولپنڈی؍اسلام آباد کا فیض آباد چوک نہیں‘ اب لاہور میں داتا دربار کے پہلو میں بھاٹی گیٹ چوک اس کا مرکز ہے‘ اندرونِ شہر کا گنجان ترین علاقہ جو رہائشی بھی ہے اور تجارتی بھی۔ فیض آباد چوک کی طرح اس کی بھی ''سٹرٹیجک‘‘ اہمیت ہے۔ یہاں لاکھوں لوگوں کو چند سو جانبازوں کے ذریعے عذاب سے دوچار کیا جا سکتا ہے۔ جمعرات کو جب یہ سطور قلمبند کی جا رہی تھیں‘ اس دھرنے کا چوتھا روز تھا اور اس دوران خلق خدا کی مشکلات کے سوا کوئی ''بڑی خبر‘‘ نہ تھی‘ اور پھر ''بڑی خبر‘‘ بن گئی۔ ڈنڈوں سوٹوں سے مسلح جانبازوں کا ایک پولیس اہلکار پر حملہ‘ جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ کیا یہ مزید ''بڑی خبروں‘‘ کا ابتدائیہ ہے؟ دھرنا کے منصوبہ ساز آخر کب تک ''صبر‘‘ (اور انتظار) کر سکتے ہیں جیسے کہ ہارون الرشید نے یاد دلایا‘ فیض آباد میں بھی تین ہفتوں کے دھرنے کے آخر میں یہی ہوا تھا‘ مخالفین کے گھروں پر جانبازوں کے حملے...اور ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہل کاروں کا اغوائ‘ پھر ٹارچر کیمپ میں ان پر جو بیتی‘ اس کی کہانی بھی میڈیا میں آ چکی ۔ اوروہ بات بھی جو سینئر کالم نگار نے لکھی‘ بار بار علامہ خادم حسین رضوی (اور ان کے ساتھیوں) نے ثابت کیا کہ قانون کی رتی برابر انہیں پروا نہیں۔ ججوں اور جنرلوں کو انہوں نے گالیاں دیں‘ اخبار نویسوں کا تمسخر اڑایا اور حکومت کو بے معنی بنانے کی کوشش کی...اور اس کھیل کا ڈراپ سین جس ''معاہدے‘‘ پر ہوا‘ اس میں ریاست ناک رگڑتی نظر آ ئی‘ یہ کھلے اعترافِ شکست کے سوا کیا تھا؟
فیض آباد دھرنے کا آغاز ہوا تو جنابِ رضوی پر کوئی مقدمہ نہ تھا‘ اور اب تو وہ باقاعدہ ''اشتہاری‘‘ ہیں‘ انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کے لیے ٹیم تشکیل دی جا چکی‘ اس کے باوجود ''ریاست میں ہمت ہے تو انہیں ہاتھ لگا کر دکھائے‘‘۔
ریاست کی یہ بے بسی صرف علامہ رضوی (اور ان کے جانبازوں) کے حوالے سے نہیں۔ 2014ء کے دھرنے میں پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ اور سینئر پولیس افسر عصمت اللہ جونیجو پرتشدد کے الزام میں خان اور اس کے سیاسی کزن (کینیڈا والے شیخ الاسلام) کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہوا۔ بار بار طلبی پر بھی وہ پیش نہ ہوئے تو عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا۔ خان تو بالآخر پیش ہو گئے لیکن شیخ الاسلام آج بھی اشتہاری ہیں۔ ابھی اڑھائی تین ماہ قبل وہ پھر لاہور میں تھے‘ وہ نیا طوفان اٹھانے آئے تھے‘ نیا پولیٹیکل ایڈونچر... اور ناکامی پر اپنے وطنِ ثانی کو لوٹ گئے۔
ایک اور'' اشتہاری‘‘ پاکستان کا (سابق) کمانڈو صدر ہے۔ وردی میں تھا تو صرف ایک بار پارلیمنٹ کے رُوبرو آنے کی ہمت کی اور منتخب نمائندوں کو مکے دکھاتے ہوئے رخصت ہوا۔ 12 مئی 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی کراچی آمد پر‘ 50 انسان سڑکوں پر مار دیئے گئے‘ درجنوں زخمی ہوئے اور اُس شام اسلام آباد کے جلسے میںفاتحانہ انداز میں بازو لہراتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا ''اسے کہتے ہیں عوامی طاقت کا مظاہرہ‘‘...(قارئین یاد کریں‘ تب اس کے دائیں بائیں فرزند لال حویلی کے علاوہ اور کون کون لوگ تھے؟) اس کے خلاف سنگین غداری (آرٹیکل 6) کے علاوہ ججوں کی نظربندی اور بے نظیر قتل کے مقدمات ہیں۔ اشتہاری ہے اور میڈیا انٹرویوز میں بڑے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ ان سنگین مقدمات کے باوجود وہ بیرونِ ملک چلا آیا تو اس میں کسی کا اہم کردار تھا۔
طوائف الملوکی... وطن عزیز کی صورتحال پر یہی الفاظ گزشتہ روز جناب سید منور حسن کے اعزاز میں جاوید نواز کے ظہرانے میں ایک اور حوالے سے کہے گئے۔ قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں منور حسن بیس‘ بائیس برس جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے۔ پھر امیر منتخب ہوئے۔ منصورہ میں امیر جماعت اور سیکرٹری جنرل کے لیے الگ گھر ہیں جو انہیں جماعت کی طرف سے مہیا کئے جاتے ہیں۔ دیگر سٹاف کے لیے ''دارا لاقامہ‘‘ کے نام سے فلیٹس ہیں۔ مہمانوں کے لیے ''دارالضیافتہ‘‘ الگ ہے۔ قاضی صاحب نے جماعت کی امارت (اور اس سے پہلے میاں طفیل محمد صاحب کے دور میں جنرل سیکرٹری شپ) کا سارا عرصہ دارالاقامہ کے ایک فلیٹ میں بسر کیا۔ منور صاحب نے چھبیس ستائیس سال مہمان خانے میں گزار دیئے اور جماعتی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد کراچی لوٹ گئے۔ ان دنوں صحت ٹھیک نہیں رہتی پھر بھی گھر سے ادارہ معارف اسلامی چلے جاتے ہیں‘ کسی اجلاس میں شرکت ضروری ہو تو لاہور بھی چلے آتے ہیں۔ اس ہفتے آئے تو جاوید نواز نے چند احباب کو ان کی صحبت سے فیضیاب کرنے کا اہتمام کیا۔ کچھ گفتگو کراچی کی ادلتی بدلتی سیاست (اور پس پردہ ہاتھوں) کے حوالے سے ہوئی‘ ایک رائے یہ تھی کہ سطح پر جو کچھ نظر آ رہا ہے‘ مصنوعی ہے۔ حقیقت عام انتخابات میں سامنے آئے گی۔ یہاں سوال یہ تھا کہ کیا انتخابات وقت پر ہو جائیں گے؟ اور یہ بھی اس سے قبل پولیٹیکل انجینئرنگ اور مینجمنٹ کس حد تک موثر ہو گی؟ جس کا کھلا اظہار ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے‘ بلوچستان میں اور پھر سینٹ کے انتخابات میں ہوا؟
جناب جاوید ہاشمی کا خیال ہے کہ الیکشن ملتوی کرانے والی قوتیں عوامی دبائو پر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ فرزندِ لال حویلی ان عناصر میں سے ہے جو انتخابات کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ حسبِ عادت اور حسبِ معمول جو دور کی کوڑی لایا‘ اس کے مطابق آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت حکومت اسمبلی کی مدت ایک سال تک بڑھا سکتی ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات بہر صورت مقررہ وقت پر ہوں گے۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس کے ایک اخباری انٹرویو اور جناب آرمی چیف کی آف دی ریکارڈ میڈیا بریفنگ کے حوالے سے یہ ''امکان‘‘ بھی سامنے آیا کہ حلقہ بندیوں کے مسائل کی وجہ سے انتخابات چند ہفتوں کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں لیکن پھر دونوں کی طرف سے یہ وضاحت بھی آ گئی کہ انتخابات کا انعقاد اور اس کے شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اور اسی کا اختیار ہے۔کسی اور کا اس سے کیا لینا دینا؟
عام انتخابات کے حوالے سے آئین میں رتی برابر ابہام نہیں۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مدت مئی کے اواخر میں مکمل ہو جائے گی۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبوں میں نگران حکومتوں کی موجودگی میں (جس کی تشکیل کا طریقہ کار بھی آئین میں بیان کر دیا گیا ) 90 دن کے اندر آزادانہ و منصفانہ انتخابات لازمی آئینی تقاضا ہے۔ اس سب کچھ باوجود خود دانشوروں (اور لمحے لمحے کی خبر رکھنے والے دانشوروں) میں بھی اس حوالے سے بے یقینی کیوں ؟ منور حسن صاحب کے ظہرانے میں بے یقینی کی اسی کیفیت کو طوائف الملوکی قرار دیا جا رہا تھا۔ جب آئین کی کتاب میں سب کچھ واضح ہو، کس کے کیا حقوق اور کیا فرائض ہیں ؟ ریاست کی مر کزی (اصل) اتھارٹی کس کے پاس ہے ؟ کون کس کے ماتحت اور کس کو جواب دہ ہے ؟ کتابِ آئین میں تو سب کچھ واضح ہو، (روزِ روشن کی طرح عیاں ) لیکن حقائق کی دنیا میں اندھیرے کی کیفیت ہو، سائے سے لہراتے نظر آئیں، قوموں اور ملکوں کیلئے بے یقینی کی یہی کیفیت اصل خطرہ ہوتی ہے۔ شامی صاحب کو اقبال یاد آئے ؎
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
لیکن پلڈاٹ والے احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ کچھ بھی خفیہ نہیں، سب کچھ نظر آ رہا ہے۔ انہیں بھی اقبال ہی کی یاد آتی ہے‘ وہی... زمانہ آیا ہے بے حجابی کا...
پس نوشت: بے یقینی کی اس فضا میں صرف ایک بات یقین سے کہی جا رہی ہے‘ بیرسٹر اعتزاز احسن نے ابھی کل ہی کہا تھا ‘واجد ضیا (پاناما کیس میں استغاثہ کا بڑا گواہ) بھی نوازشریف کو نہیں بچا سکتا۔ (وکیل صفائی خواجہ حارث کے دلائل جتنے بھی مضبوط ہوں) سزا ہو کے رہے گی۔