تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-04-2018

شہد کی مکھیوں کی عدالت

مارشل عدالت، آئینی عدالت ، عوامی عدالت ، سٹریٹ جسٹس اور شہد کی مکھیوں کی عدالت۔
ان کے علاوہ ایل ایف او کورٹ ، کینگرو کورٹس۔ یہ سب سیاسی استعارے ہیں ماسوائے ایک کے۔ اور وہ ہے 1973ء کا آئینی عدالتی نظام۔ شہید وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشل مرڈر پر ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ تین لوگوں کے درمیان ہوا تھا۔ شہید بی بی، سابق صدر اور میں۔ شہید بی بی اس بات پر بہت رنجیدہ تھیں کہ اُن کی دو حکو متوں کے عرصے میں ماورائے آئین دورِ آمریت کی غلط عدالتی نظیر کو چیلنج تک نہ کیا جا سکا۔ وہ اسے کریمینل غفلت کہا کرتی تھیں۔ جب اس فیصلے پر عمل درآمد کا وقت آیا تو تاریخ نے قرعہ فال میرے نام نکال دیا۔ میرا دورِ وزارتِ قانون تقریباً1سال کچھ ماہ بنتا ہے۔ اسی دوران جب حکومت کے کئی سال باقی تھے‘ میں نے وفاقی وزارتِ قانون و انصاف سے استعفیٰ دے دیا۔ شہید بھٹو کے مقدمے کے از سرِ نو جائزے کے لیے آئین کے آرٹیکل نمبر -A 186کے مطابق اپنے ہاتھوں سے ریفرنس تیار کیا۔ پھر صدارتی ریفرنس کی شکل میں تمام نا انصافیوں کو سپریم کورٹ کے سامنے دوبارہ کھول کر رکھ دیا۔ 
بھٹو ریفرنس کا ریکارڈ گواہ ہے کہ بینچ نے شہید وزیرِ اعظم کی مظلومیت اور غلط فیصلے کے بارے میں برملا ریمارکس دئیے۔ اس مقدمے اور اسی میں سے جنم لینے والے میرے بر خلاف مقدمے میں کامریڈ الیاس خان ، شکیل پاشا اور ساجد منور قریشی بھی تاریخی کردار ہیں‘ جو ہر دو مقدموں میں ہر تاریخِ سماعت پر سب سے پہلے سپریم کورٹ پہنچ جاتے۔ تینوں لاہوریے وکیل ہیں ۔ اس لیے ظاہر ہے کہ وہ رات بھر کے سفر کے بعد صبح دم درِ انصاف پر قدم رکھتے ۔ یہ کامریڈ جام ساقی مرحوم کی طرح دھن کے پکے‘ جذبوں کے سچے اور لگن کے بندے ثابت ہوئے۔ کسی زمانے میں بڑے لوگوں کی قدر کم از کم مرنے کے بعد ہو جاتی تھی ۔ آج کل سیاست سے معاشرت اور عبادت تک رنگ برنگی ٹوپیاں‘ علیحدہ علیحدہ چشمے اور اپنے اپنے نظریاتی کارپوریٹ آئوٹ لیٹ بن گئے ہیں ۔ اس لیے بڑے انسانوں کی نا قدری سکہ رائج الوقت ٹھہری ۔ اپنے اپنے برانڈ کے ایمبیسیڈر۔ قبلہ جی ، قبلہ کے ابا جی، اُن کے دادا جی ، جانشین جی ، صاحبزادہ بلکہ شہزادۂ عالم تک۔ سارا علم ، تمام ہنر ، نور ، بصیرت اور شفا و جزا اپنے اپنے برانڈ سے ہی کلیم کرتے ہیں ۔ اچھے وقتوں میں اچھے شاعر کی ناقدری ہوئی تو وہ بول اُٹھا تھا:
مرنے والا عظیم شاعر تھا 
قوم اب شعر پڑھ کے روتی ہے 
مسخرہ پن ہے ان ادیبوں کی 
قدر مرنے کے بعد ہوتی ہے 
شہید بھٹو کے عدالتی قتل کے لیے اتحادِ ثلاثہ بنایا گیا تھا۔ آمر، انصاف اور سمگلر جس کے تین مرکزی کردار تھے ۔ ایک نے سونے کی کشتیوں کی روانی کے عوض‘ فرضی گواہ اور جھوٹی شہادتیں سپلائی کیں‘ جن پر تقدیس کی چھاپ لگانے کے لیے مشہور سیاسی ''مولوی‘‘ نے مقدس کتاب پر وعدے لکھ کر سلطانی گواہوں میں تقسیم کیے۔ بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران مقدمے کے پہلے پراسیکیوٹر ایم انور بار ایٹ لا کے ایسوسی ایٹ وکیل نے ان حقائق کو بیانِ حلفی کی صورت میں سپریم کورٹ میں بھجوایا تھا۔ اس دور کی صحافتی لانگری بٹالین اسی خدمت کے عوض آج ارب پتی ہے۔ بلکہ آج کے ووٹ کی عزت بچانے کے ''باڈی گارڈ‘‘ کا موجودہ ٹھیکہ بھی اسی کے پاس ہے ۔ عدل گستری کیسے ہوا؟ اس کے لیے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب کی ''اعترافی‘‘ کتاب پڑھ لیں ۔ اس دورِ آمریت میں عدالتی مولوی نے سیشن جج کی بجائے شہید بھٹو کی موت کا پروانہ اپنے دستخط سے جاری کیا ۔ ایک پروانہ نہیں بلکہ پانچ علیحدہ علیحدہ پروانے‘ جن پر لکھا ہے: فلاں تاریخ یا فلاں تاریخ‘ یا پھر فلاں تاریخوں پر وزیرِ اعظم کو پھانسی دے دی جائے ۔ بھٹو ٹرائل کے حوالے سے علاقہ مجسٹریٹ، متعلقہ سیشن جج‘ لاہور ہائیکورٹ کے دو بینچز، سپریم کورٹ میں سماعتِ اپیل اور پھر فوجداری ری ویو پٹیشن کے سارے کاغذات‘ تمام دستاویزات ، شہید بھٹو کے ہاتھ کے لکھے ہوئے بے شمار نوٹ‘ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان اور تمام ریکارڈ کئی ماہ کا عرصہ لگا کر حاصل کیا‘ جس میں دلچسپ واردات بھی ہوئی۔ کچھ یوں کہ جن کاغذات کی کاپیاں میرے لا آفس نے اَن آفیشل طریقے سے پہلے ہی نکلوا رکھی تھیں‘ جب وہ کاغذات سرکاری طریقے سے مانگے گئے تو بتایا گیا ریکارڈ ضائع ہو چکا ہے۔ پھر جب کاپیاں متعلقہ لوگوں کے سامنے رکھی گئیں تو فرمایا: ہاں جی ریکارڈ مِل گیا ہے۔
اس اتحادِ ثلاثہ کی باقیات کئی قسم کی ہیں۔ مثال کے طور پر زُعم تقویٰ والے۔ خاندانی شرافت کے پاسدارانِ انقلاب۔ سرکار ی بجٹ پر ترقی کی منزلیں طے کرنے والے۔ ہیروئین، کلاشنکوف اور مسلح تفرقہ بازی وغیرہ۔ میں نے کچھ ریکارڈ آف دی ریکارڈ بھی نکلوا لیا۔ اسی میں آسمانی رنگ کی چند سینکڑے ٹیپ کے کیسٹس بھی شامل ہیں۔ اس کا ریکارڈ 'اختلافی نوٹ‘ کے دنوں میں دنیا ٹی وی کو بھی دیا۔ ایک کاپی آخری ملاقات میں سابق صدر کے حوالے کی۔ میرا دفتری ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس ریکارڈ کی خبر مرحوم جہانگیر بدر کو بذریعہ سابق صدر ملی۔ وہ میرے پاس دو مرتبہ تشریف لائے۔ ریکارڈ ملاحظہ کیا۔ خاص طور پر پورے بھٹو ٹرائل کی آڈیو ریکارڈنگ سُنی۔ کہنے لگے: مل کر کتاب لکھتے ہیں۔
جس دن بھٹو ریفرنس دائر کرنا تھا۔ مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پوری کابینہ میرے ساتھ ناشتے میں شریک ہوئی‘ جہاں میں نے اپنے ہاتھوں سے استعفیٰ لکھا۔ امین فہیم صاحب مجھے روکتے رہے۔ کچھ دوسرے چہروں پر خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ یوں لگا‘ جیسے وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ضیا کابینہ میں واپس پہنچ گئے ہیں۔ تب صدرِ مملکت کو چین کا سر کاری دورہ درپیش تھا۔ میں نے طے کر رکھا تھا کابینہ کا ''بھریا میلہ‘‘ چھوڑ کر جائوںگا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت دی اور میں بھٹو شہید کے ''اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ والے کٹہرے میں کھڑا ہو گیا۔
ابتدائی دلائل میں عرض کیا: ہو سکتا ہے میرے ساتھ بھی ویسا ہی ہو جیسا بھٹو ٹرائل میں شہید وزیرِ اعظم کے ساتھ ہوا۔ حوالے کے لیے لندن سے شائع ہونے والی طارق علی کتاب leopard and foxes (چیتا اور لومڑیاں) پیش کی‘ جس میں اس ٹرائل کے کچھ حقائق بیان ہوئے ۔ عرض کیا: یہ مرڈر کا ٹرائل نہیں تھا‘ بلکہ ٹرائل کا مرڈر تھا ۔ بار بار کہا گیا: معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائیں ۔ عرض کیا: جہاں داغِ ندامت ہو داد رسی یا تصحیح وہیں ہوتی ہے ۔ بھٹو ریفرنس کی سماعت کے پہلے ہفتے میں ہی میرا نام مظلوم کے وکیل کی صف سے نکل کر الزام علیہ کی صف میں آ گیا ۔ سابق جج کے ایک رشتے دار نے متفرق درخواست دی جس میں موقف اختیا ر کیا کہ سارا قصور بابر اعوان کا ہے ۔ مجھے بھٹو ٹرائل کے وکیل ڈی ایم اعوان یاد آ گئے ۔ اس کے ساتھ بھی ایسا سلوک ہی ہوا تھا ۔ پھر باقیات کے الزامات کی برسات ہو گئی ۔ بھٹو دور میں‘ میں طالب علم لیڈر تھا ۔ طلبا یونین کا صدر بھی رہا ۔ دو الیکشن آزاد لڑے اور آزاد جیتے ۔ وہ وہ افسانے گھڑے گئے ۔ واجب القتل کے فتوے آئے ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی شہید بھٹو کی ( If I am assassinated ) کی دوسری قسط نے جنم لیا ۔ یہ ہے محترم رئوف کلاسرا صاحب کی فیکٹ شیٹ نما شہرہِ آفاق تصنیف قتل جو نہ ہو سکا ۔ مجھے دو کے علاوہ نہ کوئی پریشان کر سکا ، نہ حیران۔ ایک مولوی مشتاق کے جنازے پر حملہ کرنے والی شہد کی مکھیاں ۔ غالباً آٹھ اہلکار میٹھے شہد کی مکھیوں نے مار ڈالے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس دہلا دینے والی ہیں ۔ دوسری یہ کہ ایک اور اپریل گزر گیا ۔ بھٹو ریفرنس جلد سماعت کرنے کی درخواست نہ آئی۔ 
ایک شعلہ اُٹھا تھا پہلو میں کوئی امید جل گئی ہو گی 
ڈر تو یہ ہے کہ دل کے جلنے سے، اُن کی تصویر جل گئی ہو گی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved