تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-04-2018

حکمراں کی ساحری

سیاسی پارٹیوں کا عزم یہ ہے کہ ایسا کبھی ہونے نہ دیا جائے۔ ملک کو نعروں میں الجھائے رکھا جائے گا۔
خواب سے محکوم گر بیدار ہوتا ہے کبھی
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری 
پاکستانی معیشت شاید دنیا کی عجیب ترین معیشت ہے۔ 65 فیصد غیر دستاویزی یا کالی۔ سرکاری کاغذات میں اس کا اندراج ہی نہیں۔ ملک میں تیس لاکھ ایسے افراد موجود ہیں، جنہیں ٹیکس ادا کرنا چاہئے مگر نہیں کرتے۔ وسیع و عریض مکانوں میں وہ رہتے ہیں۔ زیورات سے ان کی بیگمات لدی پھندی رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض گرمیوں کی تعطیلات بیرون ملک گزارتے ہیں مگر ایک دھیلا بھی حکومت کو ادا نہیں کرتے۔ ٹیکس وصول کرنے والا محکمہ یعنی ایف بی آر، ملک کے سب سے زیادہ بدعنوان محکموں میں سے ایک ہے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں مگر اصلاح کے لئے، کبھی کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ کبھی کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھایا گیا۔ بارہ پندرہ برس ہوتے ہیں، ایک سابق وزیر خزانہ نے کہا تھا: کم از کم پانچ سو ارب روپے ایف بی آر کے افسر لوٹ کھاتے ہیں۔
شیخ صاحب سے میں نے سوال کیا کہ سالانہ وہ کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا : قاعدے کے مطابق دس ہزار روپے مجھے دینے چاہئیں ، مگر میں دو ہزار روپے ادا کرتا ہوں۔ آخر کیوں ؟ ان کا نہیں یہ ٹیکس وصول کرنے والے افسر کا فیصلہ ہے۔ آٹھ ہزار روپے رشوت کے طور پر وصول کرتا ہے۔ دو ہزار روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا دیئے جاتے ہیں۔ پورا ٹیکس دینا چاہیں تو وہ ان کی زندگی عذاب کر دے گا۔
کتنے ہی واقعات معلوم ہیں کہ کہیں کسی نیک طینت افسر نے تہیہ کر لیا تو وصولی کی شرح تین گنا تک بڑھ گئی ۔ پچیس برس ہوتے ہیں، وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے فاروق گیلانی مرحوم آزاد کشمیر میں ٹیکس کے انچارج بنائے گئے۔ ایک برس میں آمدن تین گنا ہوگئی۔ امور کشمیر کے وفاقی سیکرٹری نے سید صاحب کو طلب کیا۔ کرید کرید کر وہ پوچھتے رہے کہ کون کون سے اقدامات انہوں نے کئے۔ ان کی حکمت عملی کیا تھی۔ میرے یہ مرحوم دوست ایک بہت ہی دلچسپ آدمی تھے۔ گفتگو میں ایسا ڈرامہ کبھی کرتے کہ سنسنی پھیل جاتی۔ پے در پے سوالات کے جواب میں ، ایک ہی بات وہ کہتے رہے ''میں نے کچھ بھی نہیں کیا‘‘۔ سیکرٹری صاحب آخر کار زچ ہو گئے اور بولے : پھر یہ معجزہ کیسے ہوا۔ '' اس لئے کہ میں نے رشوت لینے سے انکار کر دیا۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔ لگ بھگ اسی زمانے کا قصہ ہے کہ ''سست‘‘ کی پاک چین سرحد پہ ، یہی واقعہ پیش آیا۔ اس آدمی سے تفصیل پوچھنے کی کوشش کی گئی تو جواب یہ تھا: جب لوگ یہ بات سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی رو رعایت ہو گی اور نہ زیادتی تو بند دروازے کھل جاتے ہیں اور ہن برسنے لگتا ہے۔
بھیک کا ہاتھ پھیلائے، ساری دنیا میں ہمارے حکمران گھومتے پھرتے رہتے ہیں ۔ ٹیکس وصولی کے نظام کو موثر اور موزوں بنانے کا ارادہ کیوں نہیں کرتے ؟ اس لئے کہ فیصلہ کرنے والے خود بھی ٹیکس چور ہیں۔ جب ملک کے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی دولت کا بڑا حصہ بیرون ملک پڑا ہو۔ جب اپنے طرز عمل سے یہ پیغام وہ دیتے ہوں کہ ملک میں کسی کی دولت محفوظ نہیں تو دوسروں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ چند ماہ قبل جی ایچ کیو میں ایک مختصر سی مشق ٹیکس کے نظام پر کی گئی تھی۔ اعداد و شمار ایسے تھے کہ جنرلوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سیاسی لیڈروں اور صنعت کاروں ہی کے نہیں ، ملک کے سب سے بڑے پبلشر اور سب سے بڑے پراپرٹی ڈیلر کی زیادہ تر دولت سمندر پار رکھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ ارب ڈالر ، یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ چند برس کے دوران ، پاکستانیوں نے 6 ارب ڈالر سے زیادہ کی جائیدادیں متحدہ عرب امارات میں خریدی ہیں۔ ان میں سے بعض کے نام بھی اخبارات میں چھپ چکے ۔ کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ؟ 
یہ اندازِ فکر کا مسئلہ ہے ۔ سینکڑوں سرکاری افسر اگر دہری شہریت کے حامل ہیں۔ پاکستان کے مستقبل پر ، اگر ان کا ایمان نہیں تو کاروباری لوگوں کا طرزِ عمل مختلف کیوں ہو؟
بیرون ملک پڑے سرمائے کے باب میں وزیر اعظم کی معافی (Amnesty) سکیم ، ایک مذاق کے سوا کیا ہے ؟۔ دن رات حکمران پارٹی کے قائد چیختے رہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دی جائے۔ یہ کیسی عزت ہے، ماہرین کی آرا معلوم کرنے ، یا قومی اسمبلی یا سینیٹ میں بحث کرنے اور کابینہ میں نوک پلک درست کرنے کی بجائے ، اچانک ایک دن وزیر اعظم ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور اعلان صادر کر دیا۔ خلقِ خدا کا خون چوسنے اور ملک کی ہڈیاں نچوڑنے والوں کے سوا ، کس کو ان فیصلوں سے فائدہ پہنچے گا ؟ یہ کس کی دولت ہے ؟ اقبال ؔنے کہا تھا۔
خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب
از جفای دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
خون مزدور سے ، سرمایہ دار ہیرے ڈھالتا ہے اور جاگیردار کے جور و جفا سے دہقان کی فصل برباد ہے۔
دنیا بھر میں ، جی ہاں ساری دنیا میں اسی فیصد سے زیادہ ٹیکس براہ راست وصول کئے جاتے ہیں۔ اہلِ ثروت آمدن کا ایک حصہ سرکار کے سپرد کرتے ہیں۔ پاکستان ایک عجیب ملک ہے کہ ٹیکس کی 93 فیصد وصولی بالواسطہ ہوتی ہے۔ یعنی جو اشیاء آپ خریدتے ہیں۔ ہر بار اپنی گاڑی میں جب آپ پٹرول ڈلواتے ہیں یا چینی ، صابن کی ایک ٹکیہ یا ایک جوتا خریدتے ہیں۔ عجیب سر زمین ہے، جو اہلِ زر کی چراگاہ بن کے رہ گئی ہے۔
ایف بی آر والے من مانی پہ تلے رہتے ہیں اور کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا کہ اس کا تیس فیصد سے زیادہ سرمایہ محکمے کے پاس پڑا ہے۔ کاروبار وہ کس چیز سے کریں؟ دوسری طرف سندھ میں امسال گنے کے کاشت کاروں کو 180 روپے فی من کی بجائے ایک سو سے ایک سو تیس روپے کے حساب سے ادائیگی کی گئی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ صوبے کی 29 شوگر ملوں میں سے زیادہ تر ، جناب آصف علی زرداری کی ملکیت ہیں۔ غنڈہ گردی نہیں تو یہ اور کیا ہے؟۔
وزیر اعظم کی معافی سکیم کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کر دی ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ حکومت ملی تو کالا دھن سفید کرنے والوں کے خلاف وہ کارروائی کریں گے۔ پہلے ہی سے خوف زدہ کاروباری کیونکر اب جسارت کریں گے۔
ایف بی آر کی تشکیل نو کیوں نہیں کی جاتی۔ اس لئے کہ یہ حکمران خاندانوں اور ان کے پشت پناہوں کو ساز گار نہیں۔ نواز شریف وزیر اعظم تھے تو اپنے کاروباری دوستوں سے ، ان کے کالے دھن کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔ یہ وعدہ پورا کر دیا گیا ۔ رہا ان کا وطن تو اس کی پروا انہیں کب تھی؟۔
کیسا درد ناک منظر ہے۔ کیسی خونخوار اشرافیہ ہے ، جس نے ملک کو بھکاری بنا کر رکھ دیا اور رتی برابر اسے پروا نہیں۔ ممتاز کاروباری شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی سے ایک بار میں نے پوچھا : اس ملک کی معیشت کو کیا مرض لاحق ہے؟ انہوں نے کہا : ہم کاروباری لوگ ، لوٹ لوٹ کر اسے کھاتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو رشوت دے کر ، سرکاری افسروں کے منہ بند کر دیتے ہیں۔ پھر انہوں نے بعض سیاسی کاروباریوں کے کچھ کارنامے بیان کئے، لرزا دینے والے کارنامے ۔
سول ادارے ، افسر شاہی ، ایف بی آر ، عدلیہ اور پولیس ، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سول ادارے جب تک مضبوط نہ ہوں ملک مضبوط نہ ہو گا۔ سیاسی پارٹیوں کا عزم یہ ہے کہ ایسا کبھی ہونے نہ دیا جائے۔ ملک کو نعروں میں الجھائے رکھا جائے گا۔
خواب سے محکوم گر بیدار ہوتا ہے کبھی
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved