تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     21-03-2013

سورج سے بغاوت

کیا ہمارے معاشرے کی بنیاد بددیانتی، کرپشن اور جھوٹ پر رکھی گئی ہے یا پھر یہاں کے باسیوں میں جینزمیوٹیشن ہوچکی ہے۔ یہ جینز میوٹیشن (Genes Mutation) کیا ہے۔ آسان سے الفاظ میں یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان کے ڈی این اے کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ جسے سائنسی زبان میں Genetic alteration بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جسم میں کوئی بیماری ظاہر ہوتی ہے۔ یہ عمل تعمیری بھی ہوسکتا ہے اور تخریبی بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے اسی فیصد سے زیادہ لوگ جینز میوٹیشن کا شکار ہیں خصوصاً طبقہ اشرافیہ،اہل زر، اہل اقتدار، اربابِ اختیار، اخلاقیات۔ سچ، دیانت، اعلیٰ ظرفی، ہمارے معاشرے سے معدوم ہوتی جارہی ہے۔ اصول یہ ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ جب ارباب و اختیار اپنے فرائض سے پہلو تہی کرکے اپنے مفاد کے غلام بنتے ہیں۔ جب حکومت کی غلام گردشوں میں جھوٹ، بددیانتی اور کرپشن کا سکہ چلتا ہے تو پھر نچلا طبقہ بھی اس بیماری سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو ایک سبزی والا بھی اپنی سطح پر کرپشن کرنے سے نہیں چوکتا۔ سڑک پر جھاڑو دینے والا خاکروب بھی کام چوری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں خاکروب سے لے کر حکمران تک، ایک چھابڑی والے سے لے کر بیورو کریٹ تک، ایک کلرک سے لے کر جرنیل تک، اخلاقی اصولوں، سچ کی اقدار اور دیانت کی روایات کو قصۂ پارینہ سمجھتے ہوں‘ وہاں صاف اور شفاف انتخابات کا خواب کیسے پورا ہوسکتا ہے۔؟ جہاں استاد، علم بانٹنے والے، امتحان سے ایک رات پہلے امتحانی پرچے فروخت کرتے ہوں۔ مسجد و منبر سے امن اور آشتی کے آفاقی پیغام کی بجائے فرقہ واریت پھیلنے کی راہیں ہموار ہوتی ہوں، جہاں جعلی ادویات کی خرید و فروخت باقاعدہ ایک کاروبار ہو، کیا وہاں شفاف الیکشن ممکن ہوسکتے ہیں۔؟ ایک ایسے ملک میں جہاں غریب شہری عدالتوں کے احاطوں میں بے گناہ ہو کر بھی سزا بھگتتا ہو۔ جہاں جھوٹی گواہی پر مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہو۔ جہاں ملک کے ’’معززین‘‘ جعلی ڈگریاں لے کر اپنے ناموں کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کے سابقے لگا کر فخر محسوس کرتے ہوں، جہاں جعلی ڈگریوں والے ملک کی نمائندگی کرنے اسمبلیوں میں پہنچتے ہوں وہاں دھاندلی سے پاک الیکشن ممکن ہوسکتے ہیں؟ اس معاشرے میں جہاں جھوٹ بولنا فیشن اور روز مرہ زندگی کا حصہ ہو، جہاں رشوت اور سرکاری تحائف فضلِ ربی سمجھے جاتے ہوں۔ جس ملک میں عوام کی خدمت پر مامور بیورو کریٹ کنالوں پر پھیلے بنگلوں میں افسر شاہی کی طرح رہتے ہوں۔ گردنوں میں سریا ہو اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں عام لوگوں سے حقارت کا رویہ ہو۔ وہاں کرپشن سے پاک انتخابات کا سوچنا بھی گناہ ہے جہاں لکھنے والے جانبدار ہوں۔ تجزیہ کرنے والے مصلحت کا شکار ہوں، جہاں کے دانشور سچ بولنے سے گریزاں ہوں، طاقت سے ڈرتے ہوں، جہاں سفید کوٹ والے مسیحا اپنے مطالبات، اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالیں کریں۔ بے حسی کی انتہا ہوکہ ڈاکٹرز ہڑتالی کیمپوں میں موجود ہوں مگر فوری توجہ کے مریض ان کے سامنے دم توڑ دیں۔ ایسے معاشرے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن کا نیٹ ورک پورے کا پورا سچ اور دیانت پر مبنی ہو۔ جس معاشرے میں پیسے کی تقسیم اس عدم مساوات پر مبنی ہو کہ ایک عام شخص اپنے بچوں کا علاج بھی اچھے اسپتال سے نہ کروا سکے اور اشرافیہ کے کتے بھی وی آئی پی ٹریٹمنٹ حاصل کرتے ہوں۔ جہاں بڑی بڑی چمکتی گاڑیاں سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہوں۔ اور غریب شہری ان کے پہیوں سے اڑنے والی گرد سے خاک آلود ہوتا ہو، جہاں اہلِ زر پیسے کی بیہودہ نمائش پر کروڑوں اڑا دیتے ہوں اور سفید پوش، اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے قسطوں کی موت مرتا ہو۔ ایسے بے حس معاشرے میں ووٹروں کو ان کی عزت نفس سمیت خریدا جاسکتا ہے۔ پھر دھاندلی سے پاک الیکشن، کرپشن فری انتخابات کا خواب دیکھنے کا ہمیں کوئی حق ہے۔؟ جہاں جمہوریت کا ورد کرتے سیاستدان اپنی جماعتوں اور اپنے رویوں میں جمہوری اندازِ فکر سے عاری ہوں۔ جہاں سیاست کے معززین کو ’’بریف کیسوں‘‘ کے ساتھ خریدا جاسکتا ہو۔ جہاں الیکشن سے پہلے ڈی سی… تھانیدار اپنی مرضی کے لگوائے جاتے ہوں، جہاں پولنگ بوتھ خریدے جاتے ہوں، جہاں شفاف الیکشن کے نعرے لگانے والے الیکشن کمیشن کے خلاف اس لئے متحد ہوجائیں کہ الیکشن کمیشن کے اقدامات سے ان کے نقاب چہروں سے اتر جائیں گے، ان کی جعلی ڈگریوں کا ڈھنڈورا ہوگا، وطن کی مٹی سے محبت کے چرچے عام ہوں گے کہ کس نے کتنے قرضے معاف کرائے۔ کون وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، ٹیکس ادائیگی کی ذمہ داری ادا نہ کرکے قومی مجرم ٹھہرا۔ کتنے معززینِ سیاست مجرموں کی قطار میں نظر آئیں گے۔! یہاں ہر شے قابلِ فروخت ہے۔ ارباب اختیار اور اہلِ اقتدار نے نظام کی جڑوں کو کرپشن میں ڈبو رکھا ہے۔ کیا اپوزیشن اور کیا حکمران۔ ایک پورے کرپٹ مافیا کے سامنے دھان پھان سے، اسّی سالہ، فخرو بھائی پوری طاقت کے ساتھ کھڑے ہیں اور عینک کے پیچھے چُھپی ان کی آنکھوں میں ایک ہی خواب ہے کہ اس بار وہ ہر قیمت پر ملک میں صاف شفاف، کرپشن سے پاک انتخابات کروا کر ہی دم لیں گے!! میں موم کی سیڑھی پہ کھڑا سوچ رہا ہوں سورج سے بغاوت کا صلہ کیا ملے گا!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved