نپولین ہل کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے لکھنے کی داغ بیل ڈالی۔ ان کی زندگی عام لوگوں کو بہتر اور بامقصد زندگی بسر کرنے کی تعلیم دینے میں گزری۔ ان کی کوشش تھی کہ لوگ اپنی اصلاح پر مائل ہوں، مایوسی کی طرف لے جانے والی باتوں اور عادات سے چھٹکارا پائیں اور ایسی زندگی بسر کریں جس میں ان کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی بہت کچھ ہو۔
نپولین ہل نے 1938ء میں ایک کتاب لکھی تھی جو شیطان سے فرضی یا خیالی ملاقات سے متعلق تھی۔ اس کتاب میں انہوں نے وہ تمام باتیں بیان کرنے کی کوشش کی تھی جن سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے۔ کتاب لکھنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ لوگ اپنی اصلاح پر مائل ہوں، اپنی خراب عادات دور کریں اور اچھی عادات کو اپنائیں۔ 1938ء میں معاشرتی ماحول کچھ اس نوعیت کا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ ہوسکی۔ شیرون لیکٹر نے 2011ء میں یہ کتاب شائع کی۔
''آؤٹ وٹنگ دی ڈیول‘‘ میں نپولین نے بتایا ہے کہ شیطان ہماری بہت سی خامیوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ ہم میں کئی طرح کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور عام طور پر اس کوشش میں کامیاب رہتا ہے۔ کبھی وہ ہم میں افلاس کا خوف پیدا کرتا ہے اور کبھی موت کا۔ خوف خواہ کسی چیز کا ہو، انسان میں خرابیاں پیدا کرکے دم لیتا ہے۔ جب ہم خوف کی حالت میں ہوتے ہیں تب اپنی صلاحیت اور سکت کو عمدگی سے بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ خوفزدہ انسان کا ذہن پوری توانائی اور آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا۔ خوف کی حالت میں ہم بہت سے اہم معاملات کو نظر انداز کردیتے ہیں یا پھر ان کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے۔
بہت سے لوگ کوئی بھی نیا کام شروع کرتے وقت اس خوف میں مبتلا ہوتے ہیں کہ لوگ تنقید کریں گے یا تمسخر اڑائیں گے۔ اگر کوئی شخص گھڑ سوار دستے کا حصہ بنتے وقت اس الجھن میں مبتلا ہو کہ وہ گھوڑے پر بیٹھا ہوا کیسا لگے گا تو وہ کبھی اچھا گھڑسوار نہیں بن سکتا۔ اگر ہم کوئی کام شروع کرنے سے قبل ہی نتائج کے حوالے سے پریشان یا خوفزدہ ہوں تو بہتر نتائج حاصل کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو پائیں۔
جب شیطان ہمیں خوفزدہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم الجھ کر رہ جاتے ہیں اور یوں ہم میں کاہلی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اگر خوفزدہ ہوں تو کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے پژمردگی یا مایوسی میں مبتلا رہتے ہیں اور نتائج کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر ذہن الجھا ہوا ہو تو کام میں وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔
ہماری رسمی تعلیم بھی خوف پر مبنی ہے۔ مذہب کے حوالے سے ہمیں جو کچھ بھی تعلیم کیا جاتا ہے اس میں خوف کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ جب ہمارے ذہن میں چھوٹی عمر سے خوف بیٹھ گیا ہو تو زندگی بھر معاملات خوف ہی کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ہماری تعلیم خوف پر مبنی ہو تو آزاد سوچ مشکل سے پنپتی ہے۔ ایسے میں ہم سوچنے کا عمل اس طرح جاری نہیں رکھ سکتے جس طرح جاری رکھا جانا چاہیے۔ قصہ مختصر، شیطان کا جادو ہم پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں منفی سوچ کے حامل ہو جاتے ہیں اور یوں ہم میں کاہلی بھی درآتی ہے۔ کاہلی کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیت اور سکت سے کام لینے کے قابل نہیں رہتے۔
اب بنیادی سوال یہ ہے کہ شیطان کے جال میں پھنسنے سے کس طور بچا جائے، اُسے کس طور شکست دی جائے۔ اس حوالے سے نپولین ہل لکھتے ہیں کہ بہت سوں کے لیے ناکامی دراصل کامیابی کی سیڑھی پر پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی ناکامی سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اپنی خامیوں کو دور کرکے وہ کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں جبکہ دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے ناکامی تھک ہارکر، مایوس ہوکر ایک طرف بیٹھ رہنے کا بہانہ بن جاتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہر سفر میں ایک ناکامی ضرور ملتی ہے مگر یہ دائمی نہیں ہوتی۔ اگر ہم ناکامی کو دائمی سمجھ لیں تو کام کرنے کی لگن باقی نہیں رہتی۔
قدرت نے ہر انسان میں کچھ ایسا میکنیزم رکھا ہے کہ بحرانی کیفیت میں کام کرنے کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے اور حواس قابو میں رکھنے کی صورت میں کام کرنے کی لگن بھی بڑھ جاتی ہے۔ بحرانی کیفیت میں ہم میں جو قوت جاگ اٹھتی ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔
فطرت کے اصول اپنائیے۔ فطرت کبھی غیر فعال نہیں ہوتی۔ سورج نکلنے سے پہلے کسی قدر اندھیرا ہوتا ہے مگر تب بھی فطرت تو اپنا کام کر ہی رہی ہوتی ہے۔ دل کی بات سنیے۔ جو لوگ دل کی بات سنتے ہیں اور اپنے لیے کسی واضح ہدف کا تعین کرتے ہیں اور کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتے۔
یاد رکھیے کہ مشکل صورت حال کا سامنا کرنے کی صلاحیت علم سے نہیں تجربے سے ہاتھ آتی ہے۔ بہت کچھ پڑھ لینے سے بھی انسان وہ سب کچھ نہیں سیکھتا جو تجربہ اُسے سکھاتا ہے۔ تجربہ ہی انسان میں دانائی کا بیج بوتا ہے۔ دانائی کے بغیر ہاتھ آنے والی کامیابی زیادہ دن نہیں ٹکتی۔ یہی سبب ہے کہ محنت کے بغیر حاصل ہونے والی دولت زیادہ دیر یا زیادہ دور تک انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔
چاہے جتنا غور کیجیے آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ کی سب سے بڑی دولت صرف اور صرف وقت ہے۔ وقت کے بارے میں مثبت رویہ اپنائیے۔ اپنا وقت بہترین طریقے سے بروئے کار لانے پر توجہ دیجیے۔
آج دنیا بھر میں تجاذب کے قانون کا چرچا ہے۔ ماہرین اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچنے والوں کو متعلقہ تصورات تک پہنچنا زیادہ دشوار نہیں لگتا اور یہ کہ کسی خاص سمت سفر کرنے والوں کو ہم خیال لوگ ملتے رہتے ہیں اور وہ اپنی مرضی یا پسند کے حالات سے ہم آغوش ہوتے جاتے ہیں۔ نپولین ہل نے تجاذب یا کشش کے قانون کے بارے میں 1911ء میں لکھا تھا۔ خیالات میں غیر معمولی طاقت ہوتی ہے۔ اس طاقت کو ڈھنگ سے شناخت اور استعمال کرنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچتا ہے تو ڈھنگ سے کام کرنے کا منصوبہ تیزی سے باضابطہ شکل پانے لگتا ہے۔ جو لوگ اپنا ذہن کسی خاص مقصد کے حوالے سے واضح رکھتے ہیں‘ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
بھرپور اور مثالی کامیابی کے لیے ضبط نفس کی بہت اہمیت ہے۔ اپنے افکار و اعمال پر دھیان دیجیے اور انہیں بے قابو یا بے سمت ہونے سے روکیے۔ جو لوگ اپنے وجود پر اختیار نہیں رکھتے وہ کامیابی کی راہ پر زیادہ آگے نہیں جاسکتے۔ ضبط نفس ہی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دوستوں کے انتخاب میں محتاط رہا جائے۔ آپ کی کامیابی کا مدار بہت حد تک اس حقیقت پر بھی ہے کہ آپ کے دوست کیسے ہیں۔ منفی سوچ رکھنے والوں سے دور رہیے کیونکہ ان کی ہر بات میں مایوسی پائی جاتی ہے۔
فطرت کے اصولوں کو اپنائیے۔ ان اصولوںمیں نصیب کا عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔ فطرت کا بنیادی اصول ہے تبدیلی۔ اگر آپ بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مرحلہ وار تبدیل ہونا پڑے گا۔ جولوگ تبدیل نہیں ہوسکتے وہ کامیاب ہونے کا بھی نہ سوچیں۔ بھرپور کامیابی انہیں ملتی ہے جو تبدیلی کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ہر ناکامی تبدیل ہونے کی تحریک دیتی ہے۔ ناکامی سے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے آپ کو تبدیل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ شیطان منفی قوت کی علامت ہے۔ منفی سوچ آپ کو شیطان کی طرف دھکیلتی ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے منفی سوچ پر قابو پانا لازم ہے۔ جن کا ارادہ پختہ ہو وہ مثبت اور پُرامید رہتے ہوئے بھرپور کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔