تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     08-04-2018

بھارت کے بزدل اور مطلبی لیڈر

دلت مظاہروں میں لگ بھگ پندرہ لوگوں کا مرنا اور سینکڑوں کا زخمی ہونا بہت ہی افسوس ناک ہے۔ سپریم کورٹ نے دلت قانون میں جو ترمیم کی تھی‘ یہ مظاہرہ اس کے خلاف ہے۔ یعنی یہ تحریک ہونی تھی سپریم کورٹ کے خلاف لیکن اس میں نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ مودی سرکار کو۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا یہ نہیں کہ یہ دلتوں کا مظاہرہ کم اور مودی مخالف زیادہ ہے؟ اپوزیشن لیڈروں کے پاس مودی پارٹی کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس مدعہ ہے اور نہ ہی کوئی طاقتور لیڈر ہے۔ تو وہ کیا کریں؟ اور کچھ نہیں تو وہ دلتوں اور جنگلی لوگوں کو ہی اپنی توپ کا ایندھن بنا دیں۔ اس حقیقت کے باوجود بنا دیں کہ بھارت کی وفاقی سرکار نے سپریم کورٹ میں درخواست ڈال کر اس سے گزارش کی ہے کہ وہ اس دلت کے حفاظت والے قانون کو کمزور نہ بنائے۔ عدالت کا تازہ حکم تھا کہ اگر کسی بھی شیڈول کاسٹ کی بے عزتی‘ نقصان اور اس پر ظلم ہونے پر ویسا کرنے والوں کو فوراً گرفتار نہ کیا جائے۔ اس کے گرفتار ہونے سے پہلے شکایت کی جانچ ہو‘ اور اعلیٰ افسر کی رضا مندی ہونے پر اسے گرفتار کیا جائے۔ ایسے معاملات میں ضمانت بھی دی جائے۔ عدالت نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ دلتوں پر ظلم کے بہانے بلیک میلنگ کا کاروبار زوروں سے چل پڑا تھا۔ ایسے سو معاملات میں سے لگ بھگ 75 عدالت میں پہنچنے پر جعلی ثابت ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اس طرح کے قانون سے دلتوں پر ہونے والے ظلم میں کمی نہیں آتی‘ بلکہ وہ بڑھ ہی جاتا ہے۔ فرضی مقدمات سے سماج میں نفرت ہی پیدا ہوتی ہے۔ جو قانون ظلم کو روکنے کے لیے بنا ہے‘ وہ خود ظلم بنا جاتا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے لیڈروں کو اس قانون کی حمایت کرنی چاہیے تھی اور ملک کے شیڈول کاسٹ والوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ یہ فیصلہ ان کے لیے کتنا کارآمد ہے۔ لیکن ہمارے لیڈروں سے بڑھ کر مطلبی اور بزدل کون ہے؟ یہ ووٹ اور نوٹ کے غلام ہیں۔ ان میں سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ دلتوں کا بھلا نہیں اپنا بھلا چاہتے ہیں۔ اپنے ووٹ اور وہ بھی اندھے تھوک ووٹ کباڑنے میں ان سبھی پارٹیوں کے لیڈروں نے سبھی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ جب تک بھارت میں ذات پات کا فرق ختم نہیں ہو گا‘ شیڈول کاسٹ والوں پر ظلم ہوتا رہے گا۔
مودی‘ راجیو گاندھی کے نقشِ قدم پر 
نریندر مودی کی سرکار نے وہی کیا‘ جو راجیو گاندھی کی سرکار نے کیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے چار برس بعد راجیو گاندھی کو لگا کہ جس کرسی پر وہ اچانک بیٹھے تھے‘ وہ ہلنے لگی ہے تو وہ ہتک عزت بل لے آئے‘ جیسا کہ اب الٹی لہر چلتی دیکھ کر مودی کا دم پھول رہا ہے۔ اب اس نے اپنے چار سال پورے ہوتے ہوتے راجیو کی طرح صحافت کی آزادی پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا ہے۔ جیسے راجیو نے اپنا بل واپس لے لیا تھا‘ ویسے ہی مودی نے بھی لے لیا۔ وزیر اطلاعات سمرتی ایرانی کی کیا حیثیت ہے کہ وہ ایسا قانون بنوا دیں کہ کوئی بھی صحافی فرضی خبر پھیلاتے پکڑا گیا تو اس کی سرکاری ڈگری رد یا ختم کی جا سکتی ہے۔ ایسا قانون وزیر اعظم کی رضا مندی کے بنا بننا ناممکن لگتا ہے لیکن مودی نے اسے الٹ کر اپنی ناک بچا لی ہے‘ بلکہ کریڈٹ لے لیا ہے۔ وہ راجیو سے زیادہ چالاک نکلے۔ بے چاری ایرانی کیا کرتی؟ وزارت اطلاعات نے اپنا اعلان واپس لے لیا۔ دلتوں نے مودی سرکار کے خلاف مورچا کھول دیا ہے‘ دلی کے تاجر پہلے ہی روٹھے ہوئے ۔ اب صحافیوں سے ٹکر لے کر وہ اپنی دال پتلی کیوں کرواتے؟ آج اخباروں اور ٹی وی چینلوں سے بھی زیادہ سوشل میڈیا کا رواج ہو گیا ہے اخباروں اور چینلوں میں موٹا پیسہ لگتا ہے‘ اور صحافیوں کی نوکری کا سوال رہتا ہے۔ فرضی خبر دیکھ کر مالک کا پیسہ اور صحافیوں کی نوکری کون خطرے میں ڈالنا چاہے گا لیکن سوشل میڈیا تو بالکل بے لگام ہو چکا ہے۔ اس کے لئے کوئی ضابطہ بنانے کے سلسلے میں سرکار کیا کر رہی ہے؟ اخباروں اور چینلوں کو ضابطے میں رکھنے کا کام تو پریس کونسل کرتی ہی ہے۔ جہاں تک سرکاری منظوری کا سوال ہے‘ اسے ختم کرتے کی دھمکی کیا کسی سچے اور بے خوف صحافی کو ڈرا سکتی ہے؟ میں ملک کے سب سے بڑے اخبار نیو بھارت ٹائم اور پی ٹی آئی کا لمبے وقت تک ایڈیٹر رہا‘ لیکن مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی سرکاری ڈگری کی کوشش بھی کی ہو۔ سرکاری ڈگری چھین لینا تو بہت چھوٹی بات ہے۔ اگر کوئی صحافی جان بوجھ کر کوئی جھوٹی‘ فرضی‘ غیر مستند خبر دیتا ہے تو اس کو سخت سے سخت سزا دینے کا قانون بننا چاہیے۔ لیکن اس طرح کا قانون وہ سرکاریں نہیں بنا سکتیں‘ جو دبو ہوتی ہیں اور اپنے دور کے آخری پیریڈ میں ہوتی ہیں‘ یعنی جن کا وقت پورا ہونے کے قریب ہوتا ہے۔
ڈھونگی فقیروں کی حجامت الٹے استرے سے 
ایم پی کے وزیر اعلیٰ شوراج سنگھ چوہان غضب کے لیڈر ہیں۔ انہوں نے پانچ بابوں کو بھی بابا بنا دیا ہے۔ ان کی الٹے استرے سے حجامت کر دی ہے۔ انہیں چوکیدار بنا دیا ہے۔ چور کو چابی پکڑا دی ہے۔ ساری دنیا حیرت میں ڈوب گئی ہے۔ جو پانچ بابا سادھو سنت دورۂ نرمدا کے معاملے پر سیاہی پونچھنا چاہتے تھے‘ وہ اب اپنا منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ ان پانچ لیڈر ٹائپ بابوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ سب لوگ 45 دن تک 'نرمدا گھوٹالا مظاہرہ‘ کریں گے اور ایم پی کے 
عوام کو بتائیں گے کہ چوہان نے جو نرمدا دورہ کیا تھا اور اس کے نام پر بہت نام کمایا تھا‘ اس دورے میں بہت گھوٹالا ہوا ہے۔ جن چھ کروڑ پودوں کے لگائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا‘ ان کی کھوج کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ کیسے اس معاملے میں سرکار کے کروڑوں روپے کی لوٹ مار ہوئی ہے۔ ان کے اعلان سے لوگوں میں یہ جذبات پیدا ہوئے کہ یہ سادھو سنت لوگ کتنے اچھے ہیں۔ کتنا اچھا کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو عوام کے پیسے کی کتنی چنتا ہے۔ یہ صرف اپنی آرتی اتروانے میں ہی اپنی زندگی تباہ نہیں کرتے بلکہ ان میں عوام کی خدمت کا خیال بھی روشن ہے۔ اور یہ اپنے اس خیال کو عملی شکل دینے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ یہ بدعنوانی کے خلاف کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان بابوں کے اعلان سے بھاجپا مخالف لیڈروں کا غبارہ ایک دم پھول گیا تھا‘ لیکن وزیر اعلیٰ نے کیا جادو کی سوئی لگائی کہ یہ غبارہ پھس ہو گیا‘ بلکہ پھٹ گیا۔ اس کی ہوا نکل گئی۔ چوہان نے ان پانچوں بابوں کو وزیر کا درجہ دے دیا اور بابوں نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔ ویسے بھی بابا لوگ کسی کی دی ہوئی سوغات کو منع نہیں کرتے۔ ہمیشہ نرمی سے قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے وزارتوں کو بھی سوغات سمجھ کر ترنت قبول کر لیا۔ اور تبدیلی یہ آئی کہ جونہی انہوں نے چوہان کی یہ مہربانی قبول کی‘ انہوں نے اپنا گھوٹالا مظاہرہ مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ اب وہ نرمدا والے علاقے کو ہرا بھرا کرنے میں سرکار کی پوری مدد کریں گے۔ یہ اعلان اپنے آپ میں بڑا گھوٹالا بن گیا ہے۔ جو اپوزیشن والے ان کی پشت ٹھونک رہے تھے‘ وہ اب ان کی داڑھیاں نوچ رہے ہیں۔ اس ملک کے وزرائے اعظم‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزیر اور افسر لوگ ان بابوں کے پیر چھونے کو ترستے رہتے ہیں‘ اور ایم پی کے یہ بابا ہیں کہ دوئم درجے کے وزیر بن کر خوش ہو رہے ہیں۔ اگر اب رائے شماری سے گھبرا کر یہ بابا اس درجے کو چھوڑ بھی دیں توکیا ہو گا؟ جو نقصان بابا گیری کا ہونا تھا‘سو ہو گیا۔ وہ سوچ رہے ہوں کہ اب کیا کریں۔ اس گرداب میں سے کیسے نکلیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved