کسی ادبی تنظیم کا الیکشن تھا۔ ایک عہدے کے دو امیدوار‘ اہلیت اورنااہلیت کے سوال پر بحث کر رہے تھے۔ایک نے کہا کہ ’’تم ہکلے ہو۔تم اپنے منصب کی ذمہ داریاں کیسے نبھائو گے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’تمہارے بھی جڑواں بچے ہیں ‘ تم اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائو گے؟‘‘ یہ واقعہ مجھے ملک کے نگران وزیراعظم کی اہلیت پر ہونے والی بحث سے یاد آ گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کا نام آیا تو پیپلزپارٹی کی طرف سے اعتراض ہوا ’’وہ جسٹس نظام کے برادر نسبتی ہیں۔ وہ قتل ہوئے تھے تو ان کے قتل کے الزام میں دیگر لوگوں کے ساتھ آصف زرداری کو بھی ملوث کیا گیا تھا۔ وہ عدالت سے بری ہوئے تھے۔ مقتول جسٹس نظام ‘ ناصر اسلم زاہد کے برادر نسبتی تھے۔ ایسے جانبدار شخص کو نگران وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘ آج مسلم لیگ (ن) کے یعقوب ناصر نے نہلے پر دہلا مارا۔ نگران وزیراعظم کے لئے پیپلزپارٹی کی طرف سے نامزد شخصیت‘ عشرت حسین پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’سفیر خلیل‘ ان کے برادر نسبتی ہیں۔وہ نگران وزیراعظم کیسے بنائے جا سکتے ہیں؟‘‘ اگر ان معیاروں کو پیش نظر رکھا جا ئے‘ تو نگران وزیراعظم بنانے کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہو گی‘ جسے پاکستان کیا؟ دنیا کے کسی بھی ملک میں آسانی سے نہیں ڈھونڈا جا سکے گا۔ دونوں جماعتوں کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کو دیکھا جائے‘ تو نگران وزیراعظم کا کوئی خاندان نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا کوئی بھی رشتے دار ‘ کہیں نہ کہیں پر ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے اس کے والد محترم اپنے زمانے میں کسی سیاسی جماعت میں شامل رہے ہوں اور دوسری جماعت سے تعلق رکھنے والے اعتراض کریں کہ اس کے والد صاحب ہماری مخالف پارٹی کے رکن تھے۔ اسے نگران وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جواب میں دوسرا فریق اعتراض کرنے والی جماعت کے امیدوار پر یہ اعتراض اٹھا سکتا ہے’’اس کے برادر نسبتی کی بیوی ہماری مخالف پارٹی کے امیدوار کی خالہ ہے‘ وہ جانبدارکیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ ہمارے سٹار کرکٹر عمران خان بھی ایسے ہی مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ دوسرے سیاستدانوں سے الگ ‘ منفرد اور نمایاں ہونے کے لئے کچھ عجیب و غریب وعدے کر بیٹھے۔ اب یہ وعدے ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ گزشتہ 15 برس کا عرصہ انہوں نے سیاسی جدوجہد اور تنہائی میں گزارا۔ اس دوران ان کے بہت سے ساتھی ہر آزمائش پر پورے اترے اور عمران خان کے ساتھ اپنی رفاقت نبھاتے رہے۔طویل جدوجہد کے بعد‘ جب ان کا ستارا چمکتا ہوا نظر آنے لگا‘ تو ایک ہجوم ان کے ساتھ ہو لیا۔ جیسا کہ ہوا کرتا ہے۔ ہر مشت خاک آندھی کے ساتھ ہو جاتی ہے۔ عمران خان نے حریفوں کے خلاف پرجوش تقریریں کرتے ہوئے‘ اسی طرح کی کئی باتیں کہہ ڈالیں‘ جو نگران وزیراعظم پر ہونے والے اعتراضات میں سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے سیاست میں نام کمانے والے ہر لیڈر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ قیادت اپنے گھر میں رکھنا چاہتے ہیں اور پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک رشتے دار کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ لوگ پارٹی کی لیڈر شپ‘ اپنے ہی گھر میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے ہی رشتہ داروں کونوازتے ہیں اور کارکنوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ مقابلے میں عمران خان نے اپنی طرف سے بڑے بڑے وعدے کر دیئے۔ ایک حالیہ جلسے میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ میری پارٹی میں میرے بیٹوں کو بھی لیڈر شپ نہیں ملے گی اور جس دن وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئے‘ میں اپنی پارٹی چھوڑ دوں گا۔ ایسے دلخراش نعروں کے بعد ان کا اپنا خاندان تو کیا؟ ان کے رفقا کے خاندان بھی دہشت زدہ ہو گئے اور جس کسی کے رشتہ دار نے پارٹی میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا‘ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا دیاکہ جب ہماری پارٹی کا بانی لیڈر اپنے بیٹوں کے پارٹی میں شامل ہونے پر ‘ پارٹی چھوڑ دینے کا اعلان کر رہا ہے‘ تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ جاوید ہاشمی کی صاحبزادی گزشتہ قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے والد محترم کی پارٹی میں شامل ہونے کی خواہش مند ہوں گی۔ شاید انہیں دوبارہ اسمبلی میں جانے کا خیال آ جائے۔ مگر خان صاحب نے حال ہی میں اپنے خاندان کو سونامی کی نذر کرتے ہوئے ایک دھماکہ کر ڈالا۔ اس دھماکے کی خبر کالم نگاروں کے قبیلے میں دھم سے کودنے والے حفیظ اللہ خاں نیازی نے‘ اپنے گرجدار کالم میں دے دی۔ پتہ یہ چلا کہ ان کے برادرخورد انعام اللہ خاں نیازی کو انتخابات میں پارٹی کے ٹکٹ سے محرومی کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے طرح طرح کی کہانیاں پھیل رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بارے میں افواہیں اور کہانیاں پھیلتی ہی رہتی ہیں اور جب الیکشن نزدیک ہو‘ تو افواہوں کے ٹڈی دل یلغار کر دیتے ہیں۔ جب خاندان کے اندر ہلچل ہوئی‘ تو بھانت بھانت کی افواہوں کی چھچھوندریں سرر سرر کرتی پھیلنے لگیں۔ ایک حریصانہ افواہ یہ آئی کہ انعام اللہ خان نیازی نے بنک سے قرضہ لے کر دبا رکھا ہے۔ ایک آہوچشم افواہ مٹکتی لجاتی ایک ادائے دل نواز (و شہباز) کے ساتھ یہ گدگداتی ہوئی اطلاع لے کر پھیلی کہ خان صاحب نے انعام اللہ خاں نیازی کی جگہ میانوالی کا حلقہ عائلہ ملک کے سپرد کر دیا ہے۔ مجھے تو یہ بات اچھی لگی۔ انعام اللہ خاں نیازی ہوں یا عائلہ ملک۔ میری دونوں سے یاد اللہ ہے۔ میں دونوں کے لئے دعا گو ہوں۔ وہ جیسے بھی ہوں‘ جہاں بھی ہوں خوش رہیں۔ ان کے بچوں کے نصیب اچھے ہوں اور خان صاحب نے ان دونوں کے لئے جو کچھ بھی سوچ رکھا ہے‘ وہ مبارک ثابت ہو۔ انعام اللہ خان بہرحال ان کے کزن ہیں۔ عائلہ ملک پر ان کے گھریلو حلقے کی نگہداشت کی ذمہ داری آ گئی ہے۔ خدا انہیںیہ ذمہ داری پوری کرنے میں سرخرو فرمائے۔ لیکن اصل بات جو میرے ذہن میں آئی ہے‘ اس کا تعلق رشتے داری ہی سے ہے۔ جیسے وزیر اعظم کے امیدواروں کی رشتے داریوں نے ان پر نااہلی کے سائے ڈال رکھے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے بھی ‘ اپنے خیال کے مطابق جن سیاستدانوں کو اپنا حریف سمجھ رکھا ہے‘ وہ بھی ان کے رشتہ داروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ فطری طور سے دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے اٹھاتے وہ احتیاط کی چلمن میں چھپنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی طرف کوئی انگلی اٹھائے تو کسی کو یہ نہ لگے کہ سامنے خان صاحب کا چہرہ ہے۔ بات صرف اتنی سی ہو گی یعنی اگر وہ انعام اللہ خان کو ٹکٹ دیں گے‘ توان پر بھی وہی الزام آئے گا‘ جو وہ دوسروں پر لگا رہے ہیں کہ ’’اپنے ہی کزن کو ٹکٹ دے دیا۔‘‘ لوگ اپنے اپنے مطلب کی باتیں بناتے ہیں اور انعام اللہ خان کا ٹکٹ غیریقینی ہوتے دیکھ کر کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ جیسے بنک کے قرضے کی کہانی یا پھر خان صاحب سے منسوب کر کے یہ کہنا کہ ’’جب میں اکیلا جدوجہد کر رہا تھا‘ تو میرا یہ کزن کہاں بیٹھا تھا؟‘‘ میرا نہیں خیال کہ عمران خان جیسا بڑا آدمی اتنی چھوٹی بات کر سکتا ہے۔ واقعہ یہی ہو گا کہ وہ سیاستدانوں کی اقربا نوازی پر اعتراض کرتے کرتے‘ خود ڈرنے لگے ہیں کہیں ان پر بھی یہی الزام نہ آ جائے؟ انعام اللہ خان نیازی کو سیاسی خاندانوں نے مروا دیا۔ نہ بھٹو‘ شریف‘ چوہدری‘ گیلانی‘ قریشی‘ جتوئی‘ کھوڑو‘ خان برادران‘ لیڈری کی ریوڑیاں اپنے اپنے خاندانوں میں بانٹتے‘ نہ عمران خان کو ایک ہی خاندان کی قیادت پر تنقید کرنے کی ضرورت پڑتی اور نہ انعام اللہ خان نیازی گھر کے ٹکٹ سے محروم ہوتے۔ انعام اللہ نیازی طبعاً ایک ایجی ٹیٹرہیں۔ اگر عمران خان اپنی ضد پر اڑے رہ کر ‘ اپنے خاندان میں کسی کو ٹکٹ نہیں دیتے‘ تو انعام اللہ کو اپنے ہی گھریلو حلقے میں امیدوار بن کر عمران خان کے لئے ووٹ مانگنا چاہئیں اور ان کی دلیل یہ ہونا چاہیے کہ ’’عمران خان اپنوں کے لئے ووٹ مانگنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن میں ان کا کزن ہوں۔ عمران کے ووٹوں پر میرا حق ہے۔ اس لئے اگر آپ عمران خان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو اپنے ووٹ مجھے دیں اور میں آپ کی امانت کے ساتھ اسمبلی میں جا کر بتائوں گا کہ ’’میںعمران خان کے ووٹ لے کر آیا ہوں اور اسمبلی کے اندر انہی کی حمایت کروں گا۔‘‘ پارلیمانی کمیٹی میں ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے نمائندے ہوں یا خود عمران خان ہوں‘یوںلگتا ہے کہ یہ سب خاندانی نظام کے خلاف ہو گئے ہیں۔ خاندانی نظام کو بچانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ نگران وزیراعظم کے جس امیدوار کے زیادہ رشتے دار حکومت یا سیاست میں ہوں‘ اسے نگران وزیراعظم بنانا چاہیے اور عمران خان کا جو رشتہ دار الیکشن میں کھڑا ہو جائے‘ عمران خان کے ووٹ اسے ملنا چاہئیں۔ خاندانی نظام بھی تو کوئی چیز ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved