تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     08-04-2018

انسانوں کی اصلاح

ہر انسان اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے اور ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی توانائیاں، صلاحیتیں، ذرائع اور وسائل کو استعمال کرتا ہے۔ بعض لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس بہت سے لوگ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے اصول و ضوابط کو پامال کر دیتے اور صحیح و غلط اور حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اخبارات میں آئے روز قتل و غارت گری، چوری، ڈکیتی، اغواء برائے تاوان، زنا بالجبر، منشیات فروشی، قحبہ گری اور دیگر امور سے متعلق خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ تمام خبریں درحقیقت انسانوں کی سفلی اور حد سے بڑھی ہوئی تشنہ خواہشات کے اظہار کی آئینہ دار ہیں۔ جب انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے تو شرف انسانیت سے گر کر حیوان بن جاتا ہے۔ ایسا انسان معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے شر اور فتنے کی وجہ لوگوں کو کئی طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنی خواہشات کو دبا لیتے ہیں اور مذہب اور قوانین کا احترام کرتے ہیں وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مفید کارکن ثابت ہوتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ منفی رجحانات رکھنے والے لوگوں کو معاشرہ بری نظر سے دیکھتا ہے اور سلیم الطبع لوگ ایسے لوگوں کی شر اور فتنے سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ مثبت رویوں اور طرز عمل کا مظاہرہ کرنے والے لوگوں کو معاشرے میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ ان کی صلاحیتوںسے استفادہ کرتے ہیں۔ 
انسانی معاشروں میں جرائم پر قابو پانے کے لیے ایک لمبے عرصے سے قوانین کا نفاذ جاری و ساری ہے۔ ان قوانین کے نفاذ کا مقصد منفی اور جرائم پیشہ انسانوں کی سرکشی اور بغاوت پر قابو پانا ہے۔ جن معاشروں اور ممالک میں قوانین کی تنفیذ صحیح طریقے سے ہوتی ہے وہاں پر رہنے والے لوگ جرائم کا ارتکاب کرنے سے کتراتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں قتل وغارت گری، چوری، ڈکیتی اور زنا بالجبرکے واقعات خال خال رونما ہوتے ہیں اور اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو بھی جائے تو مجرم کو جلد ازجلد کیفرکردار تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ، خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں بھی قانون کی عملداری کی وجہ سے جرائم کی شرح بہت کم ہے اور معاشرے میں بدامنی اور فساد نظر نہیں آتا، سماج پر حکومت کی گرفت نظر آتی ہے۔ مجرم اس بات کو سمجھتا ہے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زیر نہیں کر سکتا اور ارتکاب جرم کی صورت میں قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ چنانچہ جرائم کا خیال آنے کے باوجود منفی اذہان میں جرائم کے لیے تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن جن ممالک میں قوانین کمزور ہوتے ہیں یا قانون کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا جاتا وہاں پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ مجرم کی حوصلہ افزائی کرنے والے ذرائع تین ہیں:
1۔ رشوت ستانی 2۔ سفارش 3۔ اثر و رسوخ
قانونی اعتبار سے کمزور سماج میں ان تینوں ذرائع کے ذریعے مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور مجرم کی قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کی وجہ سے دیگر جرائم پیشہ افراد کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر قانون کی عملداری یقینی ہو اور ان ذرائع کو بروئے کار لا کر کوئی بھی شخص قانون پر اثر انداز نہ ہو سکتا ہو تو ایسی صورت میں جرائم کی شرح خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے خالق ہیں اور انسان کی نفسیات اور وساوس کو انسان سے بھی زیادہ سمجھنے والے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر قرآن مجید میں انسانوں کے فوائد کے لیے بہت سے احکامات کا نزول فرمایا وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں یوم حساب کی فکر کا بھی انسانوں کو احساس دلایا اور یوم حساب کی کامیابی کو ہی حقیقی کامیابی قرار دیا۔ قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔
قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل جنت کو ملنے والی نعمتوں اور اہل جہنم کو پیش آنے والی تکالیف اور مصیبتوں کا ذکر کیا جن کا مقصد اہل ایمان کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ان کو حصول جنت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے اور جہنم سے بچنے کی بھرپور انداز میں کوشش کرنی چاہیے۔ سورہ غاشیہ میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قیامت کے دن اور اس کے بعد اہل جنت اور اہل نار کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کو یوں بیان فرمایا ''کیا آئی ہے آپ کے پاس ڈھانپ لینے والی (قیامت) کی خبر؟ کچھ چہرے اس دن ذلیل ہوں گے عمل کرنے والے تھک جانے والے۔ وہ داخل ہوں گے بھڑکتی ہوئی آگ میں۔ وہ پلائے جائیں گے کھولتے ہوئے چشمے سے۔ نہیں ہو گا ان کے لیے کھانا مگر خار دار جھاڑی سے۔ (جو) نہ تو موٹا کرے گا اور نہ فائدہ دے گا بھوک سے۔ کچھ چہرے اس دن تر و تازہ ہو ں گے۔ اپنی کوشش پر خوش ہوں گے، بلند جنت میں ہوں گے۔ نہیں سنیں گے اس میں کوئی لغو بات۔ اس میں ایک چشمہ جاری ہو گا، اس میں تخت ہو ںگے اونچے اونچے اور آبخورے (قرینے سے ) رکھے ہوں گے اور گاؤ تکیے قطاروں میں لگے ہوں گے اور مخملی قالین بچھے ہوں گے‘‘۔
قرآن مجید میں جہاں مختلف مقامات پر جنت اور جہنم کے مناظر کو بیان کیا گیا، وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ان اچھے عقائد اور اعمال کا بھی ذکر کیا جو انسان کو جنت میں لے کر جانے والے ہیں اور ان برے عقائد، خصائل اور اعمال کا بھی ذکر کیا جو انسان کو جہنم میں لے کر جانے والے ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایمان اور عمل صالح کا اہتمام کرنے والے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ چنانچہ نماز پڑھنے والے، روزہ رکھنے والے، زکوٰۃ ادا کرنے والے، حج کرنے والے، مساکین اور یتیموں کی کفالت کرنے والے، انسانوں کے کام آنے والے، دوسروں کا حق ادا کرنے والے اور دیگر اچھے کاموں کو انجام دینے والے اللہ تبارک وتعالیٰ کی جنتوں کے مستحق بن جائیں گے۔ اس کے مدمقابل شرک کرنے والے ، نبی کریمﷺ کی نافرمانی کرنے والے، معصوم انسانوں کو قتل کرنے والے، زنا کاریوں کا ارتکاب کرنے والے، دوسروں کی حق تلفی کرنے والے اور اس کے بعد ان گناہوں پر توبہ یا ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے ان گناہوں پر اصرار کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۔ انسانی نفوس کی اصلاح کے لیے انسانوں کے تصور آخرت کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں پر قانون کی تنفیذ کے حوالے سے مختلف قسم کی مشکلات ہیں وہیں پر ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی بہت کم کیا جاتا ہے اور لوگوں کی اکثریت کے یہاں پر فکر آخرت اور یوم حساب کی تیاری کا صحیح تصور موجود نہیں۔ اگر ہم انسانوں کی اصلاح کرنا اور معاشرے میں جرائم کی روک تھام چاہتے ہیں تو جہاں پر ہمیں قانون کے نفاذ کو بہتر بنانا ہو گا وہیں پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جواب دہی کا احساس بھی انسانوں کے دلوں میں پیدا کرنا ہو گا۔ اگر انسانوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہی کا احساس پیدا ہو جائے تو انسانوں کی خود بخود اصلاح ہو سکتی ہے اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved