شنید ہے کہ جاتی امرا کے شہنشاہ نے خوش رنگ پھولوں سے مزین مہکتا ہوا گلدان توڑنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اوراحتساب عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے‘ اور بعد میں کھڑاک کے لئے ملک بھر کے پچاس سے زائد مقامات منتخب کر لئے گئے ہیں، جہاں ان کے افراد کو ٹاسک سونپا جا چکا ہے تا کہ پر تشدد کارروائیوں سے ملک کا پہیہ جام اور نظام زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیاجائے۔ سننے میں آیا ہے کہ اس کے لئے لاہور کی کچھ سڑکوں پر اُس طرز کا کھیل کھیلا جانے والا ہے جیسا14 فروری2006ء کو مال روڈ، ایجر ٹن روڈ، ڈیوس روڈ کو آگ اور خون کی نذر کرتے ہوئے کھیلا گیا تھا۔ اگر ملک کے حساس ادارے‘اہم حکومتی افراد کے مختلف وکلاء تنظیموں سے خفیہ رابطوں اور اس سلسلے میں ان کی زیر زمین پراسرار سرگرمیوں اور پنجاب کے لاٹ صاحب سے بار بار ہونے والی ملاقاتوں پر نظر رکھ رہے ہیں تو ان کو اندازہ ہو چکا ہو گا کہ ملک کو شعلوں کی نذر کرنے کی تیاریاں کس نہج پر کی جا رہی ہیں اور کون کون سی بڑی بڑی حکومتی اور آئینی شخصیات اس میں دھڑلے سے ملوث ہیں۔ 12 مارچ کو شائع ہونے والے ''اداروں پر سٹریٹیجک سٹرائیکس‘‘ اور پھر 28 مارچ کے آرٹیکل ''ہم نہیں تو پھر...کچھ نہیں‘‘ میں اطلاعات پر مبنی خبروں کی بنا پر میں نے خبردار کیا تھا کہ کسی بھی سیاسی حکومت کا آلہ کار بننے کی بجائے اس ملک کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے ناپاک منصوبوں کے خلاف تمام سکیورٹی اداروں‘ جن میں پولیس، ایف آئی اے، رینجرز شامل ہیں، کو آئین پاکستان میں درج قوانین کے تحت کارروائی کرنا ہو گی اور ملکی سالمیت کے دشمنوں پر کڑا ہاتھ ڈالنا ہو گا۔ میری نظر میں جو سازشیں اس وقت سرکاری اختیارات اور وسائل استعمال کرتے ہوئے پنپ رہی ہیں‘ ملک میں آگ اور خون کا جو دریا بہانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں‘ بلوچستان میں نواز شریف کے اتحادی ملکی سالمیت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے جو سازشیں کر رہے ہیں‘ ان سب کا ابھی سے نوٹس لینا ہو گا۔ میں نے اپنے ان دونوں مضامین میں لکھا تھا ہے کہ نواز لیگ ججوں پر کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ایک بڑے صوبے کا اہم عہدیدار بروکر کا کام کر رہا ہے اور شاید متعلقہ اداروں کو خبر مل چکی ہو گی کہ چند روز پہلے ان کا دورہ خیبر پختونخوا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جہاں بظاہر تو وہ گورنر ظفر اقبال جھگڑا سے ملاقات کے لئے گئے لیکن مبینہ طور پر انہوںنے کے پی کے گورنر ہائوس میں آنے والے اپنے ملاقاتیوں کو سپریم کورٹ کے کچھ حضرات کو ''ٹارگٹ‘‘ کرنے کے احکامات دیئے جن پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
میں نے اپنے ان دونوں آرٹیکلز میں لکھا تھا کہ عدلیہ کی کمان جب تک میاں صاحبان کے ہاتھ میں نہ آ جائے اس وقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھتے اور وہ یہ مرحلہ طے کرنے کیلئے اسی طریقہ کار پر بھرپور عمل کر نے جا رہے ہیں اور ا س کیلئے ان کے وہ دوست جنہیں وقفے وقفے سے بغیر کسی آڈٹ اور مروجہ طریقہ کے ''گردشی قرضوں‘‘ سے فیض یاب کیا جاتا ہے‘ بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
میں ذاتی طور پر ملک کے سکیورٹی اداروں کو خبر دے رہا ہوں کہ جو سلوک ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن کے خلاف اگر تلہ سازش کی کارروائی کے دوران کیا گیا تھا اسی طریقہ کار کو نئے شیخ مجیب الرحمن کو بچانے کیلئے دہرانے کی خبریں گردش میں ہیں۔ یاد رہے کہ جب لاہور نیب نے احد چیمہ کو گرفتار کیا تھا تو جس طرح مبینہ حملے کی اطلاع ملنے پر رات گئے رینجرز کے دستے وہاں تعینات کر دیئے گئے تھے‘ اسی قسم کی کسی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کیلئے پولیس کی بجائے ملک کی حفاظت کرنے والے کسی سپریم ادارے کو آگے بڑھ کر عدلیہ سے متعلق اہم لوگوں کی حفاظت کا فریضہ سنبھالنا ہو گا۔ میں اس مضمون کے ذریعے قوم کے باشعور اور چند ٹکوں کی خاطر نہ بکنے والے وکلاء سے درخواست کروں گا کہ آج ہی وہ فیصلہ کر لیں کہ اس پاک وطن کی سالمیت کی جانب بڑھنے والے، ''کلبھوشن یادیو پر اپنی زبان بند رکھنے والے‘‘ اور ممبئی حملے کے فوری بعد اجمل قصاب کی مکمل تاریخ اور گھر کا پتا بتانے والے‘ انٹرنیشنل میڈیا کو باخبر کرنے کے لیے ترتیب دیئے جانے والے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ابابیل بننا ہے یا ان سیاہ ہاتھیوں کا چارہ بننا ہے؟ نوجوان وکلاء مت بھولیں کہ ایک ہاتھی کی روزانہ خوراک کا حجم کیا ہوتا ہے اور یہاں نجانے کتنے ہاتھیوں کو قابو کیا جا چکا ہے؟ یاد رکھئے آج محمد علی نیکوکارا اور شارق کمال نوجوان نسل کے آئیڈیل ہیں نہ کہ ایسے لوگ جن کا نام سن کر ہی لوگ منہ پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں ۔
بد قسمتی یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں اس ملک میں ایک صاف اور شفاف نظام حکومت کیلئے کوششیں کرنا تھیں‘ ان میں سے ہی کچھ لوگ حکمرانوں کے جال میں پھنس کر اس ملک کی تقدیر سے بددیانتی اور کرپشن کا نام و نشان مٹانے کیلئے شروع کئے گئے جہاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ کیا جاتی امرا کے شہنشاہ کے ایجنڈے کی تکمیل میں ہراول دستہ بننے والے سیاستدان اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر قسم کھائیں گے کہ وہ جن کے کہنے پرمہم چلانے کیلئے تیار ہو چکے ہیں‘ وہ ایماندار ہیں، انہوں نے اس ملک کے وسائل کو نہیں لوٹا، اس قوم کے ٹیکسوں سے حاصل کی گئی دولت میں کوئی کرپشن نہیں کی‘‘۔ چند ہفتے قبل ایک ٹی وی پروگرام میں ایک فنکارہ کھلے عام میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے برملا کہہ رہی تھی'' کہ وہ اگر کھاتے ہیں‘ تو لگاتے بھی ہیں‘‘۔
یقین کیجئے کہ میں نے ''کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں‘‘ کا یہ جملہ ایک بار نہیں بلکہ سینکڑوں لوگوں کو کہتے ہوئے سناہے اور مسلم لیگ نواز کا میڈیا سیل بھی اس فقرے کو وائرل کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ اس قوم کی نئی اور آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے چند مجاہد اپنی جان ہتھیلی پر رکھے‘ اپنے خاندان کی زندگیوں کو دائو پر لگائے جس جہاد میں مصروف ہیں اس کا بھرپور ساتھ دینے کیلئے پاکستان کی نئی نسل کو اس سپرٹ اور ولولے کے ساتھ کرپشن کے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ''کلبھوشن یادیو کے یاروں‘‘ اور اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہ نکالنے والوں کے خلاف باہر نکلنا ہو گا۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا کو ا س ملک و قوم کی سرحدوں کے محافظوں کا ساتھ دینے کیلئے سر بکفن ہو کراپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ورنہ یاد رکھنا! آپ کا پھولوں سے مہکتا ہوا ''گلدان توڑنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں‘‘ ۔