گزشتہ روز سمندری میں سابق وزیراعظم‘ جناب نواز شریف نے اتنے بڑے اجتماع سے خطاب کیا کہ کوئی کیمرہ مین‘ پورے ہجوم کی تصویر نہیں دکھا سکا۔ شاید لوگ کہیں اور بیٹھے تھے۔ تقریر کہیں اور ہو رہی تھی۔ میاں صاحب نے بتایا ''عدالت میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ میں نے تین مرتبہ قوم کی خدمت کی۔ کسی سے ڈرے بغیر ایٹمی دھماکے کئے اور آج پاکستان ایٹمی قوت بن چکا ہے‘‘۔ یہ ایٹم بم دو سچے پاکستانیوں نے ہزاروں سائنس دانوں کی مدد سے مکمل کیا۔ بھارت نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو مہینے سے بھی کم وقت میں‘ پاکستان نے اپنے ایٹم بموں کے دھماکے کر ڈالے۔بھارت نے چار دھماکے کئے تھے تو پاکستان نے ایک زیادہ بم چلا ڈالا۔ ایٹم بم کی تاریخ یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یورپ کی جس لیبارٹری میں کام کیا تھا‘ وہاں سے ابتدائی فارمولا حاصل کر لیا۔ پاکستان آکر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کے سامنے تجویز رکھی کہ اگر آپ تمام سہولتیں فراہم کر دیں تو میں پاکستان کے لئے ایٹم بم بنا سکتا ہوں۔ بھٹوصاحب نے فوراً اجازت دے دی۔ تمام وسائل فراہم کئے گئے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند جو کہ پہلے ہی سے‘ سائنسی تجربات میں مصروف تھے‘ کو یہ ذمہ داری ملی۔ بنیادی فارمولا وہی تھا جو ڈاکٹر عبدالقدیر لے کر آئے تھے۔ اس فارمولے کو سامنے رکھ کر مقامی سائنس دانوں کی پوری ٹیم نے‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی قیادت میں‘ دن رات ریسرچ اور تجربوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس بم کی تیاری میں سابق صدر غلام اسحاق خان نے‘ سائنس دانوں کو ہر قسم کی سہولتیں فراہم کیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایٹم بم بنانے کے عمل میں‘ کسی دوست یا دشمن ملک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی۔
لیکن ہمارے محبوب لیڈر‘ جناب نواز شریف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایٹم بم میں نے چلایا۔ ملک کے اندھیرے میں نے دور کئے۔ قرض اتارو ملک سنوارو سکیم جاری کر کے‘ ہزاروں خاندانوں کا ''روزگار‘‘ لگایا۔ موٹر وے میں نے ایجاد کی۔ کسانوں کو میں نے ''خوش حال‘‘ کیا۔ سکولوں کی عمارتیں میں نے بنا کر دیں‘ جہاں بچوں کے داخلے ابھی تک شروع نہیں ہو سکے۔ لیکن یہ سب چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں۔ اصل میں جو ''بڑا کام‘‘ انجام دینے کے دعوے کر رہے ہیں‘ وہ ہوش و حواس اڑا دینے کے لئے کافی ہیں۔ دعویٰ یہ ہے ''جو راستے میں آیا‘ نیست و نابود کر دیں گے‘‘۔ عصر حاضر کے عظیم لیڈر نے اپنے حامیوں کے سوا‘ پاکستان کی باقی ساری آبادی کو نیست و نابود کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس دعوے کے پیچھے بہت بڑی اور عظیم تباہی لانے کے ارادے سامنے آئے۔ انہوں نے اپنے مخالفین کو نیست و نابود کرنے کا بروقت اعلان کر دیا ہے۔ انتخابات نزدیک ہیں اور اگر عدالتی فیصلہ قائم رہا تو پھر شایدہی کوئی پاکستانی شہری زندہ سلامت رہ سکے۔ پاکستان کی غالب آبادی میاں صاحب کی حامی نہیں رہ گئی۔ ہمارے ملک میں موجود باقی ساری خلق خدا‘ شیروں کا لقمہ بنے گی۔ ہمارے یہ عظیم لیڈر‘ ہٹلر سے بھی زیادہ بڑا کارنامہ انجام دیں گے۔ میاں صاحب کے دیرینہ دوست چودھری نثار ان سے علیحدہ ہو کر‘ سیاست کرنے پر تل گئے تھے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد‘ انہیں سمجھ آگئی کہ شیر کے ہاتھوں سے مرنے کے بجائے‘ اس کے جبڑوں میں آکر جان دینا زیادہ بہتر ہو گا۔ آخر شیر‘ چودھری صاحب کا پرانا ساتھی ہے۔ ہو سکتا ہے رحم آنے پر شیر اپنے دیرینہ دوست کا لحاظ کر جائے اور اس کو دانتوں میں کچلنے کے بجائے پورے کا پورا‘ معدے کے اندر محفوظ کر لے۔ دیرینہ دوستی کا یہی تو فائدہ ہوتا ہے۔ شیر جب اپنے مخالفین کو نیست و نابود کر ر ہا ہو تو‘ ہو سکتا ہے عین اسی لمحے‘ شیر جی کو اپنے دیرینہ دوست پر ''رحم‘‘ آ جائے۔ شیر کوئی ہڈی پسلی توڑے بغیر اسے ہضم کر لے۔ زندگی کا ایسا شاندار انجام قسمت والوں کے نصیب میں ہوتا ہے اور دنیا میں دوستی کی ایک ''نئی مثال‘‘ قائم ہو جائے گی۔
شیر صاحب اپنے مقابلے پرآنے والوں کو نیست و نابود کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے ''ووٹ کی عزت بذات خود بحال کریں گے‘‘۔ ان کے دشمن نہیں جانتے کہ وہ پیچھے ہٹنے والے بندے نہیں ہیں۔ وہ ''مقابلہ‘‘ کرتے رہے ہیں اور کرتے ہی رہیںگے۔ زرداری کے شرم ناک کردار کا تماشا دیکھنے کسی شاندار تھیٹر میں گھس جائیں گے ۔ زرداری صاحب کے شرم ناک کردار سے‘ نہ صرف خود لطف اندوز ہوں گے بلکہ
اپنے مخلص کارکنوں اور پرستاروں کو بھی موقع فراہم کریں گے۔ اگر شیر صاحب کہیں غصے میں آکر ہال کے اندر بیٹھے انسانی گوشت کا ساراڈھیر کھانے کا ارادہ کر لیں تو پھر ان کے پرستار کیسی موت سے دوچار ہوں گے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیر صاحب‘ مخالفین کے گوشت اور ہڈیوں سے شکم پری کرنے کے بجائے‘ پاکستان کے ہر شہر میں انسانی جسم کے تکے کباب کی دکانیں کھول کر بیٹھ جائے۔ پھر تصور کریں کہ وہ کیسے کیسے انداز سے شکم پری کرے گا؟ اگر کسی نے غضب کی حالت میں شیر صاحب کو‘ اپنے پرستاروں پر چھوڑ دیا تو پھر کیا ہو گا؟ شیر صاحب نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ ''وہ اپنے شاہی تاج و تخت کے مطابق‘ ووٹ کی عزت بحال کریں گے‘‘۔ صرف ایک چیز کا خطرہ ہے کہ ووٹ کی عزت بحال کرنے کے جوش میں‘ کہیں ووٹرز کو ہی نہ کھا جائیں۔ میری دعا ہے کہ شیر صاحب کا موڈ بدل جائے اور واہگہ بارڈر پار کر کے وہ‘ بھار ت کے اندر داخل ہو جائیں تو پھر موجیں ہی موجیں۔ آدمی ہی آدمی۔ دیگیں ہی دیگیں۔الیکشن لڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بھگوانوں کے پجاریوں سے شکم پری کریں اور صدیوں تک ہندو کھانے بڑے اہتمام سے کھائیں اور ڈکار بھی نہ لیں۔ ایسے شیر کہاں ملتے ہیں؟ ایسے دشمن کہاں نصیب ہوتے ہیں؟ میاں صاحب کو تو شیر کی خوراک چاہیے۔ دو چار برس میں وہ سارے شیر ختم کر لیں گے اور اپنے برادرِ خورد برد کے لئے‘ شیرنیاں چھوڑ دیں گے۔ میاں صاحب نے اپنا جو بغل بچہ‘ وزارتِ عظمیٰ میں کھلا چھوڑ دیا ہے‘ آج اس نے صاف بتا دیا کہ کون نواز شریف؟ وزیراعظم میں ہوں۔