تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-04-2018

خشکی کے آنسو

آپ انھیں خوشی کے آنسو کہہ لیں۔ ٹَسوے یا پھر مگر مچھ کے آنسو۔ آنسوئوں کی اس برسات میں کبھی خوشی کبھی غم۔ کبھی خشکی کبھی نَم۔ صحیح طرح سے معلوم نہیں ہو سکا‘ یہ کس کیفیت کے آنسو ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ آپ ان آنسوئوں کو سُرخرو ہونے کے آنسو کہنا چاہیں۔ نااہل شریف کی خاندانی سرخروئی تہہ در تہہ ہے یا پے در پے...؟ اس کا فیصلہ بھی آپ کو ہی کرنا ہو گا۔ ابھی کل کی تو بات ہے، کچھ گستاخ، نا ہنجار منہ پھٹ ظلِ الٰہی کے سامنے حساب مانگنے کو کھڑے ہو گئے۔ سرکاری میک اپ، سرکاری شیروانی اور اتالیق بٹالین کی نگرانی میں سرکاری ٹی وی سے ریکارڈ شدہ خطاب نشر ہوا‘ جسے دیکھ اور سن کر پورے ملک میں آنسوئوں کا سمندر امنڈ پڑا۔ کیا دیانت دار شخص ہے جس پر پاناما کا طعنہ مارا گیا۔ اس کی غیرتِ ایمانی نے برداشت نہ کیا۔ چنانچہ چھوٹے غیرت مند کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک کی آخری عدالت سے ''کمیشن‘‘ مانگ لیا۔ اس طرح پورا خاندان پہلی مرتبہ سُرخرو ہوا۔ دونوں بھائیوں کی جیبوں میں خوشی کے آنسو چھلک پڑے۔ چھوٹا بولا: خدا کی قسم آج بھاء جی سُرخرو ہو گئے۔ ساتھ ہی چھوٹے کا سب سے چھوٹا کہنے لگا: کہاں ہے فلیٹ، ثبوت ہے تو سامنے لائو۔ پھر جس دن چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے بینچ نمبر ایک میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا عندیہ دیا‘ تب نا اہل شریف دوسری بار سُرخرو ہو گئے۔ میں نے عمران خان اور دوسری لیڈرشپ کو اے جی، کے پی کے‘ کے کمرے میں تجویز دی: آپ پارٹی سے مشاورت کے لیے دو دن کا وقت مانگ لیں۔ اسی تجویز پر مبنی درخواست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی؛ چنانچہ وقت مل گیا۔ دوسری جانب دو دن میں آزاد میڈیا نے کمیشن بنانے کی تجویز کی ''لانڈرنگ‘‘ کر کے رکھ چھوڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ منی ٹریل کی تلاش میں پاناما کا ٹرائل چل پڑا۔ اس مرحلے پر نا اہل شریف ایک بار پھر سُرخرو ٹھہرے۔ انھوں نے لکھ کر دے دیا کہ بطور وزیر اعظم وہ استثنیٰ کلیم نہیں کرتے‘ سپریم کورٹ کے اختیارِ سماعت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔ اگرچہ میں نے اکنامکس میں ماسٹرز کرتے وقت سَٹیٹ، میتھ، اکانومیٹرکس و غیرہ پڑھ رکھے ہیں‘ لیکن آنسوئوں کے سمندر میں سُرخروئی کی گنتی کے موتی گننے کا خوشگوار فریضہ آپ کے ذمہ ہے۔ 
ایک دفعہ پھر جپھیوں اور مٹھائیوں والا دور چلا۔ نا اہل شریف کی قیادت میں آلِ شریف سُرخرو ٹھہرے‘ اور جپھی یا مٹھائی نہ چلے یہ نا ممکن ہے۔ چاروں طرف سے امید کے سوداگر اکٹھے ہوئے۔ ظلِ الٰہی کو یقین دلا دیا‘ یہ نظام اور آپ کا احتساب۔ کون مائی کا لال اس کی جرأت کر سکتا ہے؟ آپ کو یاد ہو گا‘ اسی مرحلے پر نا اہل شریف نے احتساب کا مطالبہ کرنے والوں پر ان لفظوں میں پھبتی کسی تھی۔ ''یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔ اس کے بعد عالی شان سلطان کے مُشیرانِ رازداران نے اُن سے اسمبلی میں تاریخی خطاب کروایا۔ آنسوئوں میں رِندھی ہوئی آواز۔ ساتھ لالہ سدھیر خان والا انداز۔ تین ایکٹ کے اس پلے میں لانگری بٹالین کا سکرپٹ۔ ایاز صادق جیسے خود مختار سپیکر کے سامنے منی ٹریل کی دستاویزات جمع کروانے کا اعلان‘ جس کا کلائمیکس اب تو یوں محاورہ اور تاریخ کا حصہ بن چکا ہے: جنابِ والا ''یہ ہیں وہ وسائل اور ذرائع۔ جو میرے ابا جی نے کمر باندھ کر ہیں کمائے۔ خود فرمائیے اتنی صاف ستھری منی ٹریل کو کون چھپائے‘‘۔ پردہ گرنے سے پہلے ظلِ الٰہی کے درباریوں نے تینوں ایکٹ پر داد و تحسین کے خوب ڈونگرے برسائے۔ راوی سٹریٹ والے سویٹ ہائوس والا راوی کہتا ہے: اس المیہ پرفارمنس نے ملک بھر میں ایک دفعہ پھر مٹھائی کی دکانیں خالی کروا دیں۔ پاناما فیصلے والے دن، جے آئی ٹی کی تشکیل کے اعلان پر۔ بلکہ آج تک پاناما کیس کے ہر مرحلے پر دو روایتی کام ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ نا اہل شریف اینڈ کمپنی والی آنسوئوں کی برسات اور سُرخرو ہونے کی خوشی میں بٹنے والی مٹھائی کی خیرات۔ اللہ، اللہ کر کے اب سرخروئی کے اس مٹھائی سوپ سیریل کے چند آخری ہفتے آن پہنچے ہیں۔ ساتھ ہی دعوت نامے کے بغیر خٹک صاحب کی طرح کورٹ رپورٹنگ کے لیے احتساب عدالت پہنچنے والے رپورٹروں کی خاطر مدارت بھی۔ کون نہیں جانتا‘ سرکاری خرچ پر غلط اطلاعات، ٹکرز اور بریکنگ نیوز کے لیے وزارتِ نشریات زیرِ استعمال ہے۔ منی لانڈرنگ کا کوئی گواہ چاہے عدالت میںکچھ کہے‘ میڈیا میں وہی کہانی چلے گی‘ جسے واٹس ایپ رانی کی آشیرباد ملے گی۔ 
پھر بھی آئی ہوئی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اس ہفتے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت ملزموں سے تین بنیادی سوالات ہوں گے۔ ان سوالوں کی شانِ نزول قومی احتساب بیورو آرڈیننس مجریہ 1999ء کی دفعہ (14) ذیلی دفعہ (6) ہے۔ 
پہلا سوال : ملزموں کی اس دور میں ڈیکلیئر شدہ آمدنی کیا تھی‘ جب سات سمندر پار اربوں روپے کے اثاثے بنائے گئے؟ 
دوسرا سوال : اثاثے خریدنے کے لیے منی ٹریل اور ذرائع آمدن بتا دیں؟ 
تیسرا سوال : 1990 ء کے عشرے میں ملزموں میں سے کون کون کتنا ٹیکس دیتا تھا‘ اور کس نے مغلیہ طرزِ زندگی کو شغلیہ کمائی کی بنیاد پر تعمیر کیا؟ 
یاد رکھنے والی باریک بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے دونوں بنچ Non Adversorial یعنی غیر مخالفانہ/ تحقیقی کارروائی کرتے رہے ۔ جب کہ جے آئی ٹی نے تفتیشی (Investigative) نوعیت کے سوالات اُٹھائے ہیں ۔ ان مقدمات کی نوعیت کے پیشِ نظر استغاثہ پر ابتدائی بوجھ(Initial Burden) یہی تھا ۔ اس اصولِ قانون کو اسفند یار ولی خان بنام فیڈریشن آف پاکستان کیس رپورٹ شدہPLD . 2001 SUPREM COURT صفحہ 607 میں ڈسکس کیا گیا ہے۔ میں اس مقدمے میں بے نظیر بھٹو شہید کا وکیل تھا ۔ جس کی سماعت سپریم کورٹ کے بڑے بینچ نے کی۔ نا اہل شریف اینڈ کمپنی کے ٹرائل میں گواہوں نے اسی اصول کے تحت بیان قلم بند کروائے۔ دفعہ 14(6) کی رو سے یہ گواہی ایک قسم کا شو کاز نوٹس ہوتا ہے‘ جس کا مقصد ملزم یا ملزمان کو بتانا ہے کہ وہ ڈیکلیئر شدہ اثاثے، ذرائع آمدن، منی ٹریل اور ملکیت کے ثبوت پیش کریں۔ ایسے ثبوت جن سے طے ہو کہ ان کا مقدمہ(living Beyond Means) یعنی آمدنی سے زیادہ عیاشی والی زندگی کے زمرے میں نہیں آتا۔ میں جان بوجھ کر استغاثہ کی پیش کردہ گواہی کے میرٹس پہ تبصرہ نہیں کر رہا‘ لیکن یہ جاننا آپ کا حق ہے کہ اب بارِ ثبوت(Burden Of Proof) قانونی طور پر ملزم کے کندھوں پر شفٹ ہو چکا ہے۔ قانون کی زبان میں ملزم اس بوجھ کو شہادتِ صفائی کے ذریعے ڈسچارج کرے گا۔ ذرا خود سوچئے! شہادتِ صفائی کی زنبیل میں 2 عدد قطری خط، مجھے کیوں نِکالا‘ لانگ مارچ، ووٹ کو عزت دو کی تحریک، بحالیٔ عدل کا جذبہ، دور دیس کی انگلش اور عربی سفارشوں کی اُمید کے علاوہ کچھ اور بھی چھپا ہوا ہے...؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو خشکی کے آنسو یا بھاڑے کے ٹَٹُو کتنا بڑا طوفان برپا کر سکتے ہیں۔
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چُور
ضبطِ گریہ سے پڑ گئے ناسُور
شکوۂ آبلہ ابھی سے میرؔ!
ہے پیارے ہنوز دلیّ دُور

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved