اپنی کل مدت کے خاتمے سے صرف 55 دن پہلے موجودہ نیم حکومت نے جس مالیاتی ایمنسٹی کا اعلان کیا ہے وہ دراصل حکومت کی اقتصادی بحران سے جنم لینے والی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ مسلم لیگ تاریخی طور پر اس ملک کے حکمران سرمایہ دار طبقے کی روایتی جماعت رہی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے مختلف کلیدی پالیسی ایشوز پر نواز لیگ کے حکمرانوں کے دوسرے دھڑوں سے تضادات جب تنازعات کی شکل اختیار کر گئے تو نواز شریف کی چھٹی ہو گئی‘ جو اس کی جماعت اور اس کی حکومت کے لئے بہت بڑھ جھٹکا ثابت ہوئی۔ نواز شریف کے بغیر نواز لیگ کی حکومت پر دبائو‘ اور اختیارات ثابت کرنے کا عمل اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ یہ حکومت بے بس اور لاغر ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی حکومتی رِٹ سکڑ کر محض پٹواریوں کی سطح پر معلوم ہوتی ہے۔ اس کی اوقات یہ بنا دی گئی ہے کہ لائسنس منسوخ ہونے کے بعد بھی چینل آپریٹروں کے نیٹ ورک مسلسل چل رہے ہیں۔ نواز لیگ حکومت پر دوسرا دبائو اس سرمایہ دار طبقے کا ہے‘ جس کی اس نے نمائندگی کرنا تھی۔ اس کے مفادات کے لئے بہت سے نجکاری جیسے اقدامات کرنے تھے۔ لگتا ہے کہ اس حکومت کے بحرانی دور میں ان کے مقاصد پورے نہیں ہوئے اور متبادل گھوڑوں پر دائو لگانا شروع کر دیا گیا ہے۔ اس خوف سے چند ہفتوں کی مہمان اس حکومت نے کچھ دلاسے کے لئے اس مالیاتی ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا ہے۔
اس سکیم کے تحت صرف دو فیصد ''جرمانے‘‘ کی ادائیگی سے وہ بیرون ملک کالا دھن واپس لا کر اس کو یہاں مکمل تحفظ
کے ساتھ رکھ بھی سکتے ہیں اور اس کے استعمال اور سرمایہ کاری سے منافع خوری اور استحصال کی کھلی چھٹی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب جس تیزی سے پاکستان کے بیرونی زرِ مبادلہ کے ذخائر گر رہے تھے اس کی تشویشناک صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ ''بلائینڈ‘‘ کھیلی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر باہرکالے دھن کے پکڑے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے تو پھر بھی بہت سے ایسے آف شور کمپنیوں کے جزائر اب بھی موجود ہیں جہاں یہ لوٹا ہوا مال سنبھالا جا سکتا ہے؛ تاہم واپس لانے سے اگر ان کو تحفظ زیادہ ملنے اور مزید چھوٹ حاصل کرنے کا موقع ملے گا تو یہ اس سرمائے کا کچھ حصہ واپس بھی لا سکتے ہیں‘ لیکن اس سرمائے کے آنے سے یہ غریبوں کی خیرات میں بٹ نہیں جانا۔ اس کا استعمال مزدوروں کی محنت کا خون پسینہ سستے داموں خرید کر غریبوں کے لئے اشیا کو مہنگا کرنے کی صورت میں ہی ہو گا۔ اس طرح وہ زیادہ منافع خوری کی کوشش کریں گے۔ ویسے تو ملک میں پہلے بھی کالے دھن کی بھرمار ہے۔ سرمایہ داری کے اقتصادی ماہرین کے مطابق کالی معیشت پاکستان کی کل معیشت کا 73 فیصد ہے۔ یہ آج بھی ٹرانسپورٹ، ریئل اسٹیٹ ، سروسز‘ ابلاغیات کے اداروں اور دوسرے ایسے شعبوں کی واشنگ مشینوں میں 'سفید‘ کیا جا رہا ہے‘ جہاں تیز سرمایہ کاری اور فوری منافعوں کے ساتھ ساتھ یکدم خرید و فروخت اور منتقلی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ یہی کالا دھن اوپر سے نیچے تک کاروبار، سیاست، ریاست اور معاشرے میں حاوی ہے اور اہم ترین فیصلے اور سماجی رجحانات کو اپنے مقاصد اور تحفظ کے لئے استوار کرواتا ہے۔ اس کے بڑے بڑے ٹائیکون سینیٹ کے الیکشن سے لے کر پارٹیوں میں عہدوں اور ٹکٹوں کی تقسیم تک کی منڈیاں اور بولیاں لگاتے ہیں۔ اس لئے اس بحرانی سرمایہ دارانہ معیشت میں سب سے بڑا آسرا یا ''بفر‘‘ ہی کالا دھن ہے۔ باہر سے آیا ہوا مزید کالا دھن اس کو صحت مند خون نہیں دے سکے گا۔ بلکہ اسی کینسر کا پھیلاؤ ہو گا جو پہلے سے ایک ناسور کی طرح اس معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور موت دے رہا ہے۔ اس زرِمبادلہ کی کل رقوم کے تیزی سے گرتے ہوئے حجم کے لئے روپے کی
قیمت میں کمی کی گئی ہے۔ اس سے برآمدات میں تو کچھ اضافہ ہو گا جس سے مقامی سرمایہ دار ہی فائدہ اٹھائیں گے‘ روپے کی قیمت میں مزید کمی شاید ناگزیر ہوتی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں درآمدی اشیا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان ابھر رہا ہے۔ جہاں درمیانے طبقے کی گاڑیاں اور ایئرکنڈیشنرز کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا وہاں پیداوار اور ترسیل کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھیں گی۔ ان سے بنیادی ضروریات تک عام انسانوں کی رسائی مزید اذیت ناک صورت اختیار کر جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا موضوعی بحران اس طرز کے کردار میں بدل چکا ہے کہ اب سرکاری یا بالا دست طبقات کی معاشی شرح نمو کے اضافے سے عام لوگوں کے لئے کوئی بہتری نہیں آئی اور حالاتِ زندگی سہل نہیں ہوئے بلکہ جدید ریسرچ تو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں کی شرح نمو میں اضافہ عام لوگوں کے لئے مہنگائی اور غربت میں اضافے کا باعث بننا شروع ہو گیا ہے۔
پھر اسی حکومت کے وزیر نجکاری دانیال عزیز نے کچھ عرصہ پہلے بڑے سرکاری اداروں کی نجکاری کا شوشہ چھوڑ ا تھا۔ اب یہ بھدا مذاق بن گیا ہے۔ موجودہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے تو یہ تک کہہ دیا کہ جو کوئی بھی پی آئی اے خریدے گا اس کو ہم سٹیل ملز مفت میں دے دیں گے۔ بعد میں اس نے بات کو ''مذاق‘‘ کہہ کر ٹال دیا۔ لیکن یہ مذاق نہیں تھا ۔ جب ریاستی سرمایہ داری کا بحران شدت اختیار کرتا ہے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری اداروں سے سرمایہ دارانہ حکومتیں جان چھڑانے اور خساروں سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی بھی اقدام سے اجتناب نہیں کرتیں ۔ 1980ء کی دہائی میں رجعتی اور عوام دشمن برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے ''برٹش ٹیلی کام‘‘ جیسا دیوہیکل ادارہ صرف ایک پونڈ میں بیچ دیا تھا۔ ان اداروں کے ساتھ پھر سرمایہ دار پلاٹنگ کریں یا ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے سکریپ کے طور پر بیچیں‘ ان کو کو ئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا۔ یہ موجودہ نیولبرل سرمایہ داری کا لازمی انجام ہوتا ہے۔
المیہ ہے کہ پیپلز پارٹی سے لے کر جماعت اسلامی تک اور پی ٹی آئی سے لے کر مسلم لیگوں تک سبھی اسی معاشی منشور پر سیاست کر رہے ہیں اور اقتدار کے حصول کی تگ و دو میں ہیں بس پارٹیوں کے فنانسر بدل جاتے ہیں۔ جس پارٹی کو سامراجی اور مقتدر قوتیں اقتدار میں لانا چاہیں اسی پارٹی پر دائو اور سرمایہ لگتا ہے ۔ ایسے میں آج یہ نظام زر جس نہج پر پہنچ چکا ہے‘ سیاسی میدان میں کوئی بڑی پارٹی اقتدار میں آ جائے یا مخلوط حکومت بن جائے وہ عوام دشمن پالیسیوں کو ہی لاگو کرے گی۔ موجودہ نواز لیگ کی حکومت اور خصوصاً شہباز شریف نے ترقی کے جو بڑے بڑے منصوبے بنا کر دکھائے ہیں‘ ان کی وجہ سے بیرونی قرضے بڑھ کر 89.4 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ اتنی بھاری سرمایہ کاری بھی عوام کو کوئی سکھ اور چین نہیں دے سکتی۔ محرومی‘ غربت‘ لا علاجی‘ ناخواندگی اور بے انصافی میں صرف اس لئے اضافہ ہوا ہے کہ عوام کے پاس ان کے حصول کے مالیاتی وسائل نہیں ہیں۔ ایسے میں کم از کم یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ترقی کے تمام تر شور شرابے اور بھاری قرضوں سے تعمیرات کے باوجود عوام کا معیار زندگی بہتر ہونے کی بجائے مزید تلخ ہوا ہے۔ یہ نظام امیروں کی چھوٹ اور غریبوں کی محنت لوٹنے کے اصولوں اور ڈھانچوں پر ہی استوار ہے۔ اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ اب جو نظام معاشرے کی اشتراکی زندگی کو اذیت ناک بنا رہا ہے‘ اس کا وجود ہی زہر قاتل ہے۔ اس کو یکسر تبدیل کیے بغیر عوام کی بھاری اکثریت کی خوشحالی، ترقی اور ذلتوں سے نجات ممکن نہیں ہے۔