\"TWITTER\"…… جہاں آپ چہچہاتے ہیں کیونکہ ٹوئیٹ کرنا دراصل چہچہانا ہے لیکن کچھ لوگوں کو چہچہانے اور بھونکنے میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ بھونکنے والوں کی بھونکار سے قافلوں کی رفتار متاثر نہیں ہوتی بلکہ غوغائے سگاں جرسِ کارواں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر سماعتوں کا لطف دوبالا کر دیتا ہے۔ خود ذاتی طور پر میں جب کسی آوارہ یا پالتو ’’ڈبُّو‘‘ کی دم پر پائوں رکھوں تو تب تک مزہ نہیں آتا جب تک وہ چانگڑیں نہ مارے۔ بھونکار اور تنقید میں فرق ہے کہ غیر متعصب غیر جانبدار تنقید کے پیچھے تعمیر ہوتی ہے اور ہر پڑھا لکھا اس کی مختلف اقسام میں بہ آسانی تمیز کر سکتا ہے۔ جو یہ سب جانتے ہیں ان سے معذرت کے ساتھ‘ جو نہیں جانتے ان کی خدمت میں مختصراً عرض ہے کہ تنقید مبنی بر سچائی نہ ہو تو…… اس کی پروا نہ کرو بدنیتی پر مبنی ہو تو…… غصہ نہ کرو جہالت پر مبنی ہو تو…… اس پر ہنس دیا کرو لیکن اگر تنقید منصفانہ ہو تو… اس سے سیکھو کیونکہ جو لوگ جینوئین تنقید برداشت نہیں کر سکتے وہ کسی تعریف کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ایک حکایت یاد آ رہی ہے جو اس امید کے ساتھ اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس حکایت کی روشنی میں اپنے معاشرہ کے ’’حقیقی سیاسی زمینی حقائق‘‘ کا جائزہ لیں۔ کوئی گیانی مہاتما جہاں نوردی کرتے کرتے کسی شہر کی طرف آ نکلے اور شہر کے مضافات میں کسی گھنے درخت کے نیچے دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ چند ماہ گزرنے کے بعد عقیدت مندوں کی تعداد خاصی بڑھ گئی جن میں شہر کا اک بہت بڑا سیٹھ بھی شامل تھا۔ سادھو جی صرف ایک لنگوٹی میں ننگے جسم‘ ننگے پائوں مست رہتے تھے سو ایک دن ساہو کار نے ایک بیش قیمت طلائی جوتا سادھو کی بھینٹ کیا تاکہ زمین کی گرمی‘ کانٹے کنکر سے سادھو مہاراج کے پائوں محفوظ رہیں۔ سادھو تحفہ دیکھ کر مسکرایا اور بولا: ’’سیٹھ جی ہمیں جوتا لینے سے تو انکار نہیں لیکن جوتا بیحد قیمتی اور شاندار ہے۔ ننگے بدن کے ساتھ پہنوں گا تو اس کی خوبصورتی کو بٹّا لگے گا۔ اس جوتے کے ساتھ اس کے شایان شان بیش قیمت پوشاک بھی لازمی ہے‘‘ سیٹھ جی نے سادھو کے ہاتھوں کو عقیدت سے چومتے ہوئے کہا: ’’حکم کی تعمیل ہوگی‘ پوشاک بھی آ جائے گی‘‘ سادھو مہاراج بولے ’’اتنی قیمتی پوشاک اور جوتے کے ساتھ ہاتھ میں عمدہ چھڑی نہ ہو تو بات نہیں بنے گی‘‘۔ ’’بالکل صحیح‘ چھڑی بھی حاضر ہوگی جس پر ہاتھی دانت کا کام ہوگا اور مُٹھ سونے کی ہوگی‘‘۔ مہاتما نے توقف کیا‘ مسکرائے اور کہا…… ’’ایسے حال حُلیے میں پیدل پھرنا تو بہت ہی ناموزوں و نامناسب ہوگا اور عجیب سا لگے گا‘‘۔ ’’فکر کاہے کی؟ ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا مع سازو سامان بھی خدمت میں پیش کردیا جائے گا‘‘ ساہوکار سیٹھ نے پُرجوش انداز میں کہا تو مہاتما نے فرمایا: ’’بہت خوب‘ لیکن گھوڑے کی سیوا کون کرے گا کہ ہمیں تو دھیان گیان سے ہی فرصت نہیں‘‘۔ بے شک سوامی جی! تجربہ کار ملازم کا بندوبست بھی ہو جائے گا‘‘ سیٹھ نے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے جواب دیا تو سوامی نے سر کھجلاتے ہوئے فکر مندی سے کہا: ’’لیکن نوکر کی تنخواہ‘ گھوڑے کے اخراجات جیسے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟‘‘ سیٹھ نے ترنت کہا…… ’’آپ کی کرپا سے پرماتما نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ کچھ زمین آپ کے نام کر دوں گا جو تمام اخراجات کے لیے کافی ہوگی‘‘۔ ’’تو اس صورت میں تو اک پریوار بھی ہونا چاہیے‘‘ ’’کیوں نہیں سوامی جی! شادی بھی ہو جائے گی‘‘ ’’تب بھگوان کی کرپا سے بچے بھی ہوں گے‘‘ سادھو نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر جواب دیا۔ سیٹھ نے کہا…… ’’بے شک اس میں کیا شبہ ہے‘‘ تب سوامی نے آخری سوال پوچھا‘ ’’پریوار میں سے کوئی مر گیا تو سیٹھ جی! روئے گا کون؟‘‘ ’’رونا تو آپ ہی کو پڑے گا سوامی جی‘‘ سیٹھ نے کنفیوژ ساہوکر ہکلاتے ہوئے جواب دیا تو سوامی جی نے کہا۔ ’’بھائی! اتنے بڑے جنجال میں پھنسانے والا جوتا ہی واپس لے جائو کہ نہ یہ جوتا ہوگا نہ مجھے رونا پڑے گا‘‘ ’’مسافروں‘‘ کو اک حد سے زیادہ سامان زیب نہیں دیتا کیونکہ سفر کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ ’’ٹریول لائٹ‘‘ سامان جتنا کم ہوگا سفر اتنا ہی آسان رہے گا لیکن ہمارا سیاستدان نہیں جانتا کہ آخر پر…… ’’رونا تو خود ہی پڑے گا‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved