کراچی سے ہمارے ایک مہربان شکور صاحب نے فون پر بتایا ہے کہ آپ نے کل والے کالم میں جو خواتین و حضرات لکھا ہے وہ محل نظر ہے کیونکہ خواتین کیلئے حضرات کا لفظ استعمال کرنا درست بھی ہے اور مستحسن بھی۔ جیسا کہ ہماری تہذیب اور تاریخ میں مستعمل چلا آ رہا ہے مثلاً حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت خدیجہ ؓ وغیرہ۔ اگرچہ اس میں میری لاعلمی کا بھی دخل موجود ہے تاہم چونکہ بالعموم ملے جلے حاضرین کو خواتین و حضرات کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے اس لئے غلط العام ہونے کی وجہ سے یہ غلط بھی صحیح ہو گیا ہے۔ میں شکور صاحب کا اس نشاندہی پر تہہ دل سے ممنون اور احسان مند ہوں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، آمین!
لیکن یہ بھی ہے کہ اگر آپ کسی خاتون کو حضرت کہہ کر پکار دیں تو وہ اور کچھ کہیں نہ کہیں آپ کی طرف ایک بار حیرانی سے ضرور دیکھیں گی بلکہ پکارنے اور مخاطب ہونے کے علاوہ کسی خاتون کو احتراماً حضرت لکھنے سے بھی رد عمل پیدا ہو سکتا ہے گویا ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے مثلاً حضرت کشور ناہید اور حضرت نوشی گیلانی‘ یا حضرات کشور ناہید و نوشی گیلانی کہنے یا لکھنے سے ایک عجیب اور دلچسپ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے حالانکہ اگر کسی بے تکلف خاتون کو یار کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے تو حضرت کہہ کر کیوں نہیں۔ پھر اس کا ایک اور مطلب بھی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ آپ تو بڑے حضرت نکلے، تاہم غالباً یہ صیغۂ جمع کے طور پر نہیں ہو سکتا یعنی آپ تو بڑے حضرات ہیں نیز یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ خواتین تو خواتین‘ اس پر مرد بھی اعتراض کر سکتے ہیں کہ ان کی برتری مجروح ہوتی ہے۔ اگرچہ انگریزی میں یہ امتیاز ضرور رکھا جاتا ہے اور حاضرین میں حاضرات بھی ہوں تو وہ لیڈیز اینڈ جینٹلمین ہی کہیں گے۔ اس کے علاوہ جہاں تک خاتون کو حضرت کہہ کر مخاطب کرنے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں اس کیلئے باقاعدہ تحریک چلانے کی ضرورت ہے اور جس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی جائے کہ یہ صحیح ہے کیونکہ خوف فساد خلق اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
تاہم شکور صاحب سے یہ پوچھنا تو بنتا ہے کہ کیا آپ بھی کسی خاتون کو حضرت اور خواتین کو حضرات کہہ کر ہی مخاطب ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو براہ کرم یہ بھی بتایا جائے کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے جبکہ نازک مزاج ہونا خواتین کا خاصا بھی ہے اور حق بھی۔ نیز اس میں ایک اور دقت بھی ہو سکتی ہے کہ میرے محدود بلکہ ناقص علم کے مطابق حاضر اور حضرت میں باہمی تعلق ہے اور جو خاتون یا خواتین حاضر ہوں‘ انہی کیلئے استعمال کیا جائے۔ ایسا نہیں کہ یہ غیر حاضر خاتون کیلئے بھی استعمال کیا جائے کہ حاضری اور حضوری بلاشبہ ہم معنی ہیں جیسا کہ سکول کے زمانے میں ہم پکارے جانے پر حاضر جناب کہا کرتے تھے (واہ، کیا زمانہ تھا)۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو لفظ حضرات بھی خاصا مشکوک لگتا ہے کیونکہ عربی زبان کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کے آخر میں ت لگانے سے وہ صیغہ جمع میں تبدیل ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا یہ ہے مثلاً حافظ سے حفاظ، جبکہ اسے حافظات لکھنے سے شاید اس کا جینڈر (جنس) ہی تبدیل ہو جائے، چنانچہ ایسا تو نہیں کہ حاضر کی جمع حضاض (بھی) ہو۔ یا جیسے کافر کی جمع کفار ہوا‘ کافرات نہیں۔ شکور صاحب یا کوئی اور صاحبِ علم اس ضمن میں رہنمائی فرما دیں تو مزید شکر گزاری کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ اہل زبان دوستوں کو حضرت کی بجائے حضّت کہتے بھی پایا گیا ہے بطور خاص جب آپ بالمشافہ گفتگو کر رہے ہوں، یہ بول چال میں بھی آتا ہے اور اختصار کے طور پر بھی۔ جبکہ جس طرح سپریم کورٹ کا کہا ہوا ہر لفظ آئینی ہے اسی طرح اہل زبان حضرات کو بھی یہ فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔ نیز یہ کہ حضور کا لفظ احترام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً بحضور یعنی ان کی یا آپ کی خدمت میں جسے مزید زور دار بناتے ہوئے بحضور فیض گنجور بھی لکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں شاہی قلع میں ایک حضوری باغ بھی ہے۔ وجہ تسمیہ معلوم نہیں، ماسوائے اس کے کہ اسے شاہانِ مغلیہ میں سے کسی نے تعمیر کرایا تھا۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
تلاش محو ہوئی، خدو خال سے بھی گئے
کچھ آئینے جو تری دیکھ بھال سے بھی گئے (اختر عثمان)
ویسے تو ہجر میں اُس کو بھی نہیں کوئی ملال
ویسے تو میں بھی پریشان نہیں دیکھنے میں (مقصود وفا)
جب سے دیکھا ہے کسی گل کو ضمیرؔ
خود کو گلدان کئے پھرتا ہوں
جشنِ ہجراں منا رہا تھا میں
رنگ میں بھنگ ڈال دی تو نے
اس لئے شور میرے چلنے سے ہوتا ہے ضمیرؔ
دور دیوار میرے ساتھ چلا کرتے ہیں (ضمیر طالب)
خواب میں ڈھونڈتا رہا ہوں پانی
نیند میں ہچکی لگی ہے مجھ کو (سید ازلان شاہ)
لکھا ہے اپنے نام سے اپنے ہی نام خط
مدت کے بعد اپنی خبر چاہتی ہوں میں (سبین سیف)
ہم کو ہماری نیند بھی واپس نہیں ملی
لوگوں کو ان کے خواب جگا کر دیئے گئے
جتنے ہم اپنے پاس تھے اتنے تو میں ابھی
جو ہم تمہارے پاس تھے کیا کر دیئے گئے
اک دوسرے پہ فرض کئے جا چکے تھے ہم
پھر ایک روز دونوں ادا کر دیئے گئے (عمران عامی)
کم ہے نزدیک کی نظر میری
دور کے خواب دیکھتا ہوں میں (سروقہ قریشی)
مر گئے ہم کسی آزار سے جاتے جاتے
دن ڈھلا تھا تری دیوار سے جاتے جاتے
ایک درویش ہی قامت سے کھڑا تھا، ورنہ
سارے نادم ہوئے دربار سے جاتے جاتے (خالد سجاد احمد)
اک سمندر ہے چار سو میرے
میں کہ اک گمشدہ جزیرہ ہوں (حافظ نعمان ساجد ، ملائیشیا)
آج کا مقطع
یہ ایسی اخوت ہے کہ شامل ہے ظفر بھی
لڑتے نہیں آپس میں طلبگار تمہارے