تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-04-2018

شکست و ریخت

ملک بدل رہا ہے؛ اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اپنی تاریخ سے کوئی سبق ہم نے سیکھا ہے یا نہیں۔ اب بھی محض یہ اقتدار کی کشمکش ہے یا قومی ادارے تعمیر کرنے کی طرف بالآخر ہم مائل ہیں؟
وہ خبر آخرکار آ گئی‘ جس کا انتظار تھا۔ جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کے چھ ارکان نے شریف خاندان کو الوداع کہہ دیا۔ ابھی انہوں نے اپنا علیحدہ گروپ تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس امکان کو لیکن نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ بالآخر وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں یا اس کے ساتھ کسی طرح کی مفاہمت کر لیں۔ کیا وہ ایک الگ صوبے کی تحریک اٹھانے میں کامیاب رہیں گے؟ یہ تو واضح ہے کہ سرائیکی صوبے کی تائید پائی جاتی ہے۔ مسلسل وہ نظر انداز کیے گئے۔ بجا طور پہ ناراض ارکان نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کے علاوہ سول سروس اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں میں ان کا حصہ برائے نام رہا۔
الگ صوبے کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ صوبے کی تشکیل کوئی آسان چیز نہیں۔ اس کے لئے صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت درکار ہو گی اور آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔ سینیٹ میں اس کی نمائندگی کا اہتمام کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ کہ وہ پوری کی پوری سرائیکی پٹی پر مشتمل ہو یا کچھ خاص علاقے؟ اس کا مرکز بہاولپور ہوگا یا ملتان۔ ایک یا ایک سے زیادہ صوبے؟ بات یہیں پر رک تو نہیں جائے گی۔ ہزارہ میں یہ تحریک اس ولولے کے ساتھ اٹھی تھی کہ ایک طوفان سا برپا ہو گیا تھا۔ حیدر زمان خطے کے غیرمتنازع لیڈر بن کے ابھرے تھے۔ کراچی اور حیدرآباد کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی موجود ہے۔ فاٹا کو پختون خوا میں ضم کرنے یا الگ سے صوبائی حیثیت دینے کا سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہوگا تو بحیثیت مجموعی‘ پورے ملک کی سطح پر۔ اس کے لیے کم از کم ایک قومی اتفاق رائے درکار ہوگا۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل کرنا ہو گی... اور ظاہر ہے کہ ایک وسیع تر مکالمے کے بغیر یہ ممکن نہ ہو گا۔ شکست و ریخت کے ایک طویل و عریض عمل سے گزرنا ہو گا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سہل نہیں۔2008ء میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے صوبے کی حمایت کر دی تھی۔ پنجاب اسمبلی سے قرارداد بھی منظور کرا لی گئی لیکن پھر مطالبہ کرنے والے سو گئے اور ماننے والے بھی۔
فی الحال اتنی سی بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نون لیگ کا شیرازہ بکھرنے کا وقت آ پہنچا۔ اقتدار کی چھائوں میں‘ ادنیٰ مفادات سے جڑے‘ ''قابل انتخاب‘‘ امیدواروں کو 2013ء میں شریف خاندان کی چھتری تلے سمیٹا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت نے‘ ایک گہری مایوسی پیدا کر دی تھی۔ تحریک انصاف میں نظم نام کی اگر کوئی چیز ہوتی‘ اس کی قیادت سیاسی حرکیات سے اگر آشنا ہوتی تو صورتِ حال مختلف بھی ہو سکتی تھی۔
زرداری صاحب اور ان کے ساتھیوں کو دھن دولت ہی سے فرصت نہ تھی۔ کاروبارِ حکومت کے لیے ان کے پاس کوئی وقت نہ تھا۔ پے در پے عمران خان نے غلطیاں کیں اور شریف خاندان کے لیے راہ ہموار کر دی۔ آج حالات مختلف ہیں۔ ذہنی طور پر 1990ء کی دہائی میں بسر کرنے والی نون لیگی قیادت نے دو تین بڑی غلطیاں کیں۔ بدلے ہوئے ماحول کا وہ ادراک نہ کر سکے۔ شعبدہ بازی کی اسی راہ پہ گامزن رہے‘ ملک میں جس کی گنجائش اب کم ہے۔ میڈیا کی آزادی نے عام آدمی کو اتنا شعور اور احساس ضرور بخش دیا ہے کہ عمل اور دعوئوں میں کچھ نہ کچھ تمیز کر سکے۔ موسم گرما کی آمد کے ساتھ بجلی کے بحران میں اضافے نے امیدیں بکھیر کے رکھ دیں۔ عام طور پر ادراک نہیں کیا جاتا کہ پختون خوا میں پٹوار کے ظلم سے نجات‘ پولیس اور سول سروس کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں کی بہتری نے‘ عوامی نفسیات پہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ نوازشریف چیختے رہے کہ ایک ارب درخت نہیں لگائے گئے۔ عالمی اداروں نے مگر اس دعوے کی توثیق کی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ڈیڑھ لاکھ بچے نجی اداروں سے سرکاری سکولوں میں منتقل ہوئے۔ کسی نہ کسی حد تک عام لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ سول اداروں کی اہمیت کیا ہے۔ اب وہ جانتے ہیں کہ ایک آزاد پولیس اور سول سروس کیونکر ان کی مدد کر سکتی‘ ان کے زخموں کا مرہم بن سکتی ہے۔ نون لیگ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ عسکری قیادت اور عدلیہ کے ساتھ اس نے غیر ضروری محاذ آرائی کی۔ نواز شریف کی برہمی یہاں تک پہنچی کہ: جو ہماری راہ میں حائل ہو گا‘ نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ پاناما کیس سے نمٹنے میں خاندان کا اندازِ فکر بدترین تھا۔ اندھیرے میں وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے۔ لندن میں اربوں روپے کی جائیدادوں کا انکشاف ججوں یا جنرلوں نے نہیں کیا تھا۔ عام لوگ عملیت پسند ہوتے ہیں۔ 2013ء میں عمران خان کو اس لیے بھی عام ووٹر نے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا کہ موزوں امیدوار پیش نہ کر کے انہوں نے ایک خیالی جنت آباد کرنے کی کوشش کی۔ ''قابل انتخاب‘‘ لیڈر اور بھی سیانے ہوتے ہیں۔ وہ فتح یاب ہونے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب وہ شریف خاندان سے بیزار ہیں۔
نون لیگ سے الگ ہونے والے یہ آخری لوگ نہیں جو پیر کے دن منظرِ عام پہ آئے۔ ملتان کے باخبر اخبار نویس یہ کہتے ہیں کہ جہانیاں کے افتخار نذیر‘ اوچ شریف کے علی حسن گیلانی‘ خان پور کے شیخ فیاض الحسن‘ دائرہ دین پناہ کے ملک سلطان ہنجرا‘ ملتان کے سکندر حیات بوسن اور جھنگ کے نجم سیال بھی جلد ہی اپنا راستہ الگ کر دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں‘ جنوبی پنجاب سے نون لیگ کا تقریباً مکمل طور پہ صفایا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا۔ عمران خان اگر کسی بڑی حماقت کے مرتکب نہ ہوئے تو نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں حکومت بنا سکیں گے۔ انہیں پنجاب میں برپا تبدیلی کا فائدہ پختون خوا میں بھی ہو گا اور ظاہر ہے کہ بلوچستان اور سندھ میں بھی۔ بلوچستان کی کئی اہم شخصیات آئندہ چند دنوں کے اندر پی ٹی آئی سے وابستہ ہو سکتی ہیں۔ خاموشی کے ساتھ‘ ایک بڑے گروپ سے عمران خان کے مذاکرات جاری ہیں۔
شہری سندھ میں مصطفیٰ کمال نے فاروق ستار اور ان کے حریف گروپ کی بساط الٹ دی ہے۔ سندھ اسمبلی میں ان کے حامی ارکان کی تعداد 15 اور قومی اسمبلی میں پانچ ہو چکی۔ مصطفیٰ کمال کے بارے میں اخبار نویسوں کے اندازے یکسر غلط ثابت ہوئے۔ وہ غیر معمولی جرأت اور قوتِ عمل کے آدمی ہیں۔ الطاف حسین نے اپنا کوئی جانشین ابھرنے نہ دیا۔ دوسری پارٹیوں میں بھی جمہوریت نہیں مگر مشاورت کا عمل‘ کسی نہ کسی حد تک جاری رہتا ہے۔ موصوف نے ایک سفاک آمر کی طرح اپنی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ مصطفیٰ کمال اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے بچ نکلے۔ اس وقت وہ ان سے الگ ہوئے جب یہ بہت مشکل تھا۔ مارچ 2016ء میں زندگی خطرے میں ڈال کر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت انیس قائم خانی کے سوا کوئی ان کے ساتھ نہ تھا۔ سیاسی پنڈت اس اقدام کو ان کا پاگل پن قرار دیتے تھے۔ اس ''پاگل پن‘‘ کے ساتھ کراچی میں الطاف حسین کے خوف کا سحر انہوں نے توڑ دیا ہے۔
ملک بدل رہا ہے؛ اگرچہ ابھی یہ واضح نہیں کہ اپنی تاریخ سے کوئی سبق ہم نے سیکھا ہے یا نہیں۔ اب بھی محض یہ اقتدار کی کشمکش ہے یا قومی ادارے تعمیر کرنے کی طرف بالآخر ہم مائل ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved