تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     10-04-2018

مسئلہ کشمیر‘ نوازشریف اور فضل الرحمن

اپنے وطن میں پولیٹکل پولرائزیشن ایک بار پھر انتہا پر ہے‘ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ نئی حدوں کو چھو رہی ہے۔ سیاست ہی میں نہیں‘ صحافت میں بھی یہی کیفیت ہے (اس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا‘ دونوں شامل ہیں) ہم نے عملی صحافت کا آغاز قریشی برادران کے ہفت روزہ ''زندگی‘‘ سے کیا ۔ یہ ''زندگی‘‘ کا دوسرا دور تھا۔ پہلے دور میں قریشی برادران کی سرپرستی میں شامی صاحب اور ان کی ٹیم نے ''قائد عوام‘‘ کا ناک میں دم کر رکھا تھا‘ آخرکار پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا، یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ ''زندگی‘‘ (اور اس کے متبادل رسالے) نکلتے اور بند ہوتے رہے۔ بالآخر قریشی برادران نے یہ ہفتہ وار سلسلہ بند کر کے‘ صرف ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے ذریعے برسرپیکار رہنے کا فیصلہ کیا (اور پھر دونوں بھائیوں کی طویل حراست) اس دوران شامی صاحب اور ان کے رفقاء (مختار حسن مرحوم ، سجاد میر اور ممتاز اقبال ملک ) نے ''نئی زندگی‘‘ پبلی کیشنز کی داغ بیل ڈالی یہ ایک نیا سلسلہ تھا۔ سعود ساحر اور ظہیر احمد بھی اس قافلہ ٔ سخت جاں کا حصہ بن گئے۔ ایک رسالہ بند ہوتا‘ تو دوسرا آ جاتا۔ (پوری فہرست شاید خود شامی صاحب کو بھی یاد نہ ہو)
بھٹو صاحب ایوانِ اقتدار سے اور قریشی برادران زنداں سے تقریباً ایک ہی وقت میں نکلے۔ یاد آیا‘ ''جسارت‘‘ والے صلاح الدین (شہید) نے تو اسیری کے دوران ''اسلام میں بنیادی حقوق‘‘ کے نام سے ایک معرکۃ الآرا کتاب بھی لکھ ڈالی تھی‘ جو انہوں نے بھٹو صاحب کو ان الفاظ کے ساتھ بھجوائی‘ آپ نے مجھے جیل میں ڈالا‘ تو میں نے یہ کتاب لکھ لی‘ اب آپ جیل میں ہیں‘ تو اس کا مطالعہ فرما لیں۔
قریشی برادران نے رہائی کے بعد ''زندگی‘‘ کا احیا کیا‘ تو جناب ہارون الرشید اور منیر احمد منیر‘ قلمی محاذ پر اسکے سالاروں میں تھے۔ ان کے بعد ہم بھی قریشی برادران کے سایہ شفقت میں آ گئے۔ جمعرات کو پرچہ پریس میں بھجوانے کے بعد ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کے ساتھ شام کی چائے ہوتی۔ بڑی بیگم صاحبہ کی رہائش اسی بلڈنگ کی بالائی منزل پر تھی۔ وہ چائے کے ساتھ دیگر لوازمات بھی بھجواتیں ۔ اس بے تکلف میٹنگ میں ڈاکٹر صاحب مزے مزے کی حکایات سناتے ،ہجرت کے بعد لاہور میں عسرت کا ابتدائی زمانہ اور اس دوران ہمت اور حوصلے سے بھرپور طویل جدوجہد‘ مقصد ہم جیسے تن آسانوں کو یہ سبق ازبر کرانا ہوتا کہ اللہ تعالی کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ کبھی صحافتی اخلاقیات بھی اس ''درس‘‘ میں شامل ہو جاتیں‘ ایک روز فرمایا‘ صحافت پیغمبری کام ہے۔ ''ابلاغیات‘‘ تبلیغ ہی سے نکلا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے ''بلّغُو‘‘...ایک روز منیر کاظمی (مرحوم) کی رگ ظرافت پھڑکی‘ ''سر! یہ کس حد تک کاروبار ہے اور کس حد تک پیغمبری مشن ...جو کچھ بھی ہے‘ مالکان کے لیے ہے‘ ہم کارکنوں کے لیے تو یہ نوکری ہے۔ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے کا ذریعہ...
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ صحافت کا ایک اہم فریضہ رہنمائی بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی میں ہم میں سے کتنے ہیں جو اعتدال ‘توازن اور انصاف کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ لیکن جتنے بھی ہیں‘ غنیمت ہیں ۔ وہ جو استاد دانش نے کہا تھا ؎
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو؟
لیکن کیا اس پسند‘ ناپسند میں یہ ممکن نہیں کہ ہم اعلیٰ تر قومی مقاصد کو اس کی نذر نہ ہونے دیں۔ 
وادیٔ کشمیر ایک بار پھر لہو رنگ ہے‘ دنیا کی عظیم ''سیکولر جمہوریت‘‘ نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم اور وحشت و بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ ایسے میں قائداعظم ؒکی وراثت کی دعویدار‘ برسراقتدار جماعت کے قائد (جو تین بار وزیراعظم رہا‘ اور سروے رپورٹس اب بھی جسے ملک کا مقبول ترین لیڈر قرار دیتی ہیں) کے بارے میں یہ کہنا کہ اسے مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ اسے کشمیر میں حالیہ ظلم و ستم کی مذمت کی بھی توفیق نہیں ہوئی، کشمیر کاز کی کیا خدمت ہے‘ اور اس سے دنیا کو اور خود کشمیریوں کو کیا پیغام جاتا ہے؟ جبکہ حقیقت بھی اس کے برعکس ہو۔
28 جولائی کے فیصلے کے بعد بھی ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں کشمیر میں بھارتی وحشت و بربریت کی شدید مذمت کے علاوہ جمعہ 30 مارچ کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ برسراقتدار مسلم لیگ کے قائد نوازشریف نے بھی ایک بیان میں کہا‘ مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کی فائرنگ ریاستی دہشت گردی کی قابل مذمت مثال ہے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے‘ سامراجی حربوں سے کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کچلا نہیں جا سکتا۔ عالمی ضمیر نے انگڑائی نہ لی تو یہ کشمیریوں پر نہیں، پوری انسانیت پر ظلم ہو گا۔
''نوازشریف‘ مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات‘‘ ایک طویل موضوع ہے۔ 1989ء میں پنجاب میں نوازشریف کی قیادت میں آئی جے آئی کی حکومت تھی‘ قاضی صاحب مرحوم کی تجویز پر اس نے 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کا اعلان کیا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفاقی حکومت نے بھی جسے ''اون‘‘ کرنے میں تاخیر نہ کی۔
جون 2013ء میں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ۔ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے اپنے خطاب میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کا پورے زوروشور سے ذکر کیا اور یاد دلایا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل اور اہل کشمیر کے حق خودارادیت کے لیے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا اہلِ کشمیر کے مصائب و آلام کو عالمی پالیٹکس کی وجہ سے قالین کے نیچے نہیں چھپایا جا سکتا۔ نوازشریف کی تقریر نے ان کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو اتنا بدمزہ کیا کہ وہ صدر اوباما سے ملاقات میں اس کی شکایت کئے بغیر نہ رہے بلکہ اگلے روز ناشتے پر دونوں وزرائے اعظم کی ہونے والی ملاقات بھی خطرے میں پڑ گئی (میاں صاحب نے من موہن سنگھ پر لگائی بجھائی کرنے والی دیہاتی عورت کی پھبتی کسی تھی) عالمی مبصرین کے مطابق برسوں بعد یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے کسی سربراہ نے اس شدومد کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ خود اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے کمانڈو ڈکٹیٹر کے دور میں تو چناب فارمولا اور سیون ریجنز سمیت کیا کیا رنگ برنگے فارمولے پیش کئے جاتے رہے تھے۔ 
اگلے ماہ دورہ امریکہ کے دوران صدر اوباما سے ملاقات میں بھی کشمیر ایک اہم موضوع تھا۔ امریکی صدر سے وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر کے کور ایشو سمیت پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ 2014ء میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے وزیراعظم نوازشریف کے خطاب میں کشمیر کے حوالے سے شدت گزشتہ سال سے بھی زیادہ تھی۔ جولائی 2017ء میں اپنی معزولی تک مختلف فورمز پر نوازشریف نے مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم کے حوالے سے جو کچھ کہا‘ وہ ایک طویل مقالے کا متقاضی ہے۔ 
کشمیر کے حوالے سے بیٹی بھی باپ سے کم جذباتی نہیں۔ ابھی ڈیڑھ ماہ پہلے مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسہ عام سے خطاب میں وہ کہہ رہی تھی'' میری رگوں میں بھی کشمیری لہو دوڑ رہا ہے...وہ وقت دور نہیں جب سری نگر میں بھی ہم آزادی کا جشن منائیں گے‘‘۔
کشمیر کے حوالے سے کشمیر کمیٹی اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی جرح و تنقید کا دلچسپ موضوع رہتا ہے۔ گزشتہ نوں ایک اخبار نویس کے سوالات سے زچ ہو کر مولانا نے فرمایا‘ تو کیا بھارت پر حملہ کر دوں؟ ظاہر ہے یہ مسئلہ کشمیر سے نہیں‘ ہمارے اخبار نویس بھائی کی جرح سے بیزاری کا اظہار تھا۔ تاہم یوم یکجہتی کشمیر میں بھرپور شرکت کا اعلان کرتے ہوئے مولانا نے جو سوالات اٹھائے‘ وہ اپنی جگہ گہرے غوروفکر کے متقاضی ہیں‘ مثلاً ہم آج تک طے ہی نہ کر سکے کہ مسئلہ کشمیر کا حل فوجی ہے یا سیاسی؟ اور یہ بھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سیاستدانوں کے ہاتھ کیوں باندھ دیئے جاتے ہیں...؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved