کافی عرصے سے ملک عزیز میں کتابی سلسلوں کی بہار لگی ہوئی ہے یعنی آپ بغیر ڈیکلیئریشن حاصل کیے بھی رسالہ نکال سکتے ہیں کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی بیشک چوکھا آئے نہ آئے۔ پھر کتابی سلسلہ ہونے کے باوجود اس کی شکل و صورت بھی کتابی نہیں ہوتی کہ اس کا سائز کتاب کا ہوتا ہے نہ یہ مجلد ہوتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں مجلد کتابی سلسلے بھی شائع ہوتے رہے ہیں جن میں کراچی سے مبین مرزا کا ''مکالمہ‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہے‘ تاہم یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ پرچہ سال دو سال بعد شائع ہوا کرتا تھا۔ ''اسالیب‘‘ نے بھی ایک مجلدشمارہ چھاپا تھا۔ زیرنظر کتابی سلسلے کا نام ''انہماک‘‘ ہے جو بوریوالہ سے سید تحسین گیلانی اور سیدہ آیت نے شائع کیا ہے‘ صفحات 736 ہیں اور قیمت 850 روپے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کا قاری اس قدر کھاتا پیتا خوشحال ہو چکا ہے کہ وہ 850 روپے ایک رسالے پر خرچ کر سکتا ہے اور ایسے پرچوں کی ضخامت سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ادب باقاعدہ کثرت سے پیدا ہو رہا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ اس سے پہلے وقتاً فوقتاً یہ نعرہ سنائی دے جاتا تھا کہ ادب کی موت واقع ہو چکی ہے! پرچے کا آغاز و انجام خاصا دلچسپ ہے اور وہ یوں کہ شروع میں ہی چھ مختلف شعرا کا ایک ایک شعر چھاپا گیا ہے اور جو بغیر کسی عنوان کے ہے اور جس کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آتی اور لطف یہ ہے کہ وحید قریشی کے شعر میں پروف ریڈنگ کی غلطی بھی موجود ہے جبکہ پس سرورق ایڈیٹر کی تصویر کے ساتھ انہوں نے مائیکرو فکشن کی تعریف بھی شائع کی ہے جو اس طرح سے ہے :
جبکہ مائیکرو فکشن (مائیکروف)
Micro is not in the meaning of small mirco fiction is like a micro chip that can take million book in it.
یہ فلم سٹار میرا ٹائپ انگریزی پڑھ کر آپ یقیناً لطف اندوز ہوئے ہونگے۔
پروف کی غلطیاں جملہ متون بالخصوص شاعری میں ہیں جبکہ ہمارے دوست ستیہ پال آنند کی نظموں میں حسب معمول وزن کی غلطیاں موجود ہیں۔ مثلاً ان کی پہلی نظم کا یہ مصرعہ ع
ذرا قریب سے گزریں تو ان کی کششِ ثقل
محل نظر ہے کہ اس میں لفظ کشش کو اس کے صحیح وزن میں نہیں باندھا گیا جبکہ اس کے پہلے ''ش‘‘ کے نیچے زیر ہے جس سے یہ اپنے اصل وزن میں آ جاتا ہے۔
دوسری نظم کا ایک مصرع ہے:
سال خوردہ فاحشہ یہ ارض اپنے ( یہ مصرعہ اپنی بحر سے نکل کر دوسری بحر میں چلا گیا ہے اور جہاں لفظ فاحشہ مصرعے کے وزن میں نہیں آ رہا ۔
ایک اور مصرع ہی نظم یوں ہے
یا کسی ننھے فرشتے کا سہانا خواب (یہ بھی دوسری بحر میں چلا گیا ہے)
یہ مصرع بھی ساقط الوزن ہے بلکہ اگلا مصرع بھی یعنی
لاکھوں پشتوں کی وراثت کا نمونہ
حتی کہ اس سے اگلا مصرع بھی:
گم شدہ ورثے کی وہ ٹوٹی کڑی جو‘ اور اس سے اگلا مصرع بھی:
آدمی کی نسل کو چمپنزیوں سے جوڑتی تھی
بلکہ اس سے اگلے تین مصرعے بھی۔اس سے اگلی نظم کا چوتھا مصرع :
مصالحت ہے مجھے قابل نفریں، کہ مرا
خارج از وزن ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ اتنی عمدہ نظموں کو خواہ مخواہ مجروح کیا گیا ہے حالانکہ تھوڑے تردد کے بعد وہ یہ نقائص دور کر سکتے تھے۔ البتہ ان سے جو انٹرویو لیا گیا ہے اس میں یہ سوال پوچھنا بہت ضروری تھا کہ کیا آپ اب بھی غزل کے اتنے ہی مخالف ہیں جتنے پہلے تھے ؟ حصہ غزل میں انہوں نے کسی عثمانہ اختر جمال کی غزل چھاپی ہے جو ساری کی ساری خارج از وزن ہے۔ آپ کے تفنن طبع کیلئے نقل کرتا ہوں:
یادوں کے اندھیرے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
اے جان و فاکب سے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
تم تو چلے گئے وعدہ نبھانے کی قسم کھا کر
وفاکے اجالے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
تو نے جو دیا غم وہ ہے جان سے بھی پیارا
درد آنسو میں چھپے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
چاہت کا وجود ہی نہ مٹ جائے جہاں سے
احساس کے لمحے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
پیار اپنا کہیں بن جائے نہ داستاں غم کی
نئے خواب سجے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
گائے تھے کبھی ہم نے جو الفت کے ترانے
وہی پیار کے نغمے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
آجائو کہیں بجھ نہ جائے یہ چراغِ زندگی
جمال دل کے شعلے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں
پوری غزل میں صرف دو مصرع وز ن میں ہیں، شاید غلطی سے ایسا ہوگیا ہو ایڈیٹر کا مطلب ہے ایڈٹ کرنے والا۔ یعنی اگر کہیں کوئی غلطی ہو جائے تو اسے دور کر دے۔ اگر ایڈیٹر صاحب وزن سے نابلد ہیں تو انہیں اس کی بجائے کوئی اور کام کرنا چاہیے۔ اور اگر انہوں نے جانتے بوجھتے یہ غزل چھاپی ہے تو یہ ایک بہت بڑے ادبی مجرم سے کم نہیں ہے جبکہ صاحب موصوف غالباً خود بھی شاعر ہیں۔ تاہم انہوں نے کہیں کیں ایڈیٹنگ کا یہ فریضہ نبھایا بھی ہے۔ مثلاً میری جو دو غزلیںشائع کی گئی ہیں دونوں کے دودومصرعے حذف کر دیئے ہیں۔ غالباً غیر معیاری سمجھ کر۔ میں اس اصلاع کیلئے ان کا شکر گزار ہوں اور کوشش کروں گا کہ آئندہ غیر معیاری اشعار کہنے سے گریز کروں۔ البتہ دوسری غزل کے مطلع کے مصرع اول میں پروف کی غلطی رہ گئی ہے اگر اس طرف بھی تھوڑی توجہ فرما دیتے تو میں مزید شکر گزار ہوتا۔
ریکارڈ کی بہت ضروری درستی یہ ہے کہ کل والے کالم میں‘ بلکہ عنوان میں ہی جن شکور صاحب کا نام تھا وہ میری یاد داشت کی غلطی تھی۔ وہ نہ صرف شکیل تھے بلکہ ہمارے مشہور و معروف شکیل عادل زادہ تھے۔ اگر وہ پورا نام بتاتے تو یہ سہو ہرگز نہ ہوتا۔ ان سے دلی معذرت اور یہ گزارش بھی کہ اظہارِ محبت کرتے رہا کریں، اللہ تعالیٰ درجات مزید بلند فرمائے، آمین!
آج کا مطلع
ویسے تو ستم کش تھے کئی بار تمہارے
احساں بھی ہمیں یاد ہیں دوچار تمہارے