بنگلہ دیش میں ظلم کی سیاہ رات کب تک مسلط رہے گی۔ اللہ ہی اس راز کو جانتا ہے مگر فطرت کا تقاضا ہے کہ رات کتنی ہی لمبی ہو، سحر طلوع ہو کر رہتی ہے۔ تین سال قبل 11 اور 12 اپریل (2015ئ) کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے مقامی وقت کے مطابق 10 بجے عظیم مجاہد، مردِ درویش، عالم اور سیاسی رہنما جناب محمد قمر الزمان کو ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ابھی آسمان کی بلندیوں پر قمرِ فلک طلوع نہیں ہوا تھا کہ اس ماہتابِ ارضی کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے ماں باپ اور خاندان کا ایک روشن ستارہ تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ہر لیڈر اور کارکن کے نزدیک ایک چمکتا ہوا چاند تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس کی روشنی بنگلہ دیش تک محدود نہیں تھی، وہ پوری دنیا میں اپنی کرنوں سے نور بکھیرتا تھا۔ اللہ اس کی قبر کو منور فرمائے اور اسے جنت کی وسعتوں میں بدل دے۔ آمین!
محمد قمر الزمان شہید پر بھی اسی طرح لغو اور جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے، جس طرح جماعت کے تمام رہنماؤں پر لگائے گئے۔ عبدالقادر مُلاّؒ 12 دسمبر 2013ء کو اس منزل سے گزر چکے تھے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے مولانا اے کے ایم یوسفؒ (9 فروری 2014ئ) اور پروفیسر غلام اعظمؒ (23 اکتوبر2014ئ) اپنی جان کا نذرانہ راہِ حق میں پیش کرکے سرخرو ہو چکے تھے۔ اب یہ سعادت اس عظیم فرزنداسلام کے حصے میں آئی۔ اللہ اس کی شہادت کو قبول فرمائے اور ظلم کی دیوی کو اپنی گرفت میں لے لے۔ وہ قادر مطلق دیرگیر ہے، مگر ظالم اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے۔ قمر الزمان کے بیٹے اقبال حسن نے اپنے باپ کی شہادت پر کہا تھا کہ ظلم کے یہ فیصلے ہمارے سر نہیں جھکا سکتے۔ ہم نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کر دیا ہے اور وہاں حق و انصاف کے فیصلے ہوں گے۔ عظیم والد کے عظیم بیٹے کا یہ عزم قافلۂ حق کے لیے بہت بڑا پیغامِ عمل اور ہر قسم کے حالات میں پُرامید رہنے کی تلقین کی حیثیت رکھتا ہے۔
راقم کو محمد قمر الزمان سے ذاتی تعلقات اور تعارف کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ انتہائی شائستہ، نرم گو اور مضبوط ارادے اور اعصاب کا مالک تھا۔ جسم مضبوط اور طاقت سے بھرپور، سوچ و فکر پاکیزہ اور قلب و نظر پاکیزہ تر! شہید کی پیدائش ایک دیہاتی علاقے مودی پارہ میں 4 جولائی1952ء کو ہوئی۔ اس زمانے میں یہ گاؤں ضلع میمن سنگھ میں آتا تھا‘ اب نئی تقسیم کے بعد یہ ضلع شیرپور میں واقع ہے۔ اس کا تعلق علاقے کے معروف و معزز مسلم گھرانے سے تھا۔ محمد قمر الزمان نے قریبی گاؤں کامری کالی تولہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور پھر ڈھاکہ یونیورسٹی سے 1976ء میں صحافت و ابلاغ عامہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کی ابتدا سے لے کر آخری مدارج تک قمر الزمان نہ صرف سکالر شب ہولڈر رہا بلکہ اس نے کئی تمغے بھی جیتے۔
دورِ طالب علمی میں قمر الزمان جماعت اسلامی کے ایک رہنما قاضی فضل الرحمن مرحوم کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ (نیا نام اسلام چھاترو شبر) سے متعارف ہوئے۔ قاضی فضل الرحمن جماعت کے نمایاں بزرگان میں سے تھے۔ بعد میں ان کی بیٹی رشیدہ خاتون جماعت کی طرف سے پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہیں۔ قمر بھائی اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شبر) کے مقامی نظم سے لے کر نظامتِ اعلیٰ تک مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ان پر جس دور میں قتل و تشدد اور آتش زنی کے جرائم کا مرتکب ہونے کے الزامات لگائے گئے‘ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ جھوٹے اور لچر الزامات لگانے والوں کو ذرا شرم نہیں آئی کہ کل اللہ کو وہ کیا جواب دیں گے۔ اور پھر نام نہاد ٹریبونلز اور جعلی عدالتوں کا حال بھی پوری دنیا کے سامنے طشت از بام ہو چکا ہے۔
قاضی فضل الرحمن صاحب کی تربیت کے نتیجے میں قمر الزمان نے اوائل عمری ہی میں اپنے پورے خاندان کو بھی تحریک اسلامی سے متعارف و روشناس کرا دیا۔ اپنے دورِ طالب علمی میں قمر الزمان (1974ء سے 1977ء تک) ڈھاکہ کی مقامی جمعیت کے ناظم اور مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ 1977ء سے 1978ء تک وہ جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے، جبکہ جلد ہی انہیں قائم مقام ناظم اعلیٰ کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔ اس کے بعد وہ دو مرتبہ 1978ء اور 1979ء میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اپنی نظامت اعلیٰ کے دور میں قمر الزمان نے ملک بھر میں جمعیت کو منظم اور فعال بنایا۔ اس دور میں انہوں نے ایک بہت عظیم یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا، جس میں دنیا بھر سے طلبہ تنظیموں اور انجمن ہائے نوجوانان کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں وہ یوتھ کنونشن آج تک یادگار ہے۔
قمر الزمان نے تعلیم سے فراغت کے بعد شعبۂ صحافت میں قدم رکھا۔ مختلف اخبارات میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد قمر الزمان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ 1980ء میں بنگلہ زبان کے معروف ادبی رسالے ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ مجلہ پہلے بھی بہت معروف تھا، مگر ان کی ادارت میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔ 1983ء میں بنگلہ زبان میں عالمی شہرت کے حامل ہفت روزہ ''سونار بنگلہ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بطور صحافی ان کے بنگلہ دیش ہی میں نہیں، بنگلہ دیش کے باہر بھی عالمی شہرت کی حامل شخصیات سے بہت قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ ان کو دی جانے والی جعلی ٹریبونل سزا پر پورے عالم اسلام ہی نہیں، مشرق و مغرب کے بے شمار اداروں اور نامور شخصیات نے بنگلہ دیشی حکومت اور نام نہاد ٹریبونلز کی شدید ترین مذمت اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ جو لوگ شہید کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، انہیں اعتراف ہے کہ اس کی شخصیت میں بے پناہ کشش تھی۔ شہید نے پروفیسر غلام اعظم سے خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے بنگلہ زبان میں بہت اچھی کتب لکھیں۔
حسینہ واجد جب دوسری بار برسر اقتدار آئی تو بھارت کے ایما پر اس نے اپنے مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 1971ء کی پٹاری کھولی۔ جعلی ٹریبونلز اور جھوٹے الزامات کا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا۔ 29جولائی 2010ء کو محمد قمر الزمان کو انہی جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرکے ڈھاکہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ شروع میں ان پر الزام یہ تھا کہ ان کی تحریروں میں مذہبی منافرت پائی جاتی ہے۔ اسی دوران جماعت کے دیگر قائدین کے ساتھ ان کو بھی جھوٹے الزامات کے تحت جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا اور ان پر 2 اکتوبر 2010ء کو فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ محمد قمر الزمان ان جھوٹے الزامات سے ایک لمحے کے لیے بھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ اللہ نے قمر الزمان کو بڑا دل گردہ دیا تھا۔ انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے ٹریبونل کے سامنے مسکراتے ہوئے یہ کہا ''جھوٹ کی بنیاد پر دی جانے والی یہ سزا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ نہ ہی یہ سزائیں ہمارا سر باطل کے سامنے جھکا سکتی ہیں‘‘۔ اپنے وکیلوں کے مشورے سے قمر الزمان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل کی۔ انہیں معلوم تھا کہ سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ صادر ہونا ہے۔ اس کے باوجود اتمام حجت کے لیے انہوں نے اپنے وکلا کا مشورہ قبول کر لیا۔ حسب توقع سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔
توقعات کے مطابق نظر ثانی کی یہ درخواست بھی مسترد ہو گئی۔ شہید کے وکیل مسٹر اکانڈا نے کہا کہ اب بھی محمد قمر الزمان اپنے بارے میں ذرہ برابر تشویش میں مبتلا نہیں، البتہ انہوں نے بہت دکھ اور کرب کے ساتھ یہ کہا ہے کہ وطن عزیز سے ظالم حکمران اسلام کا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی آنکھوں میں اس لیے کھٹکتی ہے کہ یہ اس دیس کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے؛ تاہم مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان آزمائشوں سے تحریک سرخرو ہو کر نکلے گی اور ظلم کی سیاہ رات ڈھل جائے گی۔ دو مجسٹریٹ جیل میں ان سے 10 اپریل کو ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے قافلۂ مودودیؒ و حسن البناؒ کے اس صاحبِ عزیمت راہی کو سمجھایا کہ رحم کی اپیل کر دینی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ آپ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا اعتراف کر لیں تو جان بخشی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ مرد مومن قمر الزمان اس احمقانہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔ فرمایا ''بنگلہ دیش کے صدر اور دنیا کی کسی طاقت کے پاس موت و زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے۔ میں راہِ حق میں جان قربان کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں‘‘۔
11 اپریل کو محمد قمر الزمان شہید کے اہل وعیال اور قریبی عزیزوں سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ ان کے بیوی بچوں کے علاوہ دیگر عزیز بھی ملاقات کے لیے آئے۔ کل 21 افراد کو ملاقات کی اجازت ملی۔ ایک گھنٹہ اور دس منٹ سے زائد اس ملاقات میں ایک لمحہ بھی خاندان کو اپنے محبوب قمر الزمان کے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس آخری ملاقات میں فرمایا ''چند لمحات کے بعد ان شاء اللہ، اللہ کے دربار میں حاضر ہو جاؤں گا اور مجھے اس کی رحمت سے امید ہے کہ وہ رحیم و کریم مجھے اپنی رحمتوں کے سائے میں شہدا کی جماعت میں لے جائے گا۔ میرے اٹھ جانے کے بعد تم میں سے کوئی بھی نہ حوصلہ ہارے، نہ شکوہ شکایت کرے۔ اللہ کے دین کا کام ہم اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ کوئی دنیوی مفاد ہمارے پیش نظر نہیں۔ ہم نے جو سودا کیا ہے اس میں نفع ہی نفع ہے‘‘۔ مرحوم نے اپنے پیچھے بیوہ نور النھار، ایک بیٹی عطیہ نور اور چار بیٹے احمد حسن، حسن امام، اکرام حسن اور اقبال حسن چھوڑے ہیں۔ اللہ ان سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین!