ویسے کبھی کبھار خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ بہت سارے انقلابات اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے‘ یا دیکھ رہا ہوں۔ ایسی چیزیں ہو رہی ہیں جو چند برس پہلے تک سوچی بھی نہیں جا سکتی تھیں۔ پی ٹی وی دور کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سے لے کر رات کو چھپ کر کرائے کے وی سی آر پر فلمیں دیکھنے کے رومانس تک اور ٹی وی چینلز کی بھرمار سے سمارٹ موبائل فونز تک‘ سب دور دیکھ لیے ہیں۔ پوری دنیا فون سیٹ میں سما گئی ہے۔ سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ دنیا پچھلے دس برس میں کتنی بدل گئی ہے۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ میں آگ، پہیہ، سٹیم انجن اور کمپوٹر کی ایجاد نے ترقی کے سفر میں اہم کردار ادا کیا مگر پچھلے دس برس میں اتنی ایجادات ہو چکی ہیں کہ اب تو تفصیل تک یاد نہیں۔ پچھلے دس سال کی ٹیکنالوجی ایجادات دس ہزار سالہ انسانی تاریخ پر بھاری ہیں۔
یہ سب باتیں مجھے جنوبی پنجاب سے سرائیکی اور پنجابی بولنے والے ایم این ایز کی جانب سے علیحدہ صوبہ کا مطالبہ کرنے کی پریس کانفرنس دیکھ کر یاد آئیں۔ میں نے جب 1980 کی دہائی میں نعیم بھائی کے پاس بہاولپور جانا شروع کیا تو وہاں میرا بہاولپور صوبہ کی تحریک اور سرائیکی زبان کے حوالے سے چلنے والی تحریکوں‘ جس میں سرائیکی سنگت جیسے اہم نام شامل تھے، سے تعارف ہوا۔ 1980 اور 1990 کی دہائی میں جب چند سر پھرے لوگوں نے سرائیکی صوبے کا نعرہ لگایا تو کس نے سوچا تھا کبھی یہ خواب پورے ہو سکتے ہیں؟ آج بہت سارے لوگوں کو یاد بھی نہ ہو گا کہ اس صوبے کا نعرہ لگانے کے لیے کتنی کتنی تکلیفیں وہاں کے دانشوروں، صحافیوں اور شاعروں نے بھگتیں۔ نعیم بھائی کے بہاولپور میں عباس منزل کے کمرے میں‘ رات دیر تک چلنے والی بحثوں کو گھنٹوں خاموشی سے سنا اور سمجھنے کی کوشش کی کہ زبان اور کلچر انسانی زندگیوں میں کتنے اہم ہوتے ہیں۔ سب کچھ کھانا، پینا یا سونا نہیں ہوتا۔ ڈیرہ غازی خان سے استاد فدا حسین گاڈی کی محفلیں یاد ہیں، مہرے والا پر ہونے والا سرائیکی میلہ ایک بہت بڑی پہچان بنا۔ عاشق بزدار جیسے بڑے شاعر نے ''اساں قیدی تختِ لاہور دے‘‘ کے نام سے شہرہ آفاق نظم لکھ کر پورے وسیب میں ایک نئی جان ڈالی تھی۔ منظور بوہڑ مرحوم یاد آئے، تونسہ سے استاد محمود نظامی ہوں یا پھر ملتان سے منصور کریم‘ ان جیسے لوگوں نے کام کیا۔ ملتان میں ہی مظہر عارف جیسے بڑے صحافیوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اس ایشو پر لکھنا شروع کیا۔ لاہور کے اخبارات اس تحریک کے خلاف تھے‘ لہٰذا ایسے تحریریں چھپنا بھی مشکل تھا۔ خان رضوانی جیسے صحافیوں نے اپنا حصہ ڈالا۔ بہاولپور سے عبداللہ عرفان جیسے بڑے انسان اور سرائیکی ادیب نے یہ جھنڈا اٹھایا۔ ان سب نے سرائیکی میں لکھنا اور بولنا شروع کیا۔ تاج لنگاہ بھی اس تحریک کا جھنڈا اٹھائے پھرتے رہے۔ اشو لال جیسے بڑے شاعر نے سرائیکی دھرتی سے گزرے دریائے سندھ کے رومانس میں شاعری کی تو رفعت عباس نے ملتان کی ہزاروں برس پرانی تہذیب پر کمال شاعری کر کے وسیب کو قدیم تاریخ سے جوڑ دیا؛ تاہم وہاں کے ان دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو سب سے بڑی مشکل اُس وقت پیش آئی جب کچھ سرائیکی قوم پرستوں نے وہاں کے رہنے والے پنجابیوں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر سرائیکی صوبہ بن گیا تو ان کی خیر نہیں۔
اس کا بہت نقصان ہوا کیونکہ اب پنجابی بڑی تعداد میں ان علاقوں میں سیٹل ہیں۔ خیر سرائیکی اس سے زیادہ اس بات پر ہرٹ تھے کہ ان کی زبان، کلچر اور ادب کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور اسے پنجابی کا ہی ایک لہجہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سرائیکی کو علیحدہ زبان منوانے کے لیے اکرم میرانی جیسے دانشور، اشو لال اور رفعت عباس جیسے بڑے شاعر وں اور دیگر دانشوروں نے کام کیا۔ سرائیکی شاعری آج کمال کو پہنچ چکی ہے۔ اشو لال، رفعت عباس، عاشق بزدار نے اگر سیاسی مزاحمت پر شاعری کی تو شاکر شجاع آبادی کی رومانوی سرائیکی شاعری نے ایک اور کمال کو چھو لیا؛ تاہم سرائیکی علاقوں کے ادیبوں، شاعروں، استادوں اور صحافیوں کو ریاستی جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پیچھے ایجنسیاں لگ گئیں۔ کسی پروفیسر یا استاد نے سرائیکی کا نام لیا تو دوردراز تبادلہ کر دیا گیا۔ کوئی بچ گیا تو انہیں بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ کوئی سرائیکی ہندو ملتان چلا گیا اور اس کے اعزاز میں تقریب ہوئی تو فوراً را کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ دوسری طرف خود رنجیت سنگھ تک کی برسی لاہور میں منائی جانے لگی۔ یہ سب میڈیا کے کمالات تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ملتان میں اس علیحدہ صوبے کی سب سے بڑی مخالف‘ پنجابی اور اردو سپیکنگ کلاس تھی۔ وجہ وہی خوف تھا جو ہر اقلیت کے دل میں ہوتا ہے کہ اکثریت اس کے ساتھ زیادتی کرے گی۔ میں اس وقت بھی یہ مؤقف رکھتا تھا کہ جب تک آپ پنجابی اور اردو سپیکنگ طبقات کو ساتھ نہیں ملائیں گے‘ آپ صوبہ نہیں بنا سکتے۔ ان پنجابی اور اردو سپیکنگ کا مسئلہ بھی جینوئن تھا کہ وہ پہلے ہی تقسیم کے عذاب سے گزر چکے تھے‘ لہٰذا انہیں لگتا تھا کہیں صوبہ بنتے ہی ان کی جائیدادیں اور زمینیں چھین کر انہیں بچوں سمیت دربدر نہ کر دیا جائے۔ اس خوف کو لاہور کی سیاسی پارٹیوں خصوصاً نواز شریف نے خوب استعمال کیا کیونکہ ان پنجابی اور اردو سپیکنگ نے ردعمل کے طور پر ووٹ نواز شریف کو دینا شروع کیے اور دھیرے دھیرے مسلم لیگ (ن) بڑی پارٹی بن کر ان علاقوں میں ابھری۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سیاسی سپورٹ ملنے کے بعد لاہور اور اسلام آباد کی حکومتوں نے سرائیکی علاقوں میں ترقیاتی کام چھوڑ دیئے، الٹا ان علاقوں سے فنڈز لاہور شفٹ ہونا شروع ہو گئے لیکن ان علاقوں سے آواز نہ اٹھی۔ تختِ لاہور کو احساس ہوا کہ وہ وہاں کام کریں یا نہ کریں‘ سرائیکی صوبہ سے ڈر کر‘ پنجابی اور اردو سپیکنگ‘ ووٹ پھر بھی مسلم لیگ کو ہی دے گا۔ سرائیکی ایم این ایز جو اپنی چودھراہٹ ختم ہونے کے ڈر سے پہلے ہی صوبے کے خلاف تھے‘ ان میں اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ لاہور کے خلاف آواز اٹھاتے۔ سرائیکی ایم این ایز اپنی مرضی کا تھانیدار اور پٹواری لے کر خوش رہتے جبکہ اردو اور پنجابی سپیکنگ اس پر خوش رہتے کہ وہ نیا صوبہ نہیں بننے دے رہے‘ لہٰذا ترقیاتی کام یا فنڈز جائیں بھاڑ میں؛ تاہم دھیرے دھیرے پنجابیوں اور اردو سپیکنگ کی نئی نسلوں میں یہ احساس ابھرنے لگا کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ وہ رہتے تو جنوبی پنجاب میں ہیں لیکن ان کی ہمدردیاں لاہور کے ساتھ ہیں‘ اس میں انہیں کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ اب ان کے بچوں کے لیے کالجز‘ یونیورسیٹیاں یا نوکریاں نہیں ہیں۔ سڑکیں نہیں ہیں، ہسپتال نہیں ہیں۔ پنجابیوں کی اس نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے برعکس اس ایشو کر بہتر سمجھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں لاہور سے اپنی یکطرفہ وفاداری کو ختم کر کے اب نئے صوبے کی بات کرنی چاہیے۔ اب مسئلہ یہ تھا سرائیکی کے نام سے وہ بھی چڑتے تھے کیونکہ اس ملک میں ہمیشہ سے زبانوں سے نفرت کی گئی تھی؛ تاہم مسائل اتنے بڑھتے گئے کہ آخر سرائیکیوں اور پنجابیوں کو مل کر سوچنا پڑ گیا۔ انہیں ابھی ون پوائنٹ ایجنڈا پر اتحاد کرنا چاہیے کہ انہیں صوبہ چاہیے‘ نام کوئی بھی رکھ لیں گے۔
جب جنوبی پنجاب صوبہ کے نام پر پنجابی اور سرائیکی ایم این ایز پریس کانفرنس کر رہے تھے تو مجھے وہ گمنام ہیروز یاد آئے جنہوںنے یہ تحریک تیس برس قبل شروع کی اور سختیوں کا سامنا کیا۔ ان میں سرائیکی شاعر ہوں، ادیب ہوں، یا سیاسی ورکرز‘ جو سیاستدان انہیں طعنے دیتے تھے، انہیں دھتکارتے تھے، ملک دشمن کہتے تھے، ان کے پیچھے پولیس اور ایجنسیاں لگاتے تھے کہ یہ را کے ایجنٹ ہیں، آج وہ بھی صوبہ مانگ رہے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ استاد فدا حسین گاڈی ہوں، عبداللہ عرفان، مظہر عارف، ارشاد تونسوی، خان رضوانی، اشو لال، رفعت عباس، عبداللہ عرفان، منصور کریم، استاد محمود نظامی یا پھر عاشق بزدار جیسے بڑے شاعر ہوں، آج ان سب کی جیت ہوئی ہے۔ آج سیاستدانوں نے ان کے نعرے کو own کر لیا ہے۔ ان سب نے انتہائی برے حالات میں جو علیحدہ صوبے کی تحریک تقریباً تیس سال قبل شروع کی تھی‘ وہ اب آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ مجھے اچھا لگ رہا ہے کہ میری کہی بات درست ہو رہی ہے کہ آپ جب تک سرائیکی علاقوں کے پنجابی اور اردو سپیکنگ مہاجر طبقات کو ساتھ نہیں ملائیں گے، تختِ لاہور سے اپنا حق نہیں لے پائیں گے۔
وسیب کے سرائیکیوں، پنجابی اور اردو سپیکنگز کی نئی نسلوں نے ایک فورم پر نئے صوبے کے نام پر اکٹھے ہوکر سیاسی جدوجہد کا نعرہ لگا کر بہتر فیصلہ کیا ہے۔
ایک یہ انقلاب دیکھنا باقی تھا۔ اب وہ بھی دیکھ لیا!