محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل اور اس میں مبینہ طور پر بیت اﷲ محسود کے ملوث ہونے پر بہت سے لوگوں نے پوچھا ہے کہ امریکیوں نے آئی ایس آئی کی جانب سے بیت اﷲ محسود کی لوکیشن بتانے کے با وجود ڈرون کے ذریعے اسے ہلاک کیوں نہیں کیا تھا جبکہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کے دعوے کرتے چلے آ رہے ہیں ؟۔؟ اور پھر کیا وجہ ہوئی کہ بعد میں ڈرون حملے میں امریکیوں نے اسے ہلاک کر دیا؟۔ یہ سوالات اپنی جگہ پر بہت ہی اہم ہیں کہ آخر امریکیوں کویہ نا پسندیدہ مشن کیوںکرنا پڑا؟ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکی جان چکے تھے کہ ان کا دوست'' ٹرپل ایجنٹ‘‘ بن چکا ہے۔۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد وہ اس سے جلد از جلد نجات چاہتے تھے کیونکہ آئی ایس آئی اس کی زندہ گرفتاری کیلئے انتہائی سر گرم ہو چکی تھی۔ امریکہ نے اگر بیت اﷲ محسود پر پانچ ملین ڈالر انعام رکھا ہوا تھا تو پاکستان نے ساڑھے چھ ملین ڈالر کی بھاری رقم اس کی گرفتاری کیلئے مخصوص کر رکھی تھی ۔۔اب امریکیوں کو خدشہ ہو چلا تھا کہ اس طرح پاکستان کی فوج بے نظیر کے اصل قاتلوں تک پہنچ جائے گی۔'' واشنگٹن کے وقت کے مطا بق شام کے چار بجے تھے اور امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا وائٹ ہائوس میں ایک اہم اجلاس میں مصروف تھے اس اجلاس میں شریک لوگوں کو اس وقت انتہائی حیرت ہوئی جب لیون پنیٹا نے شرکاء سے معذرت کرتے ہوئے تیز تیز چلتے ہوئے کانفرنس روم سے باہر نکل کر جونہی موبائل فون اپنے کانوں سے لگایا تو دوسری جانب سے جو الفاظ ان کے کانوں تک پہنچے انہوں نے انہیں لڑکھڑا کر رکھ دیا ایک لمحے کیلئے ان کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گذر گئے دیکھنے سے ایسا لگتا تھا کہ وہ شدید قسم کی گھبراہٹ میں ہیں کئی منٹ تک وہ موبائل اپنے کانوں سے لگائے اپنے مخاطب سے سوال وجواب کرتے رہے جس میں امریکی سی آئی اے کی جانب سے لیون پنیٹا کو بتایا جا رہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کا امیر اس وقت ان کے نشانے پر ہے۔
یہ بات تو ظاہر ہے کہ ڈرون کے ذریعے پاکستان میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے میزائل صرف اور صرف امریکی سی آئی اے کی منظوری اور ان کی دی جانے والی ڈائریکشن کے مطا بق ہی فائر کیے جاتے ہیں۔ابھی لیون پنیٹا بات کر کے فارغ ہوئے ہی تھے کہ موبائل کی گھنٹی دوبارہ بج اٹھی اور اس وقت دوسری طرف لیون پنیٹا کے چیف آف سٹاف جیریمی بیش اور کائونٹر ٹیررازم کے سینئر ایڈوائزر انہیں بتا رہے تھے کہ جس گھر میں بیت اﷲ محسود اس وقت موجود ہے اس وقت وہ مکمل طور پر ہماری رینج میں ہے اور جیسے ہی آپ کی طرف سےOK کہا جائے گا تو23000 ہزار فٹ کی بلندی سے اسے نشانہ بنا دیا جائے گا گو کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل ٹارگٹ ہے لیکن ہم یہ کر سکتے ہیں۔لیکن آپ کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس وقت ہماری اطلاع کے مطا بق اس گھر میں درجنوں افراد موجود ہیں جن میں محسود کی بیوی بھی شامل ہے۔کیا یہ سب لوگ بھی اس نشانے کی زد میں آئیں گے؟ ۔۔۔کیا یہ سب محسود کے ارد گرد موجود ہیں؟ لیون پنیٹا کے اپنے چیف آف سٹاف جریمی بیش سے موبائل پر پوچھے جانے والے اس سوال پر انہیں بتایا گیا کہ ایسا ہی ہے۔ اس طرح تو ''ہمارے لوگوں‘‘ سمیت بہت سے لوگ بھی مارے جائیں گے؟ پنیٹا کے اس سوال پر کہا گیا کہ اس کیلئے سی آئی اے کم تباہی مچانے والا بم استعمال کرے گی جس پر لیون پنیٹا نے اپنے چیف آف سٹاف جریمی بیش کو او کے کا سگنل دے دیا اس طرح امریکیوں نے اپنے ہدف کو جو اس وقت اپنے نئے گھر کی دوسری منزل پر لیٹا ہوا تھا ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانے کی منظوری دے دی۔
وزیرستان کی پانچ اور چھ اگست 2009 کی یہ ایک انتہائی گرم ترین رات تھی اور تحریک طالبان کا امیر بیت اﷲ محسود دو منزلہ گھر کی دوسری منزل پر اپنے بستر پر بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا ۔دیکھنے سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ اس وقت اس کی حالت ٹھیک نہیں وہ کافی عرصے سے ذیا بیطس کا شکار تھا لیکن اس وقت اس کی یہ بیماری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ بار بار پیاس محسوس ہونے کے علا وہ شوگر کی وجہ سے اس کی ٹانگیں سوجی ہوئی تھیں تھوڑی دیر بعد باہر ہلکی سی آہٹ ہوئی تو اس نے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا جہاں اسی طرح کی داڑھی والا ایک شخص کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں میڈیکل باکس اور دو چھوٹی چھوٹی مشینیں آسانی سے دیکھی جا سکتی تھیں، محسود کو سہارا دے کر اس دومنزلہ گھر کی چھت پر پہنچایا گیا جہاں ایک بڑے سائز کا میٹریس پہلے سے ہی موجود تھا۔ بیت اﷲمحسود کو اس میٹریس پر بڑے آرام سے لٹا دیا گیا اس رات چاند بھی پوری روشنی سے چمک رہا تھا اور چھت پر لیٹے ہوئے بیت اﷲ محسود کو دور سے ہی دیکھا جا سکتا تھا لیکن اس وقت اوپر چھت پر جانا اس کی مجبوری تھی کیونکہ اس روشنی میں ہی اس کی رگوں میں ڈرپ اور دوسری میڈیکل آلات لگائے جا سکتے تھے کیونکہ نیچے اندھیرا تھا۔سیٹیلائٹ کے ذریعے سی آئی اے یہ سب مانیٹر کر رہی تھی تو اسے ایک زبردست جھٹکا لگاکیونکہ اس سے پہلے سی آئی اے کاخیال یہی تھاکہ دوسرا آدمی جو محسود کو IV ڈرپ لگا نے آیاہے وہ کوئی عام ڈاکٹر ہو گا لیکن سیٹیلائٹ سے غور سے اس شخص کو دیکھا تو یہ جان کر حیران رہ گئے یہ کوئی عام ڈاکٹر نہیں بلکہ انتہائی مطلوب اردن کا فزیشن حمام البلاوی ہے ۔ محسود کے ساتھ بلاوی کی موجو دگی نے صورت حال کو بدل کر رکھ دیاتھا جس پر اپنے مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے سی آئی اے کے آپریٹروں نے اپنے ''HELLFIRES'' کو دوبارہ چیک کرنا شروع کر دیا لیکن اچانک بدلتے منظر نے ان کے آپریشن کو تھوڑی دیر کیلئے ملتوی کر دیا کیونکہ اس سے پیشتر لیون پنیٹا نے جو حکم جاری کیا اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ڈرون اٹیک صرف دوسری منزل کے اس بیڈ روم پر ہی کیا جائے جہاں اس وقت بیت اﷲ محسود موجود ہے لیکن محسود کو چونکہ IV لگائی جانی تھی جس کیلئے روشنی ضروری تھی اس لئے محسود کو چھت پر لے جا نا پڑا اب ظاہر ہے کہ ڈرون حملہ چھت پر کرنا تھا اور اس طرح گھر میں موجود سب لوگ زد میں آنے والے تھے جس کیلئے لیون پنیٹا سے وائٹ ہائوس میں ایک بار پھر ہنگامی رابطہ کیا گیا جو اس وقت سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں نہیں بلکہ وائٹ ہائوس میں ہونے والی نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں شرکت کر رہے تھے ۔ لیون پنیٹا کے چیف آف سٹاف جریمی کی بتائی جانے والی تازہ صورت حال کی روشنی میں لیون پنیٹا نے یہ کہتے ہوئے اجا زت دے دی ''Use a smaller,less destructive missile.''۔
یہ بدھ کا دن اور پانچ اور چھ اگست 2009کی درمیانی رات تھی اردن کے فزیشن ڈاکٹرحمام البلاوی''IV MACHINE'' کے ذریعے بیت محسود کی رگوں میں ڈرپ لگارہے تھے اور چھوٹی عمر کی ایک لڑکی جسے بعد میں اس کی نئی بیوی کے طور پر شنا خت کیا گیاتھا محسود کی سوجی ہوئی ٹانگوں کو دبا رہی تھی۔جونہی البلاوی ڈرپ لگانے کے بعد اس گھر کی نچلی منزل کی طرف گیا تو محسود نے اچانک آسمان سے ایک تیز روشنی کو اپنی جانب آتے دیکھا تو اس کے منہ سے ایک لمبی ٹھنڈی سانس نکلی اور اگلے ہی لمحے ایک چھوٹے سے دھماکے کی آواز پہاڑوں میں گونجی اور پھر خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔!!