تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-04-2018

کیوں ؟

کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ اسے پیدا کیوں کیا گیا؟ ایک ایسی زمین پر، جس کے با رے میں پیدا کرنے والا یہ فرماتا ہے کہ اس میں ایک پتہ بھی میری اجازت کے بغیر نہیں ہلتا ۔ اس قدر کنٹرولڈ ماحول اور حالات میں ، جس میں ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے ۔ ماں باپ، زمین پر قیام کی جگہ ، رزق یعنی ہر وہ چیز جسے انسان نے پہننا، اوڑھنا یا استعمال کرنا ہے ؛حتیٰ کہ ذہنی صلاحیت اور رجحان بھی۔ فرض کریں کہ ایک سیب ریڑھی پہ رکھا ہوا ہے ۔ میں اسے وہاں سے خرید کر کھا لیتا ہوں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا اس جگہ سے گزرنا بھی لکھا ہوا تھا ۔ قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے : زمین میں چلنے پھرنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ، جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ وہ (جاندار ) کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد کیا جائے گا ۔ سورۃ ھود ، 6۔ کون سی ماں کے رحم میں کس بچّے نے جنم لینا ہے اور موت کے بعد اسے کس جگہ دفن کیا جانا ہے ، یہ سب طے ہے ۔ دنیا کا نظام چلانے کے لیے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی گئی ہے ۔ ماں باپ اگر اولاد سے اپنی ذات سے زیادہ محبت نہ کرتے تو کبھی اسے پال نہ سکتے ۔ پہلے دن سے وہ ان کے لیے زحمت کا باعث ہوتا ہے ۔ بار بار روتا ہے ، پیٹ میں درد ہوتا ہے تو روتا ہے ، زمین پہ گرتا ہے تو روتا ہے، بھوک لگتی ہے تو روتا ہے ۔ اس کی ضد نہ مانی جائے تو روتا ہے۔ ایک شدید محبت ان کے دل میں ڈال دی جاتی ہے ۔ اسے اپنے بچّے کے لیے یہ سب کچھ کرنا زحمت نہیں لگتا لیکن اگر کبھی کسی دوسرے کی اولاد کو پالنا پڑے تو پھر وہ تنگ آجاتا ہے ۔ سوتیلے ماں باپ کی کہانیاں آپ نے سن رکھی ہوں گی ۔ 
چیزیں اس حد تک طے شدہ ہیں کہ خوراک کا ہر وہ ذرہ جسے ہم کھاتے ہیں ، کپاس کا ہر وہ ٹکڑا ، جس سے میرا لباس بنے گا ، لوہے کا وہ ٹکڑا ، جس سے میری گاڑی بنے گی ، تیل کا وہ قطرہ، جو میری گاڑی میں استعمال ہوگا، طے شدہ اور مقرر (Fixed)ہے ۔ کوئی اور اسے استعمال نہیں کر سکتا۔کس پودے کے کس پتے سے پیدا ہونے والا آکسیجن کا کون سا ایٹم میرے جسم نے استعمال کرنا ہے ، یہ طے شدہ ہے ۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ دولت رکھنے والے زیادہ وسائل استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔میں نے اچھی طرح سے امیر اور غریب لوگوں کا موازنہ کیا ہے ۔ محلات میں رہنے والوں اور اینٹیں اپنی کمر پہ اٹھانے والوں کا ۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محنت مزدوری کرنے والے رزق زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ محل والوں کا تو پیٹ بڑھا ہوتاہے ، شوگر ہائی ،ہائی بلڈ پریشر، کمزور دل اور ڈاکٹر نے کھانے کی بجائے مختلف چیزیں صرف چکھنے کی اجازت دی ہوتی ہے ۔ پیدل ان سے چلا نہیں جاتا ۔ دوسری طرف یہ مزدور ی کرنے والے، یہ کام سے فارغ ہونے کے بعد ڈھابوں پر تندور کی پکی ہوئی تین تین مزیدار روٹیاں ڈکار جاتے ہیں ۔ پھر چینی سے بھرپور چائے پیتے ہیں ۔ ان کو چینی کوئی نقصا ن نہیں دیتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا جسمانی کام اتنا زیادہ ہوتاہے کہ ان کا جسم ساری کی ساری توانائی ہضم کر جاتاہے ۔ ان کے جسم دبلے پتلے ہوتے ہیں ۔ ہماری طرح انہیں ہر وقت تیس چالیس کلو اضافی وزن نہیں اٹھانا پڑتا ۔ 
امیر لوگوں کو ڈاکٹر نے ہدایت دی ہوتی ہے کہ جسمانی کام کرنے کی کوشش کریں۔جبلی طور پر انسان سست ہے ۔ نفس ہمیشہ ہر اس مشقت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے ، جس سے بچا جا سکتاہے ۔اب ایک من اضافی وزن اٹھا کر دوڑنے کے لیے بھی انتہائی مضبوط قوتِ ارادی چاہئیے ۔ یہ الگ بات کہ اگر انسان اس مشقت سے خود کو گزارتا رہے تو پھر اس میں نشے ایسی لذت محسوس ہونے لگتی ہے ۔ خوب دوڑ لگانے کے بعد جب جسم گرم ہو جائے، پسینہ بہے ، آہستہ آہستہ چربی گھلنے لگے۔ دوڑلگانے، رسی کودنے اور دوسری ایسی جسمانی سرگرمیوں میں ، جن میں دل کی دھڑکن تیز ہو،دماغ میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں ، جن سے ذہنی تنائو میں بھی کمی آتی ہے جو اس عہد کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ 
ایک انسان دنیا میں کیا کارنامے سر انجام دے سکتاہے ۔ بڑے سے بڑے فاتح کی زندگی آپ دیکھ لیجیے ۔ جہاں آپ کو وہ ملک اور بستیاں فتح کرتا نظر آئے گا ، وہیں کبھی بیماری کے سامنے آپ اسے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا بھی دیکھیں گے ۔ظہیر الدین بابر اور سکندرِ اعظم کو دیکھ لیں۔ بڑے بڑے فاتحین کو آپ بے بسی کے ساتھ بستر پر جان کی بازی ہارتے ہوئے دیکھیں گے ۔ انسان آج ترقی کے جس درجے تک بھی جا پہنچا ہے ، وہ زمین سے اگنے والے دانۂ گندم کا محتاج ہے ۔وہ سبز پتے سے پیدا ہونے والی آکسیجن کا محتاج ہے ۔زمین معدنیات اگلنا ، غلہ اگانا چھوڑ دے اورآسمان بارش نہ برسائے تو کہاں سے ہم اپنی ضروریات پوری کریں گے ؟ یہ بات درست ہے کہ انسان زمین سے اڑ کر دوسرے سیاروں پر اترنے کی تیاری کر رہاہے لیکن کوئی سیارہ ایسا نہیں جو مستقبل جائے پناہ مہیا کر سکتا ہو۔ آکسیجن، پانی، بارش، پودوں ،اوزون ، مقناطیسی میدان ، بھاری آب و ہوااور مناسب درجہ ٔ حرارت سے محروم ،وہ تو ایسے جہنم زارہیں ، جہاں کی زندگی موت سے بدتر ہے ۔انسان اس نظامِ شمسی سے نکل کر کہیں بھی نہیں جا سکتا۔ یہیں ایک دن نسلِ انسان کو مکمل طور پر ختم ہوجانا ہے ۔ وہ ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی جوانی چند عشروں میں ختم ہو جاتی ہے ۔ اس جوانی کا بیشتر حصہ بھی رزق کمانے اور نیند کی نذر ہوجاتاہے ۔ 
انسان تو اتنا کمزور ہے کہ وہ زیادہ عبادت بھی نہیں کر سکتا۔ اس کا جسم روزانہ کئی گھنٹے کی نیند مانگتاہے ، کھانا مانگتا ہے ، بیماری میں آرام مانگتاہے ۔ اس کا بچپن اور شدید بڑھاپا عقل سے عاری ہو تاہے۔ اسے اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے آٹھ آٹھ گھنٹے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے ۔ انسانوں کی اکثریت بہت زیادہ مضبوط قوتِ ارادی کی مالک نہیں ۔ کبھی انسان نیکی کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتاہے ۔ پھر کبھی پھسل جاتاہے ۔جب کہ جن دوسری مخلوقات کا ذکر ہم پڑھتے ہیں ، وہ ہمیشہ ہر وقت خدا کی تسبیح میں مصروف رہتی ہیں ۔ انسان کا تو جسم ہی ایسا ہے کہ اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں۔ پیٹ کے اندر آنتوں میں گند بھرا ہوا ہے۔ کبھی بلڈ پریشر کم ہوجاتاہے ، کبھی شوگر بڑھ جاتی ہے ۔ کوئی انسان کتنا ہی نیک اور علم والا کیوں نہ ہو ، اس سے غلطی پر غلطی سرزد ہوتی رہتی ہے ۔ کبھی غصہ آجاتا ہے ، کبھی خودغرضی چھا جاتی ہے ۔انسان کے اندر اتنی خواہشات رکھی گئی ہیں ، اپنی ذات کی ایسی شدید محبت رکھی گئی ہے کہ الامان الحفیظ۔ ان حالات میں انسان سوچنے لگتا ہے کہ آخر میرے اس قدر کمزور اور ڈگمگاتے وجود کو پیدا کس لیے کیا گیا۔
اپنے غموں اور دکھوں کی دلدل میں دھنسا ہوا انسان آخر بے بس ہو کر رونے لگتاہے ۔ وہ پوچھتاہے اپنے رب سے ، مالک! کیوں پیدا کیا مجھے؟ (جاری )

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved