عام انتخابات نزدیک آتے جارہے ہیں اور، اندازوں کے عین مطابق، بیانات میں جذبات کی حِدّت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ایک تو موسم گرم اور اُس پر سیاست دانوں کی گرم بیانی۔ معاملات دو آتشہ کیونکر نہ ہوں؟ بولنے کے معاملے میں تمام حدیں عبور کر جانے کا مرحلہ آچکا ہے۔ جسے بھی کہیں اظہارِ خیال کا موقع ملتا ہے وہ سارا زور لگاکر اپنی بات بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی متوجہ ہوں اور کم از کم ایک بار تو بات سُن ہی لیں۔
میڈیا پر ایک دوسرے کا ٹرائل شروع ہوچکا ہے۔ جسے زبان پر کسی کا عبور دیکھنا ہے وہ آج کل کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھے اور ''فیض یاب‘‘ ہو! کوئی کسی کو بیماری قرار دے رہا ہے اور کسی کی نظر میں کوئی ملک کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔ صورتِ حال کی مناسبت سے الفاظ کا غیر محتاط استعمال وقت کی ضرورت ہے۔ ہر سیاسی جماعت اِس امر کے لیے کوشاں رہتی ہے کہ اُس کے ذمہ داران جو کچھ بھی بولیں کھل کر بولیں اور ایسے ''بھنڈ‘‘ کرجائیں کہ لوگ کئی دن تک سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر محظوظ ہوتے رہیں۔ اِسی سے تو ریٹنگ آئے گی۔
پرائم ٹائم زبان و بیان کے لحاظ سے اچھا خاصا ''کرائم ٹائم‘‘ ہوکر رہ گیا ہے! مرکزی دھارے کی ہر روایتی سیاسی جماعت میں اُسی کا جھنڈا سب سے اونچا اڑتا ہے جو سوچے سمجھے بغیر بولنے میں غیر معمولی ''یدِ طُولٰی‘‘ رکھتا ہو اور کسی بھی معاملے میں اڑائی جانے والی ٹانگ کا بھی حامل ہو!
اہلِ وطن حیران ہیں کہ کسے حق پر سمجھیں اور کس کی باتوں کو نِرے جھوٹ پر محمول کریں۔ ان کے لیے سب ایک پیج پر ہیں۔ جسے ووٹ مل جاتے ہیں وہ پانچ سال تک شکل نہیں دکھاتا۔ اور جسے وزارت مل جائے وہ تو ایسا غائب ہو جاتا ہے جیسے ہاتھوں کے اُڑے ہوئے طوطے! ع
گئے تو وہ تِری بزمِ خیال سے بھی گئے
ہم موسمِ گرما کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں۔ ماحول دھیرے دھیرے ہیٹ اپ ہو رہا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے کہ ایک طرف گرمی بڑھے گی اور دوسری طرف بجلی و پانی کی بندش سے گرمی کی ''فیل‘‘ بھی بڑھ جائے گی۔ مگر لگتا ہے قدرت تو موسم کو بعد میں کچھ کا کچھ کرے گی، اِس سے بہت پہلے ہمارے سیاست دان اپنی گرم گفتاری سے ماحول کو کچھ کا کچھ کردیں گے۔
عام انتخابات کا ماحول شروع ہونے کے مرحلے میں ایک اور موسم بھی وارد ہوا ہے۔ یہ ہے وفاداریاں بدلنے کا موسم۔ موسمی پرندے ہمیشہ پھل دار درختوں پر بیٹھتے ہیں۔ سیاست میں تیزی سے وفاداری بدلنے والے بھی اُنہی کی طرف جاتے ہیں جن سے غیر معمولی یافت کی توقع ہوتی ہے۔ سوال اصولوں اور دیانت سے کہیں زیادہ مفادات کا ہے۔ کوئی کیسا ہی باکردار اور با اخلاق ہو، اگر وہ کسی کو کچھ دے یا دلا نہیں سکتا تو وہ کسی کام کا نہیں۔ سیاست میں عمومی سوچ یہ ہے کہ اصولوں اور اقدار کا کیا اچار ڈالنا ہے۔
سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حالات کا جائزہ لے کر اپنے لیے اضافی یا بھرپور مفادات یقینی بنانے کی راہ پر گامزن ہوا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی کی فرمائش پر ایسا کیا جائے۔ ایسی صورت میں مفادات کے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ نہیں ہوتا۔ کسی کے اشاروں پر ناچنے والوں کا کوئی نہ کوئی معاوضہ تو طے ہوتا ہی ہے۔ ہماری سیاست بھی بہت حد تک فرمائشی پروگرام جیسی ہوگئی ہے۔ یاروں نے طے کرلیا ہے کہ اپنے طور پر، اصولوں اور اقدار کے ساتھ کچھ کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ کسی کے آغوش میں سمایا جائے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اُس کے ڈسپوزل پر دے دیا جائے۔
عوام کا مخمصہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہر بار انتخابی موسم کے ابتدائی مرحلے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو تمام غیر حل شدہ مسائل ایسے میں یاد آنے لگتے ہیں۔ پارٹی چھوڑنے کا کوئی نہ کوئی جواز تو عوام کے سامنے رکھنا ہی پڑتا ہے۔ پانچ برس کی کارکردگی پیش کرنے کے بجائے اس بات کا رونا رویا جاتا ہے کہ پارٹی کی قیادت نے خود کچھ کیا نہ کرنے دیا۔ اور اگر کوئی پوچھے کہ اگر واقعی ایسا تھا تو پہلے احتجاج کیوں نہ کیا گیا، معاملات کو درست کرنے کا خیال مینڈیٹ کی میعاد کے آخری ایام ہی میں کیوں آیا تو کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں سُوجھتا۔ صرف آئیں بائیں شائیں کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
شِدّت و حِدّتِ بیاں کا گراف ہے کہ بلند ہوتا جارہا ہے۔ کوئی بھی اپنی بات منوائے بغیر سکون کا سانس لینے کو تیار نہیں۔ انتخابی مہم کے نام پر ابھی سے الزام تراشی کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب انتخابی مہم فُل سوئنگ میں ہوگی تب سیاسی جماعتیں اور امیدوار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کیا کر رہے ہوں گے۔ ع
جب رات ہے ایسی متوالی پھر صبح کا عالم کیا ہوگا!
ویسے عوام کے لیے کوئی بھی معاملہ کوئی بڑا مخمصہ نہیں۔ پانچ برس جس طور گزرے ہیں اُس کے نتیجے میں بہت کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ متعدد امور ایسے ہیں جن میں کسی خاص وضاحت کی ضرورت نہیں۔ عوام کی سمجھ میں بہت آچکا ہے اور جو باقی بچا ہے وہ بھی سمجھ میں آتا جارہا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ بالکل سامنے کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ جو کچھ سمجھ میں آتا جارہا ہے وہ فیصلہ کرنے والوں کے لیے انتہائی معاون ہے مگر پھر بھی عوام سے فیصلہ نہیں ہو پارہا۔ کیوں؟ اس ''کیوں‘‘ کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان سے تعلق رکھنے والوں کی تو مختلف مصلحتیں ہوسکتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں چند مصلحتیں اُن کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں مگر عوام کس حوالے سے مجبوری محسوس کرتے ہیں؟ اُن کے پاؤں میں کون سی مصلحت کی زنجیر ہے؟
ملک کو عوام کے منتخب نمائندے ہی چلاتے ہیں۔ جمہوریت اِسی کا نام ہے مگر اِس سے ایک قدم آگے جاکر جمہوریت یہ بھی تو ہے کہ عوام اپنے فرض کو پہچانیں۔ اہلِ سیاست میں بھی بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں اور وہ اکثر عوام کو دھوکا دے جاتے ہیں مگر خیر، دھوکا اُسی وقت دیا جاسکتا ہے جب کوئی دھوکا کھانے کو تیار ہو۔ ہمارے بیشتر سیاست دان اگر راستہ بھول چکے ہیں تو عوام اُنہیں سیدھے راستے پر لاسکتے ہیں۔ بیانات کی گرم بازاری کیسی ہی پرکشش دکھائی دے، عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ محض باتوں سے متاثر ہوکر ووٹ کاسٹ کرنا ہے یا پھر اپنے اور ملک کے مجموعی مفاد کو ذہن نشین رکھتے ہوئے نمائندے منتخب کرنے ہیں۔ آزمائے ہوؤں کو آزمانا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ سیاست دانوں کی گرم گفتاری اپنی جگہ مگر عوام کچھ طے کرلیں تو معاملات کو درست ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
عوام کو یہ نکتہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ میڈیا سے کام لے کر کمال ہوشیاری سے ایک ایسی فضاء تیار کی گئی ہے جس میں ہر معاملے میں خرابی کا ذمہ دار صرف سیاست دانوں کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ ریاستی مشینری نے خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ دودھ کی دھلی ہوئی ہے۔ عوام کا حق ہے کہ سیاست دانوں کو بھی گالیاں دیں مگر صرف اُنہیں بُرا نہ سمجھا جائے بلکہ ہر اُس فرد یا طبقے کو بُرا سمجھا جائے جس نے ملک کی بوٹیاں نوچنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ عوام کے نمائندوں میں خامیاں ہیں مگر خامیاں اور خرابیاں صرف اُن میں نہیں۔