تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     12-04-2018

اب امبیڈکر کو دوہا جائے

دلت حفاظتِ قانون میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ نے اقتداری پارٹی اور مودی کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ یوں تو عدالت کے اس فیصلے سے مودی پارٹی اور سرکارکا کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن پھر بھی ان پر دلت مخالف ہونے کا ٹھپہ لگانے کی کوشش جاری ہے۔ اس رائیگاں کوشش کا مقابلہ کیسے کیا جا رہا ہے؟ ایک تو سرکار نے عدالت میں درخواست لگا دی ہے اور دوسرا‘ مودی نے بہت جم کر ایک بیان جھاڑ دیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی سرکار نے ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ کسی سرکارنے نہیں کیا ہے۔انہوں نے کئی کام گنائے اور کئی وہ بھول گئے۔ جیسے ایک دلت کو صدر بنایا‘ جس گھر میں امبیڈکر کی موت ہوئی‘ اسے یادگار بنایا جا رہا ہے‘ ایک امبیڈکر زیارت کی تجویز بنائی‘ امبیڈکر کے پتلے جگہ جگہ کھڑے کیے وغیرہ وغیرہ...
ا ب شاید امبیڈکر جی کی کتابوں کو سرکار پھر سے چھپائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ امبیڈکر کے نام سے وہ بھارت ہی نہیں‘ ایشیا کا سب سے اونچا انعام قائم کر دے۔ انہیں بھارت کا آئین بنانے والے تو لیڈر لوگ کہنے ہی لگے ہیں۔ یہ ناممکن نہیں کہ اگر دلت ووٹ کھسکنے لگے تو ہمارے پورے عالم (مودی) امبیڈکر کو مہاتما گاندھی سے بھی اونچا درجہ دلانے میں ہوشیاری کرنے لگیں لیکن اگر وہ تھوڑا پڑھنے لکھنے کی زحمت اٹھائیں تو انہیں معلوم پڑے گا کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے 'ذات کا انمولن‘ کتاب لکھی تھی اور وہ ذات پات کے اوچ نیچ سسٹم کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے تھے۔ وہ ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کو لمبے ٹائم تک قائم رکھنے کے بھی خلاف تھے۔ امبیڈکر کے نام کی مالا جپ کر آپ کیا کر رہے ہیں؟ امبیڈکر کے تصور کا قتل کر رہے ہیں۔ ذات پات کو ہوا دے رہے ہیں۔ امبیڈکر کو ذات پات کا آپ نے نشان بنا دیا ہے۔ اگر امبیڈکر کا آپ کو صحیح معنوں میں احترام کرنا ہے تو ایسی پالیسی بنائیں کہ ملک میں دلت نام کا ایک بھی آدمی نہ ملے‘ سب غیر دلت ہوں‘ آپس میں روٹی‘ بیٹی سلوک کریں، کوئی چھوت اچھوت نہ ہو‘ کوئی اونچا نیچا نہ ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمارے لیڈروں کی دکانیں کیسے چلیں گی؟ مویشیوں کی طرح انہیں اندھا تھوک ووٹ کیسے ملے گا؟
کانگریس فری یا مودی فری بھارت ؟
آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ بالکل ٹھیک کہا ہے کہ سنگھ کا یہ کام نہیں کہ وہ کانگریس سے فری بھارت جیسی بات کہے۔ وہ تو سبھی کو ساتھ رکھ کر ملک کی خدمت میں یقین رکھتا ہے۔ موہن جی کے اس بیان پر کئی بھاجپائی کارکنان اور سنگھ کے سیوکوں نے مجھ سے کہا کہ کہیں موہن بھاگوت کو یہ تو نہیں لگ رہا ہے کہ بھارت مودی فری ہونے والا ہے؟ گجرات تو مودی سے آزاد ہوتے ہوتے بچ گیا لیکن بھارت بچے گا کہ نہیں؟ مخالف پارٹی کے لیڈر آج کل جس بری طرح سے پریشان پڑے ہیں‘ اتحادبنانے کے لیے یعنی مودی سے آزاد بھارت کے لیے‘ اسے دیکھتے ہوئے بھاگوت جی کا یہ کہنا کافی اثر دار لگتا ہے کہ اب فری وری کا جملہ چھوڑئیے‘ ساتھ ساتھ خدمت کی بات کیجئے۔ انہوں نے کانگریس سے فری بھارت کے جملہ کو خالص سیاسی کہہ کر رد کر دیا۔ نریندر مودی نے جب یہ جملہ اچھالا تھا‘ تبھی میں نے یہ لکھا تھا کہ یہ جمہوریت کے تصور کے خلاف ہے۔ اس میں سے تانا شاہی کی بدبو آتی ہے۔ جہوریت کا تانگہ ایک پہیہ پر نہیں چلتا۔ ویسے اندرا گاندھی کے خطرناک تجربہ کے بعد بھارت میں کوئی لیڈر تانا شاہ بننے کی اب حماقت نہیں کر سکتا۔ ہاں‘ اس قول سے غرور پھنکارتا ہوا ضرور دکھائی پڑ رہا تھا۔ گزشتہ چار برس کے کام کاج نے اس وقت ابھرے ان اشاروں کو اب درست ثابت کر دیا ہے۔
عام عوام سے زیادہ بھاجپا اور سنگھ کے لیڈر پریشان ہیں۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں ٹکڑوں میں یا سب مل کر ایک ساتھ ہو گئے تو کیا مودی شاہ کی جوڑی بھاجپا کو پھر سے سرکار میں بٹھا سکے گی؟ یہ خیال بھی کہیں کہیں اچھل رہا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ 2019ء کے چنائو کے پہلے بھاجپا مودی سے آزاد ہو جائے؟ بھاجپا میں مودی سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور عاقل لیڈر ہیں‘ جو کئی اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔بھاجپا اور سنگھ کے کارکن بھی نئی لیڈر شپ کے ساتھ جوش سے کام کر سکتے ہیں لیکن یہ سب خیالی پلائو ہے۔ یہ ہونا نہیں ہے۔ نہ بھارت کو کانگریس سے فری ہونا ہے اور نہ ہی بھاجپا کو مودی سے فری ہونا ہے لیکن کانگریس اور مودی پارٹی‘ دونوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں بھارت کی پارٹیاں اندر باہر سے تندرست ہوتیں تو کئی علاقائی پارٹیوں نے اب تک ان میں ایک ہو جانا تھا لیکن خوف یہ ہے کہ علاقائی پارٹیاں متحد ہوکر بھارت کی حکومت پر ہی نہ جم جائیں۔
پارٹیاں یا پرائیویٹ لمیٹڈکمپنیاں
بھارت کی سیاست اب ایک خطرناک موڑ پر آ گئی ہے۔ یوں تو ہم بھارت کو جمہوری ملک کہتے ہیں اور اوپر سے وہ ویسا دکھائی بھی پڑتا ہے۔ یہاں کبھی فوجی تختہ پلٹ نہیں ہوا‘ کبھی آئین رد نہیں ہوا اور کبھی چنائو ٹالے نہیں گئے لیکن یہ سب دکھانے کے دانت ہیں۔ جہاں تک کھانے کے دانتوں کا سوال ہے‘ بھارتی جمہوریت کے ہاتھی کا منہ کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اس میں دانت تو کیا ڈینچر بھی نہیں ہے، کیا آج بھارت میں ایک بھی پارٹی ایسی ہے‘ جو دعویٰ کر سکے کہ وہ جمہوری ہے ؟ تقریباً سبھی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں۔ ہر پارٹی کا صدر اس کا واحد مالک ہے۔ اس کی تعیناتی سبھی کی رضا مندی سے ہوتی ہے ۔نام کے لیے بھی کوئی امیدوار اس کے مقابلے میں نہیں ہوتا ہے۔ایک مالک باقی سب اس کے نوکر! سبھی صوبائی پارٹیاں بھی اسی نقش قدم پر چلتی ہیں۔ کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے‘ کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے‘ کوئی جیجا سالا پارٹی ہے‘ کوئی سہیلی‘ سہیلی پارٹی ہے۔ بھارت کی قومی پارٹیوں کا بھی یہی حال ہے۔ بھاجپا بھائی بھائی پارٹی بن گئی ہے اور کانگریس تو ماں بیٹا پارٹی ہے ہی! ان پارٹیوں میں اندرونی چنائو کیا حقیقت میں ہوتے ہیں؟ ان میں کسی مدعا پر کیا کھل کر اندرونی بحث اور نااتفاقی ہوتی ہے؟ کیا ہم کبھی کسی کی‘ اندرونی اجلاسوں میں ناراضی کی بات سنتے ہیں؟ کیا یہ پارٹیاں کسی خیال‘ کسی اصول‘ کسی قانون سے متاثر ہوتی ہیں؟ ان پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سبھی پارٹیاں ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ سب کا ہدف ایک ہی ہے۔ ووٹ اور نوٹ۔ آج کون سی پارٹی مخالفت میں ہے؟ جیسے حکمران پارٹی‘ ویسا ہی حزب اختلاف! دونوں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ اسی لیے کسان تحریک‘ دلت تحریک‘ تاجران ہڑتال اپنے آپ اٹھ رہے ہیں۔ اگر آج کی اپوزیشن پارٹیاں 2019ء میں اقتدار میں آ گئی تو وہ بھی کیا کر لیں گی؟ وہ بھی ووٹ اور نوٹ کے جھانجھ پیٹیں گے اور رخصت ہو جائیں گی۔ ہماری جمہوریت جھینکتی رہ جائے گی۔
کیا آج بھارت میں ایک بھی پارٹی ایسی ہے‘ جو دعویٰ کر سکے کہ وہ جمہوری ہے ؟ تقریباً سبھی پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں۔ ہر پارٹی کا صدر اس کا واحد مالک ہے۔ اس کی تعیناتی سبھی کی رضا مندی سے ہوتی ہے ۔نام کے لیے بھی کوئی امیدوار اس کے مقابلے میں نہیں ہوتا ہے۔ایک مالک باقی سب اس کے نوکر! سبھی صوبائی پارٹیاں بھی اسی نقش قدم پر چلتی ہیں۔ کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے‘ کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے‘ کوئی جیجا سالا پارٹی ہے‘ کوئی سہیلی‘ سہیلی پارٹی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved