تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-04-2018

سرخیاں‘ متن اور اختر عثمان کی تازہ غزل

پارٹی چھوڑنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی ڈکٹیٹر سے تھا : نوازشریف
نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''پارٹی چھوڑنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی ڈکٹیٹر سے تھا‘‘ جبکہ ہمارا کسی ڈکٹیٹر سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق ڈکٹیٹر نہیں بلکہ ایک روحانی شخصیت تھے جن سے ہم نے صرف روحانیت کا فیض حاصل کیا اور ان کے وصال کے بعد ان کے مزار پر باقاعدہ حاضری دیتا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''جانے والوں کو کہیں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں ملے گی‘‘ بلکہ بڑے احترام کے ساتھ بٹھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسے لوگ سیاست کو بدنام کرتے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے سیاست کو نیک نام بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی اور اس کی مثالیں دی جاتی ہیں کیونکہ اس کے جملہ کو جس قدر ہم نے تندہی سے پورا کیا‘ کوئی اور کر کے تو دکھائے‘ اگرچہ عدالتوں کی جانبداری کی وجہ سے ہمیں اس کے لیے بھی پریشان کیا جا رہا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز کمرئہ عدالت میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جنوبی پنجاب‘ صوبہ بہاولپور بنانے کی
قراردادیں ہم نے منظور کرائیں : شہبازشریف
خادم اعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جنوبی پنجاب میں صوبہ بہاولپور بنانے کی قراردادیں ہم نے منظور کرائیں‘‘ اگرچہ ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا کیونکہ کوئی بھی بادشاہ اپنی سلطنت کو سُکڑتے نہیں دیکھ سکتا اور رعایا کی بھلائی بھی اسی میں ہے کہ وہ ایک ہی فرمانروا کے تابع فرمان رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقیاتی بجٹ کا 36 فیصد جنوبی پنجاب پر خرچ کیا‘‘ کیونکہ ہمارے ماہرین کی رپورٹ سے یہی ثابت ہوتا ہے‘ اگرچہ جنوبی پنجاب کے لوگ ہرگز اس قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی میں اس ایشو کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا‘‘ حالانکہ یہ بالکل غیر سیاسی اور محض خیرات کا معاملہ تھا اور ہماری سخاوت کو ہمارے قریبی حلقوں اور فضل الرحمن سے زیادہ کون جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تصادم اور محاذ آرائی کی پالیسی سے پرہیز لازم ہے‘‘ اور جہاں تک بھائی صاحب کا تعلق ہے تو وہ محض دل پشوری کرتے رہتے ہیں کیونکہ ان کی سیاست تو ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔ آپ اگلے روز جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
شریف برادران نے قوم کو پاگل بنایا ہوا ہے : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''شریف برادران نے قوم کو پاگل بنایا ہوا ہے‘‘ اور ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا کیونکہ ہم نے بھی تو اقتدار میں آ کر یہی کچھ کرنا ہے اور یہی ہماری سیاست کی روایت بھی ہے اور شریف برادران چونکہ قوم کو اپنے حصے کا بلکہ اس سے بھی زیادہ‘ پاگل بنا چکے ہیں اس لیے ہماری حق تلفی نہ کریں اور یہ سعادت ہمیں بھی حاصل کرنے دیں تاکہ ہماری عاقبت بھی سنور سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا مطالبہ درست ہے‘‘ اور ہمارا اسے درست قرار دینا ہی کافی ہے کیونکہ وہاں کے لوگ اس کے لیے خود جدوجہد کر رہے ہیں‘ نیز ہم نے اگر اس کے لیے زیادہ زور لگایا تو کے پی والوں کو بھی نئے صوبے کی شرارت سوجھ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف نے کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا‘‘ حالانکہ مولوی فضل الرحمن بیچارہ اکیلا ہی اس کے لیے کافی تھا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
زرداری نے عمران کا اصل چہرہ قوم کو دکھا دیا : اسفندیار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی نے کہا ہے کہ ''زرداری نے عمران کا اصل چہرہ قوم کو دکھا دیا‘‘ اور شکر ہے کہ ہمارا اصل چہرہ بھی ابھی قوم کو دیکھنا باقی ہے‘ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے اصل چہرے سے قوم بخوبی واقف ہے نیز اس بیان سے زرداری اپنا اصل چہرہ قوم سے چھپانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ سیاست میں آ کر ہر جماعت کا چہرہ ایک سا ہو جاتا ہے اور ایک کو دوسری سے پہچانا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک کو غیر ضروری بحران کی طرف دھکیلا جاتا ہے‘‘ حالانکہ ملک میں ضروری بحران ہی اس قدر کافی ہے کہ اسے ان کی طرف بھی دھکیلا جا سکتا ہے بلکہ دھکیلنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ملک پہلے ہی گوڈے گوڈے بحرانوں میں دھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدلیہ اپنے آپ کو سیاسی مسائل میں الجھا کر متنازع نہ بنے‘‘اور سیاستدانوں کو بے لگام ہی رہنے دے۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب اسلام آباد سے اختر عثمان کی یہ تازہ غزل اور کچھ مزید شاعری :
حُسن کی لہر کراں تابہ کراں ہوتی تھی
ایک جھلمل سی کہیں جی میں رواں ہوتی تھی
مجتمع کیسے ہوا کرتے تھے نُور اور وفور
اور جب ساتھ کی مسجد میں اذاں ہوتی تھی
جب تو جھیلا نہیں جاتا تھا سُبک پن اپنا
اولِ عشق میں زنجیر گراں ہوتی تھی
لب و رخسار کی تعظیم بجا لانے کو
روزمرہ ہوا کرتا تھا‘ زباں ہوتی تھی
آج شہرت ہے ترے پاس تو اِترا نہیں دوست
اک زمانے میں یہ کسبی مرے ہاں ہوتی تھی
جان کاوی سے غزل ہوتی تھی اختر عثمان
خون جلتا تھا مگر شعر میں جاں ہوتی تھی
اس پر بھی ہے نگاہ کسی ساہوکار کی
لے دے کے اپنا آپ ذرا سا ہے میرے پاس
ممکن نہیں کہ ہو کوئی مجھ سے بڑا فقیر
ارمان کائنات کا کاسہ ہے میرے پاس (علی ارمان)
ہمارا چلنا بجا ہے کہ بھاگنا اُس کا
کبھی تو وقت کی رفتار فیصلہ کرے گی
ہجر کا ایک تو احسان نہیں ہے مجھ پر
دل ہو خالی تو مری آنکھ بھری ہوتی ہے
ہجر آسان ہوا ہے ترا اتنا اے شخص
اب تجھے یاد بھی مشکل سے کیا جاتا ہے
اس لیے چھوڑ دیا بھیس بدلنا میں نے
مجھ کو ہر رُوپ میں پہچان لیا جاتا ہے (فقیہہ حیدر)
آج کامقطع
تھی کسی یاد کی پھوار‘ ظفرؔ
جس نے سارا بھگو دیا ہے مجھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved