''عمران خان نے بہت ہی اچھا کیا کہ انہوں نے کوئٹہ پہنچ کر بلوچستان کے عوام سے ان کے دلوں پر وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی کے بیانات سے لگنے والے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ چند لوگوں کے سوا پورا پاکستان بلوچستان سے پیار اور محبت سے لبریز ہے اور وہ وقت بہت ہی قریب ہے جب بلوچستان کے حقوق کی تکمیل بلوچستان کے عوام نہیں بلکہ پور اپاکستان مل کر کریں گے۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی اصلی مسلم لیگی نے افغانیہ کا ڈھپ پیٹنے والے اچکزئی جیسے شخص سے اتحادکیا ہو؟ کوئی بھی مسلم لیگی شیخ مجیب الرحمن کی تقلید کرنے یا ملک توڑنے جیسے نعرے لگا نے والے چادر پوشوں کو اپنا کندھا استعمال کرنے کی اجا زت نہیں دے سکتا۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جاتی امرا سے بلوچستان کے اہم عہدوں پر ایسی ایسی پوسٹنگ ہوتی رہیں کہ بلوچستان آگ اور خون میں جلنے لگا اور جب نواز لیگ کی بلوچستان حکومت میں سرفراز بگٹی، انوا ر لحق کاکڑ اور عبد القدوس جیسے محب وطن وزراء نے محسوس کیا کہ نواز، زہری، بزنجو اور اچکزئی اتحاد کی '' دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ سب کچھ ہی کالا ہے‘‘ تو وہ وطن کی محبت اور حفاظت کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔ شہنشاہ معظم کو بلوچستان کے ان وزیروں کی یہ جرأت اس قدر بری لگی کہ سوچے سمجھے بغیر اداروں کے لتے لینا شروع ہو گئے۔ ایساکہنے کی وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ میاں نواز شریف سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ2013ء کا الیکشن ان کی جھولی میں ایک بریگیڈئر نے ہی ڈالا تھا، جسے ریٹائر ہونے کے بعد پنجاب میں ایک بہت ہی اہم عہدے پر بٹھا دیا گیا ہے۔ ورنہ الیکشن ڈے پر تو خواجہ سعد رفیق نے دوپہر کو ہی اپنے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے میاں صاحب کو دہائی دینا شروع کرد ی تھی: ''میاں صاحب عمران سب کچھ لے گیا جے‘‘۔
سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کے ارکان کی کل تعداد32 تھی، جبکہ پی پی پی کے20 ارکان تھے۔ اگر یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو جاتیں تو چیئر مین سینیٹ ان کا بن جاتا، لیکن نواز لیگ کی ضد تھی کہ پی پی پی کے امیدوار رضا ربانی کے سوا کسی اور کو قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ آئی بی کے آفتاب سلطان میاں صاحب کو یقین دلا چکے تھے کہ آصف زرداری رضا ربانی کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ اس طرح نواز لیگ ایک تیر سے دو شکار کر رہی تھی۔ ایک:۔پی پی پی میں دراڑیں مزید گہری کرنا اوردوسرا:۔ فوج کے مخالف حلقوں جسے آج کل لبرل کہا جاتا ہے، ان میں اپنے لئے جگہ بنانا۔‘‘ اب ایک جانب پی پی پی اکیلے کامیاب نہیں ہو سکتی تھی تو دوسری جانب نواز لیگ کا بھی یہی حال تھا۔ عمران خان نہ تو پی پی کا چیئر مین سینیٹ قبول کر سکتے تھے اور نہ ہی نواز لیگ کا۔ اب پی پی اور عمران کے پاس صرف ایک ہی چوائس تھی کہ وہ کسی ایسے شخص کو امیدوار بنائیں جو ان دونوں کیلئے قابل قبول ہو اور اس کیلئے بلوچستان سے صادق سنجرانی کے نام کا قرعہ فال نکلا، اس کیلئے ایم کیو ایم بھی تیار تھی، کیونکہ وہ کہہ چکی تھی کہ اگر کسی چھوٹے صوبے سے امیدوار آیا تو وہ اس کی حمایت کرے گی۔
میاں صاحب اپنی تقریروں میں معنی خیز اشارے کرتے ہوئے دہائیاں دے رہے ہیں کہ یہ ان کے خلاف سازش ہے جس نے سب کو سنجرانی کے پاس بھیج دیا ہے۔ جناب والا نریندر مودی کے کہنے پرحسینہ واجد جب جماعت اسلامی کے لوگوں کو پھانسیوں پر چڑھارہی ہے تو نواز مودی دوستی کو جانتے ہوئے بھی اگر جماعت اسلامی نے سینیٹ کے دو ووٹ نواز لیگ کی جھولی میں ڈال دیئے تو پھر سازش کہاں سے آ گئی؟ اگر آپ کے دل میں چھوٹے صوبے کو ملکی سیا ست اور اختیارات میں بڑا حصہ دینے کا جذبہ ہوتا تو آپ خوشی سے بلوچستان سے چیئر مین سینیٹ کو مبارکباد دیتے، لیکن آپ کا معیار کچھ اور ہے، اس لئے آپ کو اور آپ کی جماعت کو بلوچستان سے سینیٹ کا چیئر مین برداشت نہیں ہو رہا ۔ آپ بلال گنج سے مسلم لیگ نواز کے بلدیاتی کونسلر کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیں تو یہ درست ہے؟ آپ کبھی رفیق تارڑ تو کبھی ممنون حسین جیسے شخص کو پاکستان کے صدر کے عہدہ جلیلہ پر فائز کر دیں تو یہ درست ہے؟ آپ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ اور گھر میں رکھنے کیلئے غلام حیدر وائیں مرحوم جیسے شخص کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنا دیں تو یہ درست ہے؟ آپ کچھ رشتہ داریوں کے حوالے سے اپنے بہت ہی قریبی جسٹس ریٹائرڈ رضا خان کو پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ادارے کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کر دیں تو یہ درست ہے؟ آپ کسی نجی کمپنی پر فضل و کرم کی بارش کر دیں تو یہ درست ہے، لیکن صادق سنجرانی قبول نہیں کہ وہ تو آپ کا معمولی کوارڈینیٹر رہا تھا جو اب زنجیریں توڑ کر آپ کی قید سے آزاد ہونے کا جرم عظیم کرچکا ہے ۔ صادق سنجرانی جیسے بلوچ کا ایک قصور یہ بھی ہے کہ وہ آپ کے قدرتی اور نظریاتی اتحادی محمو خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور میر اسرار اﷲ زہری کی اندر ہی اندر ملکی سرحدوں کے خلاف جاری شب خون سے واقف ہو چکا تھا، وہ اور اس کے سرفراز بگٹی جیسے ساتھی بلوچستان کی علیحدگی اور افغانیہ نام کے نئے ملک کی سازش سے آگاہ ہو چکے تھے ۔ صادق سنجرانی بلوچستان اپنے مرکز سے زہری، اچکزئی اور بزنجو فارمولے سے اپنے دوسرے سا تھیوں سمیت بغاوت کر چکا ہے اور یہ ایک ایسا قصور ہے جو ملکی سرحدوں کو لکیر سے تشبیہ دینے والوں کے خلاف کھلی بغاوت کے مترادف ہے۔ چیئر مین سینیٹ کے الیکشن کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے، لیکن میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی ابھی تک سنجرانی کی کامیابی کو ہضم نہیں کر پارہے اور جو دکھ میاں صاحب کو اپنا چیئر مین نہ ہونے سے لاحق ہو اہے، اسی قسم کا دکھ محمود خان اچکزئی اور میر حاصل بزنجو کو بھی ہے، کیونکہ اٹھتے بیٹھتے بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں سے اب پوچھا جانے لگا ہے کہ جب ایک بلوچ کو پاکستان کے ایوان بالا کا چیئر مین منتخب کیا گیا ہے تو پھر آپ کیوں کہتے ہیں کہ بلوچوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ براہمداغ بگٹی، ما ما قدیر، حمائل حیدر، حسین حقانی جیسے لوگوں کو جو ایک جیسے نظریات اور خیالات کی وجہ سے اچکزئی، بزنجواور زہری جیسے سرحدوں کو لکیر سے تشبیہ دینے والوں کے قدرتی اتحادی ہیں۔ ان سب کو یہ دکھ بے چین کئے ہوئے ہے کہ پاکستان کے خلاف ہمارے نفرت انگیز پراپیگنڈے کو ایک عام بلوچی نے سینیٹ کا چیئر مین منتخب ہو کر دھندلا دیا ہے۔ سوائے چند لاکھ لوگوں کے پاکستان بھر میں صادق سنجرانی کی کامیابی کو بلوچستان کی فتح قرار دیا جا رہا ہے، جس سے اس تاثر کو کم کرنے میں مدد مل رہی ہے کہ 70 برسوں سے بلوچستان کو نظر انداز کرنے کا وقت اب گذر گیا ہے۔ آئینی طور پر چیئر مین سینیٹ کی حیثیت اس لئے بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے کہ صدر ممنون حسین کی ریٹائر منٹ یا ان کی غیر حاضری میں قائم مقام صدر کی حیثیت سے ملک کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کا عہدہ اب بلوچستان کے پاس ہو گا!!