تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-04-2018

دو وقت کی روٹی سے آگے

کراچی میں زندگی بھی کسی زمیندار کی بیگار کی سی ہو گئی ہے کہ مرضی نامرضی کرنا ہی پڑے۔ حالات خواہ کچھ ہوں، عوام کے لیے مسائل کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ چند برس پہلے تک شہر دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے چُنگل میں تھا۔ تب ایسا لگتا تھا کہ امن بحال ہو جائے اور جرائم پیشہ افراد سے جان چُھوٹے تو زندگی بسر کرنے کا کچھ لطف محسوس ہو۔ انسانی فطرت ہے ہی کچھ ایسی۔ جو مصیبت سر پر پڑی ہو اُس کے حوالے سے یہ تصور جنم لیتا ہے کہ اُس سے جان چھوٹ جائے تو زندگی سنور جائے، جینا رائیگاں نہ جائے۔ یہ محض خام خیالی ہے۔ سوال کسی ایک مسئلے کے حل ہونے کا نہیں۔ مجموعی طور پر پورا ماحول مسائل سے پاک ہو تو بات بنے۔
کراچی میں امن بحال ہوا تو لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ سٹریٹ کرائمز کی روک تھام سے متعلق اقدامات بار آور ثابت ہوئے تو عمومی تسکین کا گراف کچھ اور بلند ہوا۔ یہ سب کچھ بہت خوش آئند تھا۔ لوگ دہشت گردی اور عمومی جرائم دونوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ جب ان دونوں پریشانیوں سے نجات ملی تو دل کھل اٹھے۔
امن کی بحالی اور جرائم کی بیخ کنی عوام کے لیے تسکین کا ایک اہم ذریعہ تھی مگر اُنہیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ محض اِتنے سے کام نہیں چل سکتا۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے امن کی بحالی اور جرائم پیشہ افراد سے گلو خلاصی کافی نہیں۔ جینے کو اور بھی بہت کچھ چاہیے۔ کراچی کے بنیادی مسائل اپنی جگہ ہیں۔ بے امنی اور جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں تو اضافی دردِ سر کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہ سوچنا سادہ لوحی کا مظہر تھا کہ امن کی بحالی اور جرائم پیشہ گروہوں کی بیخ کنی سے بھرپور اور پُرمسرّت زندگی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ کراچی میں ہر طرف طرح طرح کے جرائم پَر پھیلائے ہوئے موجود ہیں۔ چوری، لوٹ مار، تشدد اور قتل و غارت سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے جو اپنی اصل میں جرائم کے سوا کچھ نہیں مگر ہم اُسے جرائم کے زُمرے میں رکھنے کے روادار نہیں۔
اہلِ کراچی ایک مدت سے بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ بجلی اور پانی کا بحران کسی طور ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ پوری پوری ادائیگی کے باوجود عوام کو ضرورت کے مطابق پانی مل پاتا ہے نہ بجلی۔ ہزاروں گھر ایسے ہیں جہاں برسوں سے پانی نہیں آتا مگر پانی کا بل ضرور آتا ہے۔ بجلی کا معاملہ یہ ہے کہ لوگ شِکوہ اور احتجاج کرتے کرتے تھک چکے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورتِ حال کا تدارک کیسے ہو۔ متعلقہ ادارے اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عدالتیں بھی نوٹس لے لے کر اور احکام جاری کر کرکے تھک چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی میں متعدد مسائل کے حوالے سے از خود نوٹس کے تحت احکام جاری کیے ہیں۔
شہر کا بنیادی ڈھانچا انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ پانی کی فراہمی اور نکاس کا نظام ایسا ناکارہ ہے کہ اب اُسے درست کرنے سے کہیں بہتر تبدیل کرنا ہے۔ مگر جہاں ایک علاقے میں پائپ لائن بچھانا دردِ سر ہو وہاں پورے شہر کا نظام کیونکر تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ لوگ اب تک نکاسیٔ آب کے حوالے سے اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ زندگی ٹھہر سی گئی ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ الجھنیں بہت چھوٹی ہیں۔ کسی بھی بڑے شہر میں بنیادی مسائل کو حل کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے تاکہ لوگ غیر ضروری پریشانی سے نجات پاکر اپنے کام پر پوری توجہ دے سکیں۔
کراچی کا بھی وہی حال ہے جو ملک کے دوسرے بہت سے بڑے شہروں کا ہے۔ بعض شہروں میں چند ایک معاملات کو درست کر لیا گیا ہے مگر کراچی میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بھی بنیادی مسئلے کو حل نہ کرنا بنیادی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے۔ لوگ زندگی بسر نہیں کر رہے، بڑے شہر میں جینے کی سزا بھگت رہے ہیں یا پھر بڑے شہر میں سکونت کا ٹیکس ادا کر رہے ہیں! ایسا لگتا ہے کہ پوری کی پوری زندگی ''مینٹیننس‘‘ میں گزر جائے گی۔
دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی لوگ دن رات ایک کرکے صرف گزارے کی سطح پر جی پا رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پانی اور بجلی جیسی انتہائی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام درست کرنے پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان دونوں سہولتوں کا حصول شہریوں کے لیے دردِ سر بنا دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں مافیا بُری طرح ملوث ہے۔ اضافی المیہ یہ ہے کہ جو علاقے بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں انہیں بجلی دینے میں تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور جہاں سے ریکوری برائے نام بھی نہیں‘وہ علاقے چوری کی بجلی دل کھول کر خرچ کر رہے ہیں اور وہ بھی برائے نام پیسے دے کر۔ یہی حال پانی کا ہے۔ شہر کے کئی علاقوں میں پانی دھڑلے سے چرایا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہیں بل ادا کرنے پر بھی پانی نہیں مل پاتا اور دوسری طرف وہ ہیں جو بل ادا کرنے پر یقین ہی نہیں رکھتے مگر پانی سے فیض یاب ہونے کے معاملے میں بہت آگے ہیں!
کراچی میں نصف سے زائد آبادی تمام سرکاری واجبات باقاعدگی سے ادا کرکے باقی نصف آبادی کا بوجھ سہار رہی ہے۔ کچی آبادیوں میں بجلی اور پانی کی چوری عام ہے۔ ان آبادیوں میں پراپرٹی ٹیکس کا بھی کوئی تصور نہیں۔ باضابطہ آبادیوں کے مکین تمام سرکاری واجبات ادا کرکے کچی اور غیر قانونی آبادیوں کے مکینوں کا قرض بھی اتارنے پر مجبور ہیں۔ یہ تو بیگار کی سی کیفیت ہوئی۔ اِسے ناانصافی اور ظلم سے کم کچھ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
شہر کو نئی منصوبہ بندی اور اُس سے کہیں بڑھ کر نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ شہریوں کو انصاف چاہیے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے کام کرنا لازم ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پوری زندگی‘ کسی بڑے شہر میں جینے کے واجبات کی ادائیگی میں گزر جائے! جو لوگ سسٹم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سبھی کچھ ادا کر رہے ہیں انہیں بنیادی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی چاہئیں۔ اس معاملے میں غفلت شعاری کی گنجائش نہیں۔ کراچی کو زیادہ سے زیادہ Managable بنانے کی ضرورت ہے۔ شہر کی آبادی کے حجم اور رقبے میں اضافے کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بھی درست کیا جانا ہے۔ زندگی کا مفہوم محض یہ تو نہیں کہ صبح کو شام کیا جائے، دو وقت کی روٹی کا اہتمام کیا جائے۔ لوگوں کو اِس سے بڑھ کر بھی کچھ ملنا چاہیے۔ شہرِ قائد کے حالات کچھ ایسے کر دیئے گئے ہیں کہ لوگوں کے لیے زندگی کا دائرہ دو وقت کی روٹی کے اہتمام تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ زندگی جیسی نعمت محض اِس لیے نہیں دی گئی کہ اِسے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے پر صرف کر دیا جائے۔ یہ تو صریح ظلم ہے۔ زندگی دو وقت کی روٹی سے بہت آگے کی چیز ہے۔ عوام کو بہت کچھ ملنا چاہیے اور اس کے لیے متعلقہ اداروں کو بہت کچھ کرنا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved