تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-04-2018

آخر کیوں؟

منظور پشتین مخلص ہو سکتا ہے مگر اس کی کاوش کا ثمر بدگمانی، نفرت اور انتشار ہے۔ اس کی تحریک اگر بڑھتی جائے تو انارکی ہو گی۔ پھر پاکستانی لبرلز اس جوش و خروش کے ساتھ اس کی حمایت میں کیوں اٹھے ہیں؟ 
تحریک کے نعروں پر غور کیجیے۔ ''یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے ‘‘۔ اس کے مطالبے پر غور کیجیے کہ ثالثی میں بین الاقوامی اداروں کو شریک کیا جائے۔ 
یہ پہلا موقع نہیں کہ ملک کو ایسی تحریک سے واسطہ پڑا ہو۔ پختونستان کا غلغلہ مدتوں برپا رہا؛ حتیٰ کہ اپنی موت آپ مر گیا۔ جمعہ خان صوفی کی کتابوں ''فریبِ ناتمام‘‘ اور "Abdul Gaffar Khan, a Reluctant Nationalist" میں ان دنوں کی روداد تفصیل سے بیان ہوئی ہے ، اجمل خٹک سمیت کئی پشتون لیڈر جب کابل میں براجمان تھے ۔ بھارتی سفارت خانے کے ساتھ ہمہ وقت جو رابطے میں رہتے... اور عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی سے وابستہ پختون زلمے کے نوجوانوں کو تخریب کاری کی تربیت دی جاتی۔ افغانستان میں روس کی پسپائی نے اس سازش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ 
بنگلہ دیش میں علیحدگی کی تحریک اور پاکستان کے دولخت ہونے کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے ۔ جی ایم سید کی ''جیے سندھ‘‘ تحریک کو بھارت کی پوری پشت پناہی حاصل تھی ۔ پونہ سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں برسوں اس کے کارکنوں کو ہر طرح کا اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دی جاتی رہی ۔ بعد ازاں سندھ کے پہاڑی علاقوں میں الطاف حسین کے جانبازوں کی رہنمائی کی جاتی رہی؛ تا آنکہ وہ بھارت ہی کا رخ کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ سری لنکا اور سنگا پور سے جنوبی افریقہ تک پھیل گئے ۔ ہزاروں بے گناہ کراچی میں قتل کیے گئے؛ حتیٰ کہ بوری بند لاشیں روز کا معمول بن گئیں ۔ اس تمام عرصے میں امریکہ اور برطانیہ ایم کیو ایم پہ مہربان رہے۔ ان کے گھر سے لاکھوں پائونڈ برآمد ہونے کے باوجود قانونی کارروائی کیوں نہ کی گئی ؟ پاکستان میں نفرت پھیلا کر قتل و غارت کو ہوا دینے کی کوششوں کے باوجود ، برطانوی قانون کی رو سے جو ایک سنگین جرم ہے ۔ لگ بھگ پانچ برس ہوتے ہیں، پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے یہ سوال ایم آئی سکس کے سربراہ کے سامنے اٹھایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حلف اٹھا کر انہوں نے اس کی تردید کی۔ تاثر دیا کہ اب یہ پالیسی انہوں نے ترک کر دی ہے؛ تاہم پرنالہ وہیں رہا۔ 
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ابھی کل کی بات ہے ، جس کا نام لینے سے قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کو گریز ہے ۔ برسوں سے افغانستان کی سرزمین ، قبائلی پٹی اور بلوچستان میں تخریب کاری کے لیے استعمال کی جا رہی ہے ۔ این جی اوز کی گود میں پلنے والے احساسِ کمتری کے مارے ہمارے نام نہاد لبرلز اپنے تجزیوں میں ان چیزوں کا حوالہ تک نہیں دیتے۔ 
محترمہ عاصمہ جہانگیر اور ان کے مربّی آئی اے رحمن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ جوں ہی اقدام کا آغاز ہوا ، وہ انسانی حقوق کا علم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ 
پشتو کی ایک کہاوت ہے ''جنگ میں گڑ نہیں بانٹا جاتا‘‘ کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی میں خوں ریز جنگ کے ہنگام بعض معصوم لوگ بھی نشانہ بنے ہوں گے ۔ یقینا بنے ہوں گے ۔ پاکستانی فوج فرشتوں پہ مشتمل نہیں ۔ اس کے فرزند گوشت پوست کے بنے ہیں ۔ وزیرستان کے محسود علاقے میں پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعے سے ایک بار میں نے ذاتی طور پر ایک با اختیار جنرل کو مطلع کیا۔ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی نیک نام سبکدوش سول سرونٹ سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا ۔ گھنٹہ بھر اس کی بات انہوں نے پورے تحمل سے سنی ۔ ضروری سوالات کیے اور یقین دلایا کہ نہ صرف اس معاملے میں پوچھ گچھ کی جائے گی بلکہ آئندہ اس طرح کے اقدامات روکنے کی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی ۔ کبھی کبھار سرزد ہو جانے والی حماقت کی بات دوسری ہے ، وگرنہ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین پیشہ ورانہ افواج میں سے ایک ہے ۔ جہاں کہیں خانہ جنگی یا فساد برپا ہو ، اقوامِ متحدہ پاکستانی فوج کے دستے بھجوانے کو ترجیح دیتی ہے۔ 
پاکستانی فوج بھارت کا ہدف ہے ۔ اب اس کے تزویراتی حلیف امریکہ بہادر اور اس کے زیرِ اثر افغان حکومت کا بھی ۔ انکل سام پاکستان کو تخریب کاری کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ پاک سرزمین سے جنگجو افغانستان کا رخ کرتے ہیں ۔ پھر کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ پاکستانی فوج جب افغان سرحد پر چوکیاں تعمیر کرتی اور باڑ لگاتی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ افغان جنگ میں 700 بلین ڈالر ضائع کرنے والا امریکہ خود یہ باڑ کیوں نہیں لگاتا؟ سرحد کے دوسری طرف چوکیاں کیوں تعمیر نہیں کرتا؟ پاکستان میں این جی اوز کی سرپرستی کے لیے اس کے پاس سرمائے کی کوئی کمی نہیں لیکن خطے میں قیامِ امن کے لیے بنیادی اقدامات پر کیوں وہ توجہ نہیں دیتا؟ اس لیے کہ وہ امن کا خواہش مند ہی نہیں ۔ خطے میں کشیدگی عسکری طور پر اس کے قیام کا جواز عطا کرتی ہے۔ 
''یہ جو دہشت گردی ہے ، اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے احمق ہیں یا پرلے درجے کے حیلہ ساز؟ سبھی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف خوں ریز جنگ میں پاک فوج نے ہزاروں زندگیاں قربان کی ہیں ۔ اس جہاد میں شہید ہونے والے جوانوں اور افسروں کا تناسب چونکا دینے والا ہے ، سات اور ایک۔ جدید جنگوں کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں۔ 
پاکستانی فوج کا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنے وطن کو شام ، لیبیا اور عراق بننے سے بچا لیا ہے ۔ دنیا میں جہاں کہیں ایسی کشمکش ہوئی، فوج کا ایک حصہ فرار ہو جاتا ہے ۔ بد دلی پھیل جاتی ہے، جوان اور افسر خود کشیاں کرنے لگتے ہیں ۔ تاریخ ساز قربانیاں دے کر پاک فوج نے ملک کو متحد رکھا ہے ۔ ہر ہفتے چار پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے تھے ۔ صورتِ حال اب یکسر مختلف ہے ۔ مارکیٹوں ، مزاروں ، امام بارگاہوں اور سرکاری دفاتر میں قتلِ عام ہی نہیں ، کراچی میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کا تقریباً مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ۔ بلوچستان میں فراریوں کی اکثریت ہتھیار ڈال چکی یا ڈالنے پر آمادہ ہے ۔ پختون خوا سے متصل قبائلی علاقوں میں سول آبادی گھروں کو لوٹ رہی ہے ۔ یہ فوج کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا وقت ہے یا گالی دینے اور بدنام کرنے کا؟
امریکہ تلا ہوا ہے کہ بھارت کو خطے کا تھانیدار بنا دے ۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور جنگ کی بھٹی سے کندن بن کر نکلنے والی پاک فوج اسے قبول نہیں ۔ بھارت کی طرح، وہ پاکستان کو سکّم، بھوٹان یا بنگلہ دیش بنانا چاہتا ہے ۔ عالمی سطح پر یہ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کا اتحاد ہے ۔ پاکستان میں بھاڑے کے لبرلز اس کے دست و بازو ہیں ۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک کے انگریزی اخبارات میں پاک فوج کے خلاف اور منظور پشتین کے حق میں مضامین کا تانتا بندھا ہے ۔ انگریزی پریس پہ سی آئی اے کی سرمایہ کاری زیادہ ہے۔ 
قبائلیوں کے ساتھ آبرومندانہ سلوک ہونا چاہئے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ بارودی سرنگیں صاف کی جانی چاہئیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتیں ان کے لیے ارزاں ہونی چاہئیں ۔ فوج میں ان کی بھرتی کا تناسب بڑھنا چاہئے ۔ صدیوں سے غربت کی ماری مخلوق کے لیے روزگار کے مواقع مہیا ہونے چاہئیں۔ 
یہ سب کچھ قیامِ امن سے حاصل ہو گا یا خلفشار سے ؟ افواج، سیاسی قوتوں اور سول انتظامیہ کے تعاون یا تصادم سے ؟ قبائل کے صو بے کا حصہ بننے اور ایک نظام کی تشکیل سے یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے سے ؟ امن ، محبت اور مذاکرات سے یا نفرت کے فروغ سے ؟ قبائل کو پختون خوا کے اندر ضم کرنے میں فوج رکاوٹ ڈال رہی ہے یا نواز شریف کے چہیتے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن ۔ منظور پشتین اور ان کے ساتھی ان مفاد پرستوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ 
منظور پشتین مخلص ہو سکتا ہے مگر اس کی کاوش کا ثمر بدگمانی ، نفرت اور انتشار ہے۔ اس کی تحریک اگر بڑھتی جائے تو انارکی ہو گی۔ پھر پاکستانی لبرلز اس جوش و خروش کے ساتھ اس کی حمایت میں کیوں اٹھے ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved