تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     13-04-2018

وفاداریوں کا کاروبار!

جیسے سٹاک مارکیٹ کے''کسینو‘‘ میں تیزی اور مندی کا معیشت اور معاشرے کے عروج و زوال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ اسی طرح سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کی وفاداریوں اور ضمیر فروشی کے کاروبار کا اس معاشرے کے حالات زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوا کرتا۔ ''جنوبی پنجاب‘‘ کے وڈیروں اور نودولتیوں کی ایک اور کھیپ نے سیاست کی اس منڈی میں اپنی وفاداریوں کا ایک نیا سودا کیا ہے۔ اب منڈی میں اس سودے کا انجام جو بھی ہو‘ لیکن انہوں نے یہ کام کسی بڑی منافع خوری کی ہوس میں ہی کیا ہو گا۔ آج کے عہد کی مسلط سیاست میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ کمپنیوں کے حصص کی طرح‘ ابھی بہت سارے (نام نہاد الیکٹ ایبلز) ایسے ہیں جو سٹاک مارکیٹ کی قیاس آرائیوں کی طرح ابھی پرانی کمپنیوں (سیاسی پارٹیوں) کے ہی شیئر ہولڈر رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ حصص کی بہتر قیمت لگنے پر 'کوئی بھی‘ کسی کمپنی (پارٹی) سے اپنے حصص اس سیاسی سٹاک ایکسچینج پر رجسٹرڈ کسی دوسری کمپنی ( پارٹی) میں ڈال سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب کمپنیاں کمزور اور چور ہوں تو پھر ریگولیٹر اور 'رجسٹریشن اتھارٹیاں‘ سب سے زیادہ مال بناتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے محنت کش طبقے کی پیدا کردہ دولت اور وسائل کا استعمال بھی ان ریگولیٹروں کی لوٹ مار میں ہی ہوتا ہے۔ 
دنیا بھر میں ''سول سوسائٹی‘‘ کو جمہوریت جمہوریت کھیلنے کا بہت شوق ہے۔ فوجی آمریتوں کا حکمران طبقات کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے 'جمہوری نمائندوں‘ کے توسط سے (نسبتاً سستے داموں) اپنی حاکمیت کو زیادہ پُرفریب انداز میں جاری رکھتے ہیں۔ فوجی آمریتوں کے جبر اور ظلم کا خوف عوام پر مسلط کرواتے ہوئے‘ ان کو اسی سے گزارہ کرنے کی تلقین کرواتے ہیں۔ آمریتوں کے ادوار میں محنت کشوں کی تحریکوں کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ عمومی سماجی شعور پر ریاستی جبر کی اس سیاہ رات میں‘ جب (آمریت کی) تاریکی لامتناہی محسوس ہونے لگتی ہے‘ تو مایوسی ان کو نت نئے آسرے تلاش کرنے کی غلط فہمی پیدا کروا دیتی ہے۔ فوجی آمریتوں کے جبر سے ڈرا کر جمہوریت کے روپ میں حکمران اپنا استحصال اور لوٹ مار جاری رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی فوجی آمریتیں‘ ان سویلین حکمرانوں کی کرپشن اور جرائم زدہ سرمایہ داری سے گھائل اور مجروح عوام میں پھر ماضی بعید کے جرنیلوں کی مفروضوں پر مبنی عظمتوں اور کامرانیوں کے فرضی داستانوںکے ذریعے اپنی افادیت کا جواز فراہم کرواتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کا حکمران سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ‘ اپنے جنم سے ہی اپاہج اور بدعنوان تھا‘ وہ صحت مند سرمایہ دارانہ معیشت اور جدید قومی ریاست بنانے کی صلاحیت اور درکار وسائل ہی نہیں رکھتا تھا، اس لئے مالیاتی جرائم اور بدعنوانی اس کی اقتصادی اور نفسیاتی سرشت میں شامل تھے اور لوٹ مار اس کے خمیر میں ملی ہوئی ہے۔ لیکن آمریتوں اور جمہوریتوں کی اس آنکھ مچولی کے کھیل اور اقتدار کے گھن چکر میں اگر کوئی 'اقدار‘ تھا بھی تو تحلیل ہوتا چلا گیا۔ 'جمہوری سویلین‘ حکمرانوں میں آمرانہ روشیں بڑھتی چلی گئیں اور ہر آمریت پہلے سے زیادہ سویلین کاروبار اور اقتدار کی طاقت سے حاصل ہونے والی بے پناہ دولت کی لت کی عادی ہوتی چلی گئی۔ کھیل سارا 'زر کے حصول‘ اور اس کو مجتمع کرنے کا ہے۔ تمام خارجی اور داخلی پالیسیاں‘ دنیا بھر میں ساری سیاست اور ریاستیں انہی کاروباری مفادات کے لئے استوار کی جاتی ہیں۔ جنگوں کی تباہ کاریاں ہوں یا سفارتی منافقت، ریاستوں کے درمیان دوستیاں ہوں یا دشمنیاں‘ حکمت عملی پر مبنی معاہدے ہوں یا تجارتی سمجھوتے، سبھی اس منافع خوری کی ہوس کے مقاصد کے تابع ہوتے ہیں۔ داخلی طور پر بھی تمام پالیسیاں انہی مفادات کی مطیع ہوتی ہیں‘ لیکن جب یہ نظام بحران کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر مختلف سامراجی ممالک اور سرمایہ دارانہ ریاستوں اور مختلف ملکوں کے حکمرانوں اور ان کی ریاستوں کے موضوعی دھڑوں میں تضادات اور تصادم جنم لیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ صورتحال زیادہ سنگین شکل اختیار کر گئی ہے۔ جمہوری قوتیں کرپٹ اور کمزور ہوں اور کوئی ترقی پسند نظریات بھی نہ ہوں‘ خود غرضی کے علاوہ کوئی کردار نہ ہو‘ دولت کی ہوس ان کی تمام حسیات مار دیتی ہو تو 'ضمیر اور اصول‘ منڈی کی مصنوعات بن کر نیلامی کے لئے ان سیاسی دکانوں پر سج جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ اگر اقتدار میں لائے بھی جاتے ہیں تو پھر مدمقابل دھڑے اپنی اس ''محرومی‘‘ کی ضد اور عناد میں اقتدار یافتہ دھڑوں کی ''حکمرانی‘‘ کو ناکام کرنے میں مگن ہو جاتے ہیں‘ اور اقتدار میں لانے والوں کے چرنوں میں ماتھا ٹیک دیتے ہیں۔ وہ جو اقتدار میں چلے جاتے ہیں وہ اپنے آقائوں کے مفادات سے معمولی تجاوز کرنے کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ جب وہ اپنے آپ کو واقعی عوام کی حمایت سے اقتدار تک پہنچانے کی خوش فہمی کا شکار کر لیتے ہیں تو جلد ہی مقتدر قوتیں ان کو اصل اوقات دکھلا دیتی ہیں۔ چونکہ سیاست سے نظریات حذف کر دیئے جاتے ہیں‘ اس لئے عوام کو ان سے حقیقی انس نہیں رہتا۔ عوام کی طاقت کے بغیر سیاست کو کبھی بھی کسی بھی وقت سبکدوش کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی حمایت اس ووٹ اور جمہوریت کے تقدس کے نام پر تو حاصل نہیں کی جا سکتی‘ جس سے محنت کشوں کو صرف رسوائیاں ہی ملی ہیں۔ ٹھیکیداروں اور تشہیر کے لئے بنائے گئے بڑے بڑے میناروں سے روٹی روزی اور تعلیم و علاج نہیں ملا کرتے۔ نام نہاد ترقی کے بلند منصوبوں تلے جو غریبی اور ذلت پلتی ہے‘ اس سے معاشرہ کبھی استحکام حاصل نہیں کر سکتا‘ لیکن نظام میں اگر عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولیات حاصل ہو پائیں تو پھر یہ دولت کے انبار ان کی دیوہیکل تجوریوں اور بینکوں میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اب اس ''کنٹرولڈ‘‘ ڈیموکریسی پر جکڑ زیادہ ہو رہی ہے۔ 'سویلین سیاست‘ کی تمام پارٹیاں اس جکڑ کی خواہاں نظر آتی ہیں‘ کیونکہ جب انہوں نے اس کاروبار کے فروغ کیلئے اقتدار حاصل کرنا ہے تو ان کو جمہوری اور معاشی حقوق سے کیا غرض ہو سکتی ہے؟ ایسے میں جمہوریت اور اسمبلیوں کی حیثیت متحدہ ہندوستان میں 1919ء تک کی پارلیمان جیسی ہو سکتی ہے۔ سو آج ان اسمبلیوں میں جانے کا مقصد فلاح و بہبود نہیں ہے کیونکہ نظام میں ''فلاح و بہبود‘‘ کی گنجائش نہیں ہے۔ 
لوٹ مار کی اس گھمسانی جنگ میں یہ حکمران اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ اس کاروبار میں ان کی نہ صرف حسِ لطافت بلکہ جمالیاتی حس بھی غلیظ ہو جاتی ہے۔ فن و موسیقی، ادب اور دوسرے فنون لطیفہ جو کبھی بالا دست طبقات کا خاصہ ہوا کرتے تھے‘ ان میں اب دلچسپی ختم ہو چکی ہے۔ یہ زوال پورے نظام کے زوال کی غمازی کرتا ہے۔ حکمران اسی نظام کی اس بدنما کیفیت کے آئینہ دار ہیں۔ پھر ہر ہر لمحہ بکنے اور جھکنے والوں کے نہ بکنے اور نہ جھکنے کے ناٹک کیسے؟ یہ اپنی ہوس زر کے لئے کیا کیا نہیں بیچتے اور کہاں کہاں نہیں بیچتے ؟ اب جو سیاسی سپر سٹرکچر بن گیا ہے وہ نہ جمہوری ہے نہ آمرانہ بلکہ ایک 'باطل ملغوبہ‘ بن گیا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسئلہ اب سیاسی اقتدار یا ریاستی اصلاحات سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ ضرورت معاشی اور سماجی نظام کو بدلنے کی ہے۔ لینن نے 1913ء میں اپنی تحریر ''مارکسزم کے تین اجزائے ترکیبی‘‘ میں لکھا تھا: ''عوام ہمیشہ اس سیاست کے فریب اور خود فریبی کے شکار بنے رہے ہیں۔ وہ اس وقت اس جکڑ سے آزاد ہو کر اس کے خلاف بڑی جدوجہد نہیں کر سکتے جب تک وہ اس حقیقت سے آشکار نہیںہوتے کہ تمام اخلاقی‘ مذہبی، سیاسی اور سماجی اقدار‘ اعلانیہ اس نظام کے ان داتائوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے مسلط کیے جاتے ہیں۔ ان (حکمران) طبقات کے جبر کو پاش پاش اسی سماج سے وہ قوتیں کر سکتی ہیں جو ہمارے آس پاس ہیں۔ اپنی سماجی پوزیشن سے وہ طاقت تعمیر کی جا سکتی ہے، ایسا کرنے کیلئے‘ اس متحرک (نظام) کو مٹا کر اک نیا (نظام) تخلیق کرنے کے لئے ان (محنت کشوں کی) طاقت کو جدوجہد کے لئے اجاگر اور منظم کرنا ہو گا‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved