کسی بھی معاشرے کے لیے اِس سے بڑی بدنصیبی کوئی نہیں ہو سکتی کہ اُس کے باشندے ''کام چلاؤ‘‘ ذہنیت کو گلے لگا لیں۔ جب معاشرہ مجموعی طور پر یہ طے کر لیتا ہے کہ کسی نہ کسی طور کام مکمل کرنا ہے تو ترقی کی راہیں مسدود ہونے لگتی ہیں۔ جب سبھی اپنے حصے کے کام کو جیسے تیسے پورا کر کے جان چھڑانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ تب صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اپنے اپنے حصے کے کام سے کسی نہ کسی طور جان چھڑانے کی ذہنیت کیوں پنپتی ہے؟ اس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس ایک سوال کے معیاری جواب سے معاملات کو بہتر بنانے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مجموعی مزاج یہ ہوتا ہے کہ معمول سے ہٹ کر کچھ نہ کیا جائے۔ بعض ترقی یافتہ معاشروں میں معمولات بھی پسماندہ معاشروں سے بہت بہتر ہوتے ہیں مگر خیر، معمولات کے دائرے سے باہر نہ آنے کی ذہنیت خوب پنپتی ہے اور معاملات کو ایک خاص حد سے آگے جانے نہیں دیتی۔
پاکستانی معاشرہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں سبھی چاہتے ہیں کہ زیادہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر بہت کچھ حاصل ہو جائے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے دنیا بھر میں معاشرے بہت کچھ کرتے ہیں۔ تحقیق و ترقی کا بازار گرم رکھ کر معاملات کو زیادہ سے زیادہ اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسی ہر کوشش اپنے نتائج کے ذریعے معاشرے کو کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ دل و دماغ پر پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ چلنے کے بجائے محض گِھسٹنے کے سے انداز سے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ طے کر لیا گیا ہے کہ زندگی کو صرف اور صرف گزارے کی سطح پر رکھنا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ لوگوں نے مجموعی طور پر یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ کسی بھی حوالے سے غیر معمولی محنت کو بروئے کار نہیں لانا؟ صلاحیت اور سکت کے معاملے میں انتہائی حد تک جانے سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم بظاہر کسی بند گلی میں کھڑے ہیں؟
معاشرہ مجموعی طور پر جس ڈھب کا ہوتا ہے لوگ رفتہ رفتہ ویسے ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس طور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے بالکل اُسی طور معاشرے میں بھی لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر ماند پڑتے جاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں ہر طرف کرپشن ہو تو لوگ کرپٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر سُستی اور کاہلی کا چلن ہو تو لوگ سُستی اور کاہلی کو گلے لگاتے چلے جاتے ہیں۔ جن معاشروں میں مثبت رجحانات عام ہوں وہاں لوگ مثبت رویّوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ نہ کچھ بامعنی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں لوگ تعمیری سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جس میں ہر طرف منفی سوچ پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طرف کرپشن اور بے ایمانی ہے اور دوسری طرف تن آسانی و غفلت شعاری۔ لوگ زندگی جیسی نعمت کو انتہائی بے دِلی کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے غیر معمولی ذہنی تیاری یا Orientation کی ضرورت ہے۔
تعلیم ہو یا ملازمت، ہر جگہ صرف ایک ذہنیت کام کر رہی ہے۔ یہ ذہنیت ہے معاملات کو جیسے تیسے نمٹانے کی۔ لوگ ذمہ داریوں سے یوں عہدہ برآ ہوتے ہیں گویا جان چھڑا رہے ہوں۔ بے کیفی ہے کہ مزاج کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ بے دِلی نے دِل میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ معاملات کو انتہائے عدم دلچسپی کے ساتھ نمٹانے کی ذہنیت کچھ اِس شان سے پروان چڑھی ہے کہ اب اُسی کا بول بالا ہے۔
معاملات صرف اپنی بے دِلی تک محدود نہیں۔ حد یہ ہے کہ اب دوسروں کی زندہ دِلی بھی بُری لگنے لگی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ جس روش پر وہ گامزن ہیں دوسرے بھی اُسی روش پر گامزن ہوں۔ کوئی اگر عام ڈگر سے ہٹ کر، کچھ بلند کرنے کی کوشش کر رہا ہو تو اُسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اُسے ''راہِ راست‘‘ پر لایا جائے یعنی سب کی طرح عمومی ڈھنگ سے کام کرنے کی ذہنیت اپنائی جائے۔ ہر پسماندہ معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے میں عمومی سطح پر ایسے لوگوں کو پسند نہیں کیا جاتا جو دوسروں سے زیادہ اور زیادہ اچھی طرح کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں اور ایسا کر گزرنے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہ کرتے ہوں۔ عمومی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے والوں کو پسند نہ کرنے کا سبب یہ ہے کہ وہ تیزی سے مثال کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ بات بات پر اُن کی مثال دی جانے لگتی ہے کہ دیکھو، وہ بھی تو کام کرتا ہے۔ یہ ایک جملہ پورے ماحول کو گندا کر دیتا ہے! ایسے میں لوگوں کے پاس یہی ایک آپشن رہ جاتا ہے کہ زیادہ اور بہتر کام کرنے والوں کو ایسا کرنے سے باز رکھا جائے، عمومی ڈگر پر چلنے کے لیے تیار کیا جائے۔ اور جب تک یہ ''مشن‘‘ مکمل نہیں ہو جاتا لوگ کام میں لگے رہتے ہیں۔
کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت بلند ہو پاتا ہے جب لوگ طے کر لیں کہ عمومی سطح سے بہت بلند ہوکر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے، سکت کے مطابق زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔ ''ارے بس ٹھیک ہے‘‘ والی سوچ کو دھتکارے بغیر ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش نہیں کر سکتے۔ جب تک ہم گزارے والی سطح پر رہتے ہیں تب تک زندگی گزارے کی سطح ہی پر رہتی ہے۔ جب ہم طے کرتے ہیں کہ کچھ کرنا ہے، کچھ بننا ہے تب جوش و خروش کا گراف بلند ہوتا ہے۔ ایسے میں انسان زیادہ قوت اور ولولے کے ساتھ کام کرتا ہے۔ زندگی کو بامعنی اور بامقصد بنانے کی یہی ایک کارگر سبیل ہے۔
ہمیں ایک قوم اور معاشرے کی حیثیت سے طے کرنا ہی پڑے گا کہ اگر کچھ بننا ہے، کچھ کر دکھانا ہے تو گزارے کی سطح سے خاصا بلند ہوکر اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت کو بروئے کار لانا پڑے گا۔ کسی بھی طرح کام چلانے کی عمومی ذہنیت سے فاصلہ رکھتے ہوئے کچھ کرنے کا ارادہ ہی زندگی میں وہ فرق پیدا کر سکتا ہے جو ہمیں دوسروں سے الگ کرے، معاملات کو بہتری کی طرف لے جائے۔
مگر خیر یہ سب کچھ ایسا سادہ اور آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ بے دِلی سے جان چھڑانے کے لیے بہت دِل مارنا پڑتا ہے۔ سارا معاملہ ہی دِل کا ہے۔ یہ راضی تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر دِل زندگی کو بامقصد بنانے کے حوالے سے گرین سگنل دیدے تو سمجھ لیجئے کشتی لگ گئی کنارے سے۔ اور اگر دِل کسی بھی طور نہ مانے تو بنتی بات بھی نہیں بنتی۔ ایسے میں زندگی 'کام چلاؤ انداز‘ کی حامل اور گزارے کی سطح پر رہتی ہے۔ زندگی کس ڈھب کی ہو اور کس انداز سے گزرے یہ فیصلہ کسی اور کو نہیں، آپ کو کرنا ہے۔ صرف آپ طے کر سکتے ہیں کہ معاملات گزارے کی سطح پر رہیں گے اور آپ اوسط درجے کی ذہنی سطح و کارکردگی کے ساتھ جئیں گے یا زندگی کا معیار بلند کریں گے۔ بہرکیف، گزارے کی سطح پر جینا کسی بھی باشعور انسان کی شان نہیں اور ''بس، چلنے دو یار!‘‘ والی ذہنیت کسی طور قابلِِ ستائش اور قابلِ قبول نہیں۔